جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں سرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں
ہٹادیں آپ اگر رخ سے اک ذرا پردہ چمک نہ جائے ابھی برق طور آنکھوں میں
نظر کو حسرت پا بوس ہے مرے سرور کرم حضور کریں پر ضرور آنکھوں میں
کھلے ہیں دیدۂ عشاق قبر میں یوں ہی ہے انتظار کسی کا ضرور آنکھوں میں
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولیٰ! ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
وجود شمس کی برہاں ہے خود وجود اس کا نہ مانے کوئی اگر ہے قصور آنکھوں میں
خدا سے تم کو جدا دیکھتے ہیں جو ظالم ہے زیغ قلب میں ان کے فتور آنکھوں میں
نہ ایک دل کہ مہ و مہر، انجم و نرگس ہے سب کی آرزو رکھیں حضور آنکھوں میں
امنڈ کے آہ نہیں آئے اشک ہائے خوں یہ آرہا ہے دل ناصبور آنکھوں میں
حضور آنکھوں میں آئیں حضور دل میں سمائیں حضور دل میں سمائیں حضور آنکھوں میں
غلاف چشم کے اٹھتے ہی آسمان گئے نظر کے ایسے قوی ہیں طیور آنکھوں میں
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
ہماری جان سے زیادہ قریب ہو ہم سے تمہیں قریب جو ہم کو ہے دور آنکھوں میں
جہاں کی جان ہیں وہ جان سے نہ کچھ منظور عیاں ہے کف کی طرح نزد و دور آنکھوں میں
مے محبت محبوب سے یہ ہیں سر سبز بھری ہوئی ہے شراب طہور آنکھوں میں
ہوا ہے خاتمہ ایمان پر ترا نوریؔ جبھی ہیں خلد کے حور و قصور آنکھوں میں
سامانِ بخشش