کچھ اور میری تمنّا نہیں سوائے کرم کرم کی بھیک دو مجھ کو میں ہوں گدائے کرم تمہاری ذات ہے سرچشمۂ کرم آقا خدائے خلق کیا ہے تمہیں برائے کرم
جن کا شیوہ ہے بندہ نوازی ہے سخی جن کا سرا گھرانہ
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد بانٹنے رحمتوں کا خزانہ
ربط ہے جس عشق نبی سے رشک ِ جنّت ہے وہ بے قراری
ہر تڑپ اک پیامِ سکوں ہے زندگی بن گئی ہے ترانہ
اشک بہتے ہیں ہجرِ نبی میں لطف کچھ بھی نہیں زندگی میں
مسکرائیں گے جس روز ہوگا قافلہ سوئے طیبہ روانہ
اک نگاہ ِ کرم یا محمد بے سہارا ہیں ہم یا محمد
آپ ہی سب کے فریاد رس ہیں آپ سنتے ہیں غم کا فسانہ
بے بسی نے جہاں بھی گرایا آ کے سرکار نے خود اٹھایا
ان کو جلوہ دکھانا تھا اپنا بے بسی بن گئی اک بہانہ
اتنا کامل ہو ذوق محبت اتنا پختہ ہو رنِگ عقیدت
سر جھکائیں جہاں بھی ادب سے رو برو ہو وہی آستانہ
وہ عطا پر عطا کر رہے ہیں رات دن جھولیاں بھر رہےہیں
ان کے ٹکڑوں پہ سب پل رہے ہیں ان کا محتاج ہے سب زمانہ
آفتاب ِ قیامت کی گرمی ہم پہ خاؔلد اثر کیا کرے گی
ہم ہیں ان کے ہمارے سروں پر ان کی رحمت کا ہے شامیانہ