جمالِ نور کی محفل سے پروانہ نہ جائے گا مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
بڑی مشکل سے آیا ہے پلٹ کر اپنے مرکز پر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
یہ مانا خلد بھی ہے دل بہلنے کی جگہ لیکن مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
نشیمن باندھنا ہے شاخِ طوبیٰ پر مقدر کا مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
جو آنا ہے تو خود آئے اجل عمرِ ابد لے کر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
ٹھکانا مل گیا ہے فاتحِ محشر کے دامن میں مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
فرازِ عرش سے اب کون اترے فرشِ گیتی پر مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
دو عالم کی امیدوں سے کہو مایوس ہو جائیں مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا
نہ ہو گر داغِ عشقِ مصطفیٰ کی چاندنی دل میں غلامِ با وفا محشر میں پہنچا نہ جائے گا
حبیبِ کبریا کی عظمتوں سے منحرف ہو کر یہ دعوائے مسلمانی کبھی مانا نہ جائے گا
مِرے سرکار آ کر نقش کر دو اب کفِ پا کو دلِ بیمار کا رہ رہ کے گھبرانا نہ جائے گا
ظہورِ عشق کا موسم کہاں سے لائے گا رضواں اگر باغِ جناں میں ان کامَے خانہ نہ جائے گا
پہنچ جائے گا ان کا نام لے کر خلد میں ارؔشد تہی دامن سہی نازِ غلامانہ نہ جائے گا