تکیں گی حسرتیں حیرت سے منہ ہم ناسزاؤں کا کھلے گا منہ جو محشر میں شفاعت کے خزانوں کا
تسلی آپ خود فرمائیں گے ہم سے غلاموں کی انہیں کیوں کر گوارا رنج ہوگا سوگواروں کا
دم آخر مدینے کی طرف منہ پھیرلیتے ہیں تخیّل کتنا پاکیزہ ہے ان کے تشنہ کاموں کا
الہٰی آج تو پیشانیوں کی لاج رہ جائے چلا ہے قافلہ طیبہ کو پھر آشفتہ حالوں کا
لرزتا ہو نظام ایں و آں جس کے اشارے پر نمونہ حشر کو کیا کہئے اس گل کی اداؤں کا
کہیں گرنے کو ہوتے ہیں تو قدرت تھام لیتی ہے نصیبہ تو کوئی دیکھے کسی کے بے قراروں کا
شفاعت کے لئے راہیں ہُویدا کیجئے یعنی تصور باندھئے ان کی کرم پرور نگاہوں کا
خزانے یہ لٹا دیتے ہیں جب دینے پہ آتے ہیں زمیں سے آسماں تک شور ہے ان کی عطاؤں کا
اشارہ ان کا ہوجائے کبھی وہ دن خدا لائے کہ عالم ہم بھی جا دیکھیں مدینے کی فضاؤں کا
توجہ سنّیوں پر کیوں کر نہ ہو بارہ اماموں کی کہ دامن ہاتھ میں آیا ہے ان کے چار یاروں کا
دعا کیجئے خلیؔل آواز یہ بغداد سے آئے کہ جا ہم نے کیا تجھ کو غلام اپنے غلاموں کا