تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ تو ماہ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
جو ساقئ کوثر کے چہرے سے نقاب اٹھے ہر دل بنے میخانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے کر آنکھیں بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ
سرشار مجھے کر دے اک جام لبالب سے تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
تم آئے چھٹی بازی رونق ہوئی پھر تازی کعبہ ہوا پھر کعبہ کر ڈالا تھا بت خانہ
مست مے الفت ہے مدہوش محبت ہے فرزانہ ہے دیوانہ دیوانہ ہے فرزانہ
میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے ہے ٹوٹا ہوا دل ہی مولیٰ ترا کاشانہ
کیوں زلف معنبر سے کوچے نہ مہک اٹھیں ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا تری شانہ
اس در کی حضور ہی عصیاں کی دوا ٹھہری ہے زہر معاصی کا طیبہ ہی شفا خانہ
ہر پھول میں بو تیری ہر شمع میں ضو تیری بلبل ہے ترا بلبل پروانہ ہے پروانہ
پیتے ہیں ترے درکا کھاتے ہیں ترے درکا پانی ہے ترا پانی دانہ ہے ترا دانہ
ہر آرزو بر آئے سب حسرتیں پوری ہوں وہ کان ذرا دھر کر سن لیں مرا افسانہ
سنگ درجاناں پر کرتا ہوں جبیں سائی سجدہ نہ سمجھ نجدی سر دیتا ہوں نذرانہ
گر پڑ کے یہاں پہنچا مر مر کے اسے پایا چھوٹے نہ الہٰی اب سنگ در جانانہ
سنگ در جاناں ہے ٹھو کر نہ لگے اس کو لے ہوش پکڑ اب تو اے بغزش مستانہ
وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ اے کاش وہ سن لیتے مجھ سے مرا افسانہ
اے مفلسو! نادارو! جنت کے خریداروں! کچھ لائے ہو بیعانہ کیا دیتے ہو بیعانہ
کچھ نیک عمل بھی ہیں یا یوں ہی امل ہی ہے دنیا کی بھی ہر شے کا تم لیتے ہو بیعانہ
کچھ اس سے نہیں مطلب ہے دوست کہ دشمن ہے ان کو تو کرم کرنا اپنا ہو کہ بیگانہ
حب صنم دنیا سے پاک کر اپنا دل اللہ کے گھر کو بھی ظالم کیا بت خانہ
تھے پاؤں میں بے خود کے چھالے تو چلا سر سے ہشیار ہے دیوانہ ہشیار ہے دیوانہ
آنکھوں میں مری تو آ اور دل میں مرے بس جا دل شاد مجھے فرما اے جلوۂ جانانہ
آباد اسے فرما ویراں ہے دل نورؔی جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ
سرکار کے جلووں سے روشن ہے دل نورؔی تا حشر رہے روشن نوریؔ کا یہ کاشانہ
سامانِ بخشش