کلام: حکیم الامت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ
تم ہی ہو چین اور قرارِ دلِ بے قرار میں تم ہی تو ایک آس ہو قلبِ گنہگار میں
روح نہ کیوں ہو مضطرب موت کے انتظار میں سنتا ہوں مجھ کو دیکھنے آئینگے وہ مزار میں
خاک ہے ایسی زندگی وہ کہیں اور ہم کہیں ہے اسی زیست میں مزار جو دیارِ یار میں
بارشِ فیض سے ہوئی کشتِ عمل ہری بھری خشک زمیں کے دن پھرے جان پڑی بہار میں
دل میں جو آکر تم رہو سینے میں تم اگر بسو پھر ہو وہی چہل پہل اُجڑے ہوئے دیار میں
ان کے جو ہم غلام تھے خلق کے پیشوا رہے اُن سے پھرے جہاں پھر آئی کمی وقار میں
قبر کی سونی رات ہے کوئی نہ آس پاس ہے اک تیرے دم کی آس ہے قلبِ سیاہ کار میں
فیض نے تیرے یا نبیﷺ کردیا مجھ کو کیا سے کیا ورنہ دھرا ہوا تھا کیا مٹھی بھر اس غبار میں
جس کی نہ لے کوئی خبر بند ہوں جس پہ سارے در اس کا تو ہی ہے چارہ گر آئے ترے جوار میں
چار رسل فرشتے چار چار کتب ہیں دین چار سلسلے دونوں چار چار لطف عجب ہے چار میں
آتش و آب و خاک بادان ہی سے سب کا ہے ثبات چار کا سارا ماجرا ختم ہے چار یار میں
سر تو سوئے حرم جھکا دل سوئے کوئے مصطفیٰﷺ دل کا خدا بھلا کرے یہ نہیں اختیار میں
اس پہ گواہ ھُوَالَّذِیْ شیشہ حق نما نبیﷺ دیکھ لو جلوۂ نبی شیشۂ چار یار میں
سالکؔ روسیہ کا منہ دعویٰ عشقِ مصطفیٰﷺ پائے جو خدمتِ بلال آئے کسی شمار میں
حکیم الامت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ