تعیّنات کی حد میں نہیں مقام ِ حضور
کہ اوجِ عرش سے بالا ہے اَوجِ بامِ حضور
جبیں حرم میں جھکی دِل جھکا مدینے میں
ضرور روحِ عبادت ہے احترام ِ حضور
لبِ خلوص پہ جب مصطفی کانامِ آیا
تو روح جھوم کے پڑھنے لگی سلامِ حضور
خدا گواہ سراپا دُرود بن جائے
جسے نصیب ہو قسمت سے ایک جامِ حضور
خدا غنی ہے کمی کچھ نہیں خزانے میں
جو مانگتا ہے وہ مانگو مگر بنامِ حضور
جہاں جہاں بھی مصائب ہمیں ستاتے ہیں
ہزاروں رحمتیں آتا ہے لے کے نام ِ حضور
وہی ہیں ساقئ تسنیم وساقئ کوثر! !
نہ تشنہ کام رہیں گے یہ تشنہ کامِ حضور
زبان ِ خواجۂ کونین ہے خدا کی زبان
کلام ِ خالق ِ کونین ہے کلامِ حضور
سلام کرتی ہے ہر موج مجھ کو یوں خاؔلد
مرے سفینے پہ لکھا ہو ا ہے نامِ حضور