تضمین بلغ العلیٰ بکمالہٖ
نہ رسوخ و علم نہ آگہی نہ سخن کی تاب و مجال ہی نہ نگاہ میری ہے دور رس نہ بلند میرا خیال ہی نہ نصیب صحتِ دل مجھے نہ طبیعت اپنی بحال ہی میں لکھوں ثنائے شہِ ہدیٰ لگے مجھ کو امرِ محال ہی ’’بلغ العلیٰ بکمالہٖ ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ حسنت جمیعُ خصالہٖ ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ‘‘
ترا نام چیدہ و منتخب ترا ذکر، ذکرِ جمیل ہے تو دعائے قلبِ خلیل ہے تو حبیبِ ربِ جلیل ہے تو ہے رہنمائے رہِ ہدیٰ تو سراپا حق کی دلیل ہے ہے سخن سخن ترا دل نشیں مرے لب پہ صدقِ مقال ہی ’’بلغ العلیٰ بکمالہٖ ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ حسنت جمیعُ خصالہٖ ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ‘‘
تو امین ہے تو کریم ہے تو رؤف ہے تو رحیم ہے تو ہے رازدانِ حریمِ رب کہ رسائے عرشِ عظیم ہے تو ہے سرِّ حق تو ہے رازِ کن تو خدا کے بعد قدیم ہے تری ذاتِ والا صفات کی نہ برابری نہ مثال ہی ’’بلغ العلیٰ بکمالہٖ ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ حسنت جمیعُ خصالہٖ ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ‘‘
ترے میکدے کی یہ ندرتیں کوئی روک ہے نہ حساب ہے کوئی جس قدر بھی پئے، پئے کہ یہ عین کارِ ثواب ہے نہ پئے اگر تو گناہ وہ کہ بڑا ہی جس پہ عذاب ہے جسے ہو خدا کا ذرا بھی ڈر پئے ایک جامِ سفال ہی ’’بلغ العلیٰ بکمالہٖ ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ حسنت جمیعُ خصالہٖ ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ‘‘
تری بارگاہِ عظیم میں ہمہ وقت جمِ غفیر ہے وہ ہے تاجور یہ فقیر ہے وہ غریب ہے یہ امیر ہے اسے ہے مرض جو گناہ کا تو یہ رنج و غم کا اسیر ہے تو جواب و حسنِ جواب ہے لبِ امتی پہ سوال ہی ’’بلغ العلیٰ بکمالہٖ ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ حسنت جمیعُ خصالہٖ ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ‘‘
وہ کتابِ حق کہ جو تو نے دی اسے پڑھتے ہم ہیں ورق ورق پہ ہزار حیف عمل کے رخ سے بھلا دیا ہے سبق سبق مری زندگی کی کتاب میں نہیں کچھ بھی رنگِ کتابِ حق ہو ترے کرم کی شہا نظر کہ قدم ہیں سوئے زوال ہی ’’بلغ العلیٰ بکمالہٖ ۔ کشف الدجیٰ بجمالہٖ حسنت جمیعُ خصالہٖ ۔ صلو علیہ و اٰ لہٖ‘‘
تضمین نگار : محمد عبد الحمید صدیقی نظؔرلکھنوی