ترے کرم کا خدائے مجیب کیا کہنا
عطا کیا مجھے عشقِ حبیب کیا کہنا
مریض ِ غمِ ہیں بڑے خوش نصیب کیا کہنا
کہ ہے حبیب ِ دو عالم طبیب کیا کہنا
خدا گواہ کہ آسودۂ حیات ہیں ہم
غمِ حبیب ہے ہم کو نصیب کیا کہنا
جِدھر بھی جاتا ہوں پاتا ہوں سامنے ان کو
نظر نوازی حسنِ حبیب کیا کہنا
مریض ہجر سے کہتی ہے دل کی ہر دھڑکن
سکوں نواز ہے ذِکر حبیب کیا کہنا
قسم خدا کی شہنشاہِ ہفت کشور ہے
گدائے دَر گہہ کوئے حبیب کیا کہنا
خدائی مانگنے والوں کو بخش دیتے ہیں
عطا نرالی ہے بخشش عجیب کیا کہنا
نظر میں سرور عالم کا آستانہ ہے
میں دور رہ کے ہوں اتنا قریب کیا کہنا
اس آستانہ اقدس کی خیر ہو خاؔلد
جہاں پہ پلتے ہیں مجھ سے غریب کیا کہنا