ترے دامن کرم میں جسے نیند آگئی ہے
جو فنا نہ ہوگی ایسی اسے زندگی ملی
مجھے کیا پڑی کسی سے کروں عرض مدعا میں
مری لو تو بس انہیں کے درِ جود سے لگی ہے
وہ جہان بھر کے داتا مجھے پھیردیں گے خالی؟
مری توبہ اے خدایہ مرے نفس کی بدی ہے
جو پئے سوال آئے مجھے دیکھ کر یہ بولے!
اسے چین سے سلائو کے یہ بندۂ نبی ہے
میں مروں تو میرے مولیٰ یہ ملائکہ سے کہہ دیں
کوئی اس کو مت جگانا ابھی آنکھ لگ گئی ہے
میں گناہ گارہوں اور بڑے مرتبوں کی خواہش
تو مگر کریم ہے خو تری بندہ پروری ہے
تری یاد تھپکی دیکر مجھے اب شہا سلا دے
مجھے جاگتے ہوئے یوں بڑی دیر ہوگئی ہے
اے نسیم کوئے جاناں ذرا سوئے بد نصیباں
چلی آ کھلی ہے تجھ پہ جو ہماری بے کسی ہے
ترا دل شکستہ اخترؔ اسی انتظار میں ہے
کہ ابھی نویدِ وصلت ترے در سے آرہی ہے