بیاں تم سے کروں کس واسطے میں اپنی حالت کا کہ جب تم پر عیاں ہے حال ہر دم ساری خلقت کا
خدائی بھر کے مالک ہو خدائی تم سے باہر ہے نہ کوئی ہے نہ ہوگا حشر تک تم سے حکومت کا
نہ کیوں شاہ وگدا پھیلائیں جھولی آستانے پر کہ رکھا حق نے تیرے سر پہ تاج اپنی نیابت کا
تو وہ ہے ظل حق نور مجسم پر تو قدرت پسند آیا ترے صانع کو نقشہ تیری صورت کا
مرے والی ترے صدقہ میں ہم سے نابکاروں نے لقب قرآن میں پایا خداسے خیر امت کا
انہیں کیا خوف ہو عقبی کا اور کیا فکر دنیا کی جمائے بیٹھے ہیں جو دل پہ نقشہ تیری صورت کا
شرف بخشا انہیں مولیٰ تعالیٰ نے ملائک پر صلہ پایا یہ جبریل امیں نے تیری خدمت کا
مدینے میں ہزاروں جنتیں ان کو نظر آئیں نظارہ کرتو لیں اک بار رضواں میری جنت کا
رجاؤیاس دامید و تمنا دل کے اندر ہیں مرا سینہ نہیں گویا کہ گنجینہ ہے حسرت کا
نہ عابد ہیں نہ زاہد ہیں مگر ہم تیرے بندے ہیں سہارا ہے ہمیں تیری حمایت کا شفاعت کا
رسول اللہ کا جو ہوگیا رب ہوگیا اس کا فقط ذاتِ مقدس ہےوسیلہ حق کی قربت کا
بلندی فلک کا جب کبھی مجھ کو خیال آیا کھچا نقشہ مری آنکھوںمیں روضے کی زیارت کا
بجز دیدار جاسکتی ہے کیوں کر تشنگی اس کی جو پیاسا ہے مرے مولاتری رویت کے شربت کا
وہ گیسوئے مبارک کیوں نہ جانِ مشک و عنبر ہوں کہ جن کے واسطے شانہ بنا ہے دستِ قدرت کا
عبث ہے اس کو اہلِ بیت سے دعویٰ محبت کا جو منکر ہوگیا صدیق اکبر کی خلافت کا
منافق جس قدر چاہیں کریں کوشش گھٹا نے کی قیامت تک رہے گا بول بالا اہلسنت کا
ابو جہل لعیں عالم ہے جس کے کفر پر شاہد تعجب کیا اگر دشمن تھا وہ شانِ رسالت کا
وہابی کلمہ پڑھ کر کرتے ہیں توہین مولیٰ کی بروز حشر لے کر آئیں گے تمغہ عداوت کا
وہابی تخم بو جہل لعیں کا ایک پودا ہے ثمر لاتا ہےمحبوب الہٰی کی عداوت کا
علوم غیب کا منکر تری تنقیص کا جویاں وہابی بن گیا پتلا ضلالت کا خباثت کا
جمیل قادری کی یا نبی اتنی تمنا ہے چھپا لے روز محشر اس کو دامن تیری رحمت کا
قبالۂ بخشش