بہرِ دیدارِ مشتاق ہے ہر نظر دونوں عالم کے سرکار آجائیے چاندنی رات ہے اورپچھلا پہر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
سدرۃ المنتہیٰ عرش و باغِ ارم ہر جگہ پڑ چکے ہیں نشانِ قدم اب تو اک بار اپنے غلاموں کے گھر دونوں عالم کے سرکارآجائیے
شامِ امید کا اب سویرا ہوا سوئے طیبہ نگاہوں کا ڈیرا ہوا بچھ گئے راہ میں فرشِ قلب و نظر دونو ں عالم کے سرکار آجائیے
سامنے جلوہ گر پیکرِ نور ہو منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو کرکے تبدیل اک دن لباسِ بشر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
دل کا ٹوٹا ہوا آبگینہ لیے جذبۂ اشتیاقِ مدینہ لیے کتنے گھائل کھڑے ہیں سرِ رہ گذر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
میرے گلشن کو اک بار مہکائیے اپنے جلووں کی بارش میں نہلائیے دیدۂ شوق کو کیجیے بہرہ ور دونوں عالم کے سرکار آجائیے
تا ابد اپنی قسمت پہ نازاں رہیں خاک ہوجائیں پھر بھی فروزاں رہیں دل کی بزمِ تمنا میں اک بار اگر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
آخری وقت ہے ایک بیمار کا دل مچلنے لگا شوقِ دیدار کا بجھ نہ جائے کہیں یہ چراغ ِ سحر دونوں عالم کے سرکار آجائیے
شامِ غربت ہے اور شہر خاموش ہے ایک ارؔشد اکیلا کفن پوش ہے خوف کی ہے گھڑی وقت ہے پر خطر دونوں عالم کے سرکار آجائیے