بہاروں کا مرکز دیارِ مدینہ نہ کیوں جنّتیں اس پہ قربان جائیں ہیں فردوس برکف، گلستاں بداماں تمہاری گلی کی معطّر ہوائیں
ہے طٰہٰ جبیں اور والّلیل گیسو حسیں چشمِ مازَاغ، قوسین اَبرو خدا کی قسم مرکزِ حسن ہے تو، جمالِ خدا کی ہیں مظہر ادائیں
جو بیمارِ رنج و اَلم ہو چکے ہیں، جونخچیرِ ظلم و ستم ہوچکے ہیں جو مایوسِ لطف و کرم ہو چکے ہیں، درِ مصطفیٰﷺ پر نصیب آزمائیں
دیارِ محمدﷺ بہشتِ نظر ہے، مہک پاش و گل پوش ہر رہگذر ہے مقدّس زمیں ہے مقدس سفر ہے، فرشتے نہ کیوں اپنی آنکھیں بچھائیں
وہ چُھپنے لگا عاصیو مہرِ محشر، وہ دیکھو ہوئیں رحمتیں سایہ گستر وہ کھولیں محمدﷺ نے زلفیں معنبر، وہ اُٹھیں وہ اٹھیں کرم کی گھٹائیں
کہیں عکسِ عارضِ ضحٰی بن کے چمکا، ہے منظر کہیں زلف کے پیچ و خم کا ہر آیت میں جلوہ ہے حُسنِ کرم کا، ہیں ضَو بار قرآں میں تیری ادائیں
الہٰی نظر آئیں جلوے کرم کے، میسّر جبیں کو ہوں سجدے حرم کے اِس اختؔر کا اب اخترِ بخت چمکے، عطا ہوں اسے بھی ضیؔا کی ضیائیں