بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے
ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے
ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا کو یہ عظمت کس سفر کی ہے
ہم گردِ کعبہ پھرتے تھے کل تک اور آج وہ ہم پر نثار ہے یہ ارادت کدھر کی ہے
کالک جبیں کی سجدۂ در سے چھڑاؤ گے مجھ کو بھی لے چلو یہ تمنّا حجر کی ہے
ڈوبا ہوا ہے شوق میں زمزم اور آنکھ سے جھالے برس رہے ہیں یہ حسرت کدھر کی ہے
برسا کہ جانے والوں پہ گوہر کروں نثار ابرِ کرم سے عرض یہ میزابِ زر کی ہے
آغوشِ شوق کھولے ہے جن کے لیے حطیم وہ پھر کے دیکھتے نہیں یہ دُھن کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہِ مدینہ ہے غافل ذرا تو جاگ او پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے جانِ لو یہ راہِ جاں فزا مِرے مولیٰ کے در کی ہے
گھڑیاں گنی ہیں برسوں کہ یہ سُب گھڑی پھری مر مر کے پھر یہ سل مِرے سینے سے سر کی ہے
اَللہُ اَکْبَر! اپنے قدم اور یہ خاکِ پاک حسرت ملائکہ کو جہاں وضعِ سر کی ہے
معراج کا سماں ہے کہاں پہنچے زائرو! کرسی سے اونچی کرسی اسی پاک گھر کی ہے
عشّاقِ رَوضہ سجدے میں سوئے حرم جھکے اللہ جانتا ہے کہ نیّت کدھر کی ہے
یہ گھر، یہ در ہے اس کا جو گھر، در سے پاک ہے مژدہ ہو بے گھرو! کہ صلا اچھے گھر کی ہے
محبوبِ ربِّ عرش ہے اس سبز قبّہ میں پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
چھائے ملائکہ ہیں تو لگاتا رہے وُردو! بدلے ہیں پہرے بدلی میں بارش دُرَر کی ہے
سعدین کا قران ہے پہلوئے ماہ میں جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلّی قمر کی ہے
ستّر ہزار صبح ہیں ستّر ہزار شام یوں بندگیِ زلف و رُخ آٹھوں پہر کی ہے
جو ایک بار آئے دوبارہ نہ آئیں گے رخصت ہی بارگاہ سے بس اس قدر کی ہے
تڑپا کریں بدل کے پھر آنا کہاں نصیب بے حکم کب مجال پرندے کو پر کی ہے
اے وائے بے کسیِ تمنّا کہ اب امید دن کو نہ شام کی ہے نہ شب کو سحر کی ہے
یہ بدلیاں نہ ہوں تو کروروں کی آس جائے اور بارگاہ مرحمتِ عام تر کی ہے
معصوموں کو ہے عمر میں صرف ایک بار بار عاصی پڑے رہیں تو صلا عمر بھر کی ہے
زندہ رہیں تو حاضریِ بارگہ نصیب مرجائیں تو حیاتِ ابد عیش گھر کی ہے
مفلس اور ایسے در سے پھرے بے غنی ہوئے چاندی ہر اک طرح تو یہاں گدیہ گر کی ہے
جاناں پہ تکیہ خاک نہالی ہے دل نہال ہاں بے نواؤ خوب یہ صورت گزر کی ہے
ہیں چتر و تخت سایۂ دیوار و خاکِ در شاہوں کو کب نصیب یہ دھج کرّ و فر کی ہے
اس پاک کُو میں خاک بسر سر بخاک ہیں سمجھے ہیں کچھ یہی جو حقیقت بسر کی ہے
کیوں تاجْدارو! خواب میں دیکھی کبھی یہ شَے جو آج جھولیوں میں گدایانِ در کی ہے
جارو کشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے
طیبہ میں مرکے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
عاصی بھی ہیں چہیتے یہ طیبہ ہے زاہدو! مکّہ نہیں کہ جانچ جہاں خیر و شر کی ہے
شانِ جمالِ طیبۂ جاناں ہے نفع محض! وسعت جلالِ مکّہ میں سود و ضرر کی ہے
کعبہ ہے بے شک انجمن آرا دُلھن مگر ساری بہار دلہنوں میں دولھا کے گھر کی ہے
کعبہ دُلھن ہے تربتِ اطہر نئی دلھن یہ رشکِ آفتاب وہ غیرت قمر کی ہے
دونوں بنیں سجیلی انیلی بنی مگر جو پی کے پاس ہے وہ سُہاگن کنور کی ہے
سر سبزِ وصل یہ ہے سیہ پوشِ ہجر وہ چمکی دوپٹوں سے ہے جو حالت جگر کی ہے
ما و شما تو کیا کہ خلیلِ جلیل کو کل دیکھنا کہ اُن سے تمنّا نظر کی ہے
اپنا شرف دُعا سے ہے باقی رہا قبول یہ جانیں ان کے ہاتھ میں کنجی اثر کی ہے
جو چا ہے ان سے مانگ کہ دونوں جہاں کی خیر زر نا خریدہ ایک کنیز اُن کے گھر کی ہے
رومی غلام دن حبشی باندیاں شبیں گنتی کنیز زادوں میں شام و سحر کی ہے
اتنا عجب بلندیِ جنّت پہ کس لیے دیکھا نہیں کہ بھیک یہ کس اونچے گھر کی ہے
عرشِ بریں پہ کیوں نہ ہو فردوس کا دماغ اتری ہوئی شیبہ تِرے بام و در کی ہے
وہ خلد جس میں اترے گی ابرار کی برات ادنیٰ نچھاور اس مِرے دولھا کے سر کی ہے
عنبر زمیں، عبیر ہوا، مشکِ تر غبار! ادنیٰ سی یہ شناخت تِری رہ گزر کی ہے
سرکار! ہم گنواروں میں طرزِ ادب کہاں ہم کو تو بس تمیز یہی بھیک بھر کی ہے
مانگیں گے مانگے جائیں گے منھ مانگی پائیں گے سرکار میں نہ ’’لَا‘‘ ہے نہ حاجت اگر کی ہے
اف بے حیائیاں کہ یہ منھ اور تِرے حضور ہاں تو کریم ہے تِری خو درگزر کی ہے
تجھ سے چھپاؤں منھ تو کروں کس کےسامنے کیا اور بھی کسی سے توقّع نظر کی ہے
جاؤں کہاں پکاروں کسے کس کا منھ تکوں کیا پرسشِ اور جا بھی سگِ بے ہنر کی ہے
بابِ عطا تو یہ ہے جو بہکا اِدھر اُدھر کیسی خرابی اس نگھرے در بدر کی ہے
آباد ایک در ہے تِرا اور تِرے سوا جو بارگاہ دیکھیے غیرت کھنڈر کی ہے
لب وا ہیں، آنکھیں بند ہیں، پھیلی ہیں جھولیاں کتنے مزے کی بھیک تِرے پاک در کی ہے
گھیرا اندھیریوں نے دہائی ہے چاند کی تنہا ہوں، کالی رات ہے، منزل خطر کی ہے
قسمت میں لاکھ پیچ ہوں، سو بل، ہزار کج یہ ساری گتھی اِک تِری سیدھی نظر کی ہے
ایسی بندھی نصیب کھلے مشکلیں کھلیں دونوں جہاں میں دھوم تمہاری کمر کی ہے
جنّت نہ دیں، نہ دیں، تِری رویت ہو خیر سے اس گُل کے آگے کس کو ہوس برگ و بر کی ہے
شربت نہ دیں، نہ دیں، تو کرے بات لطف سے یہ شہد ہو تو پھر کسے پَروا شکر کی ہے
میں خانہ زاد کہنہ ہوں صورت لکھی ہوئی بندوں، کنیزوں میں مِرے مادر پدر کی ہے
منگتا کا ہاتھ اٹھتے ہی داتا کی دین تھی دوری قبول و عرض میں بس ہاتھ بھر کی ہے
سنکی وہ دیکھ بادِ شفاعت کہ دے ہوا یہ آبرو رضؔا تِرے دامانِ تر کی ہے
حدائقِ بخشش