بال، پر والے گئے اُڑ کر مدینے کے قریب میں پہنچتا کس طرح بے پر مدینے کے قریب
پا شکستہ، نا تواں بے توشہ رہ گم کردہ ام کاش پہنچا دے کوئی رہبر مدینے کے قریب
آہ قسمت گر مِرا تائید پر ہوتا نصیب میں پہنچتا اب تلک جا کر مدینے کے قریب
روضۂ اقدس کو با عینِ ادب دیکھا کروں دے مکاں گر خالق ِ اکبر مدینے کے قریب
اُس دیارِ جاں فزا میں کاش ہم پائے وطن پھرتے رہتے روز شب اکثر مدینے کے قریب
میرے جسمِ ناتواں کو بر سرِ سیلِ شریک تو جو پہنچے موجِ چشم تر مدینے کے قریب
جتنے ہیں وہ ساکنانِ روضۂ خلدِ بریں پھرتے رہتے ہیں جو وہ اکثر مدینے کے قریب
آہ دردا وا دریغا حسرتا وا حسرتا کاش کے ہوتا مِرا بھی گھر مدینے کے قریب
وجد کے عالَم میں جاتا لوٹتا آنکھو کے بل دیکھ کر وہ گنبدِ اَخضر مدینے کے قریب
سنی جَنَّات تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھَار ہے ہے نہر جو صاحبِ کوثر مدینے کے قریب
ایک دم کےدم میں گر چاہے خدائے روزگار اُڑ کے پہنچے کافؔیِ مضطر مدینے کے قریب