باخبر سرِ حقیقت سے وہ مستانے ہیں
جن کی قسمت میں ترے عشق کے پیمانے ہیں
اب تو بے خواب نگاہوں کو دکھادو جلوہ
کب سے محروم بہاروں سے یہ ویرانے ہیں
لاج رکھنا مرے سرکار کریمی ہوگی،
بس مرے پاس تو نعمتوں کے یہ نذرانے ہیں
لوحِ محفوظ پہ رہتی ہیں نگاہیں ان کی
میرے آقا مرےمولا کے جو دیوانے ہیں
اپنی رحمت سے انہیں رنگِ حقیقت دے دو
مری ہستی کے جو بکھرے ہوئے افسانے ہیں
عشقِ سرکار مدینہ کی جو پیتے ہیں شراب
ان کی آنکھیں نہیں تو حید کے میخانے ہیں
چشم عالم میں ضیا بن کے رہا کرتے ہیں
واقعی شمعِ رسالت کے جو پروانے ہیں
اُن کو بس ان کو سمجھتا ہوں میں اپنا خاؔلد
یادِ سرور میں جو کونین سے بیگانے ہیں