ایک ذرّے کوبھی خورشید بناتے دیکھا
اُن کو ہر حال میں تقدیر جگاتے دیکھا
واقعی اب بھی دلوں پر ہے حکومت اُن کی
سر کشوں کو سرِ تسلیم جُھکاتے دیکھا
آنکھیں پڑھتی ہیں اگر دیکھ کے روضے کو درود
آنسوؤں کو بھی وہاں نعت سُناتے دیکھا
درد دیوار ہیں روشن کہیں آنسو روشن
جشن میلاد ہر ایک شے کو مناتے دیکھا
آپ کی قوّت بازو پہ تصدّق دل و جاں
بار اُمت کے گناہوں کا اٹھاتے دیکھا
آپ کے آنے کا ایقان اِسے کہتے ہیں
ہم نے عشاق کو گھر بار سجاتے دیکھا
دل کہاں اور کہاں آپ کے جلوے آقا
ہم نے کوزے میں بھی دریا کو سماتے دیکھا
جن کو دنیا میں کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا
اُن کو بھی دامن ِ رحمت میں چھپاتے دیکھا
اُس نے محسوس کیا عشق کسے کہتے ہیں
جس نے خاؔلد کو کبھی نعت سناتے دیکھا