ارمان نکلتے ہیں دل کے آقاﷺ کی زیارت ہوتی ہے کون اس کو قیامت کہتا ہے ایسی بھی قیامت ہوتی ہے
طیبہ کا تصور کیا کہیے اک کیف کی حالت ہوتی ہے جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں بس سامنے جنّت ہوتی ہے
احساس فزوں جب ہوتاہے اُس بابِ کرم سے دوری کا وہ قلب ہی جانے بے چارہ جو قلب کی حالت ہوتی ہے
ہے ان کی رضا پر حق کی رضا اور ان کا کیا ہے حق کا کیا جو اُن کا ارادہ ہوتاہے وہ حق کی مشیّت ہوتی ہے
اُس باعثِ خلقِ عالم کا جب نام لبوں پر آتا ہے راحت سے بدل کر رہتی ہے جو کوئی مصیبت ہوتی ہے
طیبہ کی بہارِ دل کش کا جب تذکرہ کوئی کرتا ہے اُس وقت مریضِ الفت کی کچھ اور ہی حالت ہوتی ہے
مختارِ جہاں ہیں وہﷺ، تحسیؔں! جو مانگو وہ اُن سے ملتاہے تقسیم اُنھیں کے درسے تو کونین کی دولت ہوتی ہے