اہل جہاں کو درد کا چارا نہیں نصیب
جب تک تری نظر کا اِرشاد انہیں نصیب
اس کی جگہ ہے دامنِ رحمت پناہ میں
جِس بے نوا کو کائی سہارا نہیں نصیب
ایمان و آگہی ہیں وہی، زندگی وہی
ان کی عطا نہ ہو تو گزارا نہیں نصیب
وہ عرصۂ حیات تو بدتر ہے موت سے
جِس لمحہ ہم کو ان کا نظارا نہیں نصیب
کس پر کرم نہیں شہ بے کس نواز کا
ہے کون جس کو ان کا اتارا نہیں نصیب
محروم ہے وہ رحمت ِ پروردِگار سے
جس انجمن کو ذِکر تمہارا نہیں نصیب
جو پا چکا سفینہ عُشاقِ مصطفی
موجو! تمہیں بھی ایسا کنارا نہیں نصیب
دل بھی دیا تو سرورِ کونین کو دیا
ہم نے خدا کے فضل سے ہارا نہیں نصیب
خاؔلد اس آستاں پہ جبیں جگمگا اٹھی
یہ کیسے مان لوں کہ ستارا نہیں نصیب