اگر چشمِ بصیرت ہو تو ظاہر ہے یہ قرآں سے بیاضِ کُن کی رب نے ابتدا کی ہے کس عنواں سے
احاطہ ہو نہیں سکتا کبھی ادراکِ انساں سے بہت آگے تِری عظمت کی حد ہے حدِّ امکاں سے
نظر مشتاق، دل بیتاب، جاں پُرسوز، نَم آنکھیں چلا ہوں جانبِ طیبہ نرالے ساز و ساماں سے
مدینے کی بہاریں پھر مدینے کی بہاریں ہیں بدل دیتی ہیں یہ تقدیر صحرا کی گلستاں سے
فراقِ مصطفیٰﷺ کی رات کیسی جگمگاتی ہے؟ تسلسل آنسوؤں کا کم نہیں جشنِ چراغاں سے
تعالیٰ اللہ اوجِ درس گاہِ سرورِ عالم فرشتوں کو سبق لیتے ہوئے دیکھا ہے انساں سے
سُرورِ لذتِ حسنِ عمل اس سے کوئی پوچھے جسے بھی ایک چٹکی مل گئی ان کے نمکداں سے
مدیحِ خاص ممدوحِ ازل خود حق تعالیٰ ہے ادا وصفِ نبیﷺ کا حق ہو کیا اختؔر ثناخواں سے