اپنے در پہ جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو
میری بگڑی جو بناؤ تو بہت اچھا ہو
قید شیطاں سے چھڑاؤ تو بہت اچھا ہو
مجھ کو اپنا جو بناؤ تو بہت اچھا ہو
گردشِ دور نے پامال کیا مجھ کو حضور
اپنے قدموں میں سلاؤ تو بہت اچھا ہو
یوں تو کہلاتا ہوں بندہ میں تمہارا لیکن
اپنا کہہ کے جو بلاؤ تو بہت اچھا ہو
غمِ پیہم سے یہ بستی مری ویران ہوئی
دل میں اب خود کو بساؤ تو بہت اچھا ہو
کیف اس بادۂ گلنار سے ملتا ہی نہیں
اپنی آنکھوں سے پلاؤ تو بہت اچھا ہو
تم تو مردوں کو جلا دیتے ہو میرے آقا
میرے دل کو بھی جِلاؤ تو بہت اچھا ہو
جس نے شرمندہ کیا مہر و مہ و انجم کو
اک جھلک پھر وہ دکھاؤ تو بہت اچھا ہو
رو چکا یوں تو میں اوروں کے لئے خوب مگر
اپنی الفت میں رلاؤ تو بہت اچھا ہو
یوں نہ اخترؔ کو پھراؤ مرے مولیٰ در در
اپنی چوکھٹ پہ بٹھاؤ تو بہت اچھا ہو