اور تو کچھ بھی نہیں حسنِ عمل میرے پاس
مجھ خطا کار کو سرکار کی رحمت کی ہے آس
پوچھے جائیں گے سر حشر جب اعمال میرے
ان کی مدحت کو بناؤں گا میں بخشش کی اساس
لے کے سینے میں ہم انوار حرم آئے ہیں
بن کے طیبہ سے بھی تصویر کرم آئے ہیں
ان کا آنا بھی ہے عنوان کرم صلی علی
جب بھی آئے ہیں وہ مائل بہ کرم آئے ہیں
جب بھی یاد ان کو کیا ہے یہی محسوس ہوا
میرے گھر رحمتِ عالم کے قدم آئے ہیں
دیکھ لیں ایک نظر آپ تو سب کچھ مل جائے
ہم بھی دل میں لئے امید ِ کرم آئے ہیں
مل گئی دولتِ کونین نہ کیوں ناز کروں
میرے حِصّے میں فقط آپ کے غم آئے ہیں
سجدۂ شوق رہا ان کے قدم سے منسوب
ہم مدینےمیں بھی از راہ ِ حرم آئے ہیں
ان کی تعریف سے قاصر ہی رہے ہیں خاؔلد
لے کے احساس یہی اہل قلم آئے ہیں