تضمین بر نعت حضرت لسان الحسّان علّامہ ضیاء القادری بدایونی
انوار کی بارش ہوتی ہے، ضَو بار گھٹائیں ہوتی ہیں! ڈوبی ہوئی کیفِ حمد میں جب بلبل کی نوائیں ہوتی ہیں! پھولوں پہ نسیمِ جنت کی قربان ادائیں ہوتی ہیں طیبہ کے شگفتہ باغوں کی دلکش وہ فضائیں ہوتی ہیں خوشبو سے معطّر دم بھر میں عالم کی ہوائیں ہوتی ہیں پر کیف ہوائیں طیبہ کی عنوانِ ترنّم کیوں نہ بنیں خاموش فضائیں وقتِ سحر فطرت کا تکلّم کیوں نہ بنیں ضَو بخش ضیائیں تاروں کا زرپاش تبسّم کیوں نہ بنیں مینارِ حرم کے جلووں سے تارے مہ و انجم کیوں نہ بنیں روضہ پہ تجلّی بار آکر، سورج کی ضیائیں ہوتی ہیں ہستی کی رہِ مشکل میں مجھے خطرہ ہے نہ کوئی اب غم ہے یا سرورِ عالم شام و سحر جب میرے لبوں پر ہر دم ہے مِن جانبِ حق اے صلِّ علیٰ الطاف کی بارش پیہم ہے عنوانِ مناجات بخشش سرکار کا اسمِ اعظم ہے نامِ شہِ دیں کی برکت سے مقبول دعائیں ہوتی ہیں کیوں سامنے سب کے محشر میں ہوں نادم و رُسوا اَب عاصِی دامانِ کرم کے سائے میں ہیں روزِ ازل سے سب عاصی وہ کچھ بھی سہی، پھر بھی ہیں مگر محبوبِ حبیبِﷺ رب عاصی روتے ہیں خطاؤں پر اپنی ہو ہو کے پشیماں جب عاصی مولیٰ کی طرف سے بندوں پر کیا کیا نہ عطائیں ہوتی ہیں ہوتے ہیں روانہ سُوئے عدم، جو دید کی حسرت دل میں لئے ہر گام پہ لَا تَحْزَنْ کے انہیں آتے ہیں نظر اختؔر جلوے آنکھوں سے حریمِ انور تک اُٹھ جاتے ہیں دُوری کے پردے مرقد کی اندھیری راتوں میں ہوتے ہیں ضیؔا روشن چہرے روضے کی حسِیں قندیلوں کی سینے میں ضیائیں ہوتی ہیں