امید بوسہ پائے نبی ﷺ میں رہے کیا کیا یہ حسرت اپنے جی میں
بجائے نقش پا میں کاش ہوتا یہی کہتا ہوں ہر دم بیکلی میں
رسول اللہ کے الطاف و اخلاق پڑہے جیسے کتاب ترمذی میں
ہوا ثابت نہ ہوگا مثل ان کے ملک جن وبشر حور وپری میں
رُلاتی ہے اسے شوق رہائی تڑپتا ہے امید مخلصی مین
نکلتے ہیں تمامی حسرت دل اگر مرجائیں ہم ان کی گلی میں
سنا تھا ماجرائے شعلۂ طور دکھایا اس نے یہ عالم ہنسی میں
قد عالم کی کچہہ نسبت نہ پاوے منور بر سر و شمشادو سہی ہیں
کہون کیا حال کاؔفی ہم صفیرو پہنسا ہے جب سے دام بےکسی میں