امنگیں جوش پر آئیں ارادے گدگداتے ہیں جمیلِ قادری شاید حبیب حق بلاتے ہیں
جگا دیتے ہیں قسمت چاہتے ہیں جس کی دم بھرمیں وہ جس کو چاہتے ہیں اپنے روضے پر بلاتے ہیں
انہیں مل جاتا ہے گویا وہ سایہ عرش اعظم کا تری دیوار کے سایہ میں جو بستر جماتے ہیں
مقدر اس کو کہتے ہیں فرشتے عرش سے آکر غبار رفرش طیبہ اپنی آنکھوں میں لگاتے ہیں
خدا جانے کہ طیبہ کو ہمارا کب سفر ہوگا مدینے کو ہزاروں قافلے ہر سال جاتے ہیں
شہ طیبہ یہ قوت ہے ترے در کے گداؤں میں وہ جس کو چاہتے ہیں شاہ دم بھر میں بناتے ہیں
مدینے کی طلب میں جونہیں لیتے ہیں جنت کو انہیں تشریف لاکر حضرت رضواں سناتے ہیں
تصدق جان عالم اس کریمی و رحیمی کے گنہ کرتے ہیں ہم وہ اپنی رحمت سے چھپاتے ہیں
وہابی قادیانی کا ندھوی و نیچری سب کی خبر لینا یہ ہر دم اہلسنت کو ستاتے ہیں
جمیلِ قادری کو دیکھ کر حوروں میں غل ہوگا یہی ہیں وہ کہ جو نعت حبیب حق سناتے ہیں
قبالۂ بخشش