حضرت سیدی ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ
نام و نسب:
اسم گرامی: محمد ۔ کنیت: ابو عبد اللہ ۔ لقب: امام المحدثین، امیر المؤمنین فی الحدیث ۔
سلسلۂ نسب اس طرح ہے:
محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ بخاری جعفی ۔ آپ کے جد اعلیٰ مغیرہ نے حاکمِ بخارا، یمان جعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اس لیے آپ کو جعفی کہا جاتا ہے " بخارا " کی نسبت سے بخاری کہا جاتا ہے ۔
تاریخِ ولادت:
آپ کی ولادت 13 شوال المکرم 194ھ، بمطابق 19جولائی 810ء بروز جمعہ بعد نمازِ عصر یا عشاء بخارا میں پیدا ہوئے ۔
تحصیلِ علم:
امام بخاری نے "بخارا" میں ابتدائی تعلیم کے بعد صغر سنی میں ہی تحصیلِ حدیث کی جانب متوجہ ہو گئے تھے، اور دس سال کی عمر میں امام داخلی علیہ الرحمہ کے حلقۂ درس میں شریک ہونے لگے اور اپنی خدا داد قوت حفظ و ضبط سے حدیثوں کی اسناد و متون کو ذہن میں محفوظ کرنے لگے ۔
قوت حفظ و ضبط کا یہ عالم تھا کہ 18 سال کی عمر میں آپ نے عبد اللہ بن مبارک علیہ الرحمہ کی تمام کتابیں اور وکیع اور دیگر اصحابِ امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی کتابوں کو ازبر کر لیا تھا ۔
اسی عمر میں آپ نے روضۂ انور کے سائے میں بیٹھ کر " التاریخ الکبیر " تصنیف فرمائی ۔ 216ھ میں طلبِ حدیث کے لئے آپ نے مکۃ المکرمہ کی طرف پہلا سفر کیا ۔ اس کے علاوہ طلبِ حدیث کے لئے آپ نے مصر اور شام دو مرتبہ، بصرہ چار مرتبہ اور بے شمار مرتبہ بغداد اور کوفہ کا سفر کیا ۔
آپ نے ایک ہزار سے زائد اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ امیر المؤمنین فی الحدیث کے منصب پر فائز ہو گئے، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی تصنیف " بخاری شریف " امت میں مقبولیتِ عامہ عطاء فرمائی ۔
قوتِ حافظہ:
قدرت نے امام بخاری علیہ الرحمہ کو بے مثال ذہانت اورقوت حفظ و ضبط سے سر فراز فرمایا تھا ۔آپ انتہائی بیدار مغز اور روشن دماغ انسان تھے ۔ قرطاس و قلم پر اتنا اعتماد نہیں کرتے تھے جتنا انہیں اپنے لوحِ ذہن پر بھروسہ تھا ۔
حاشد بن اسماعیل عہد بخاری کے زبردست محدث تھے فرماتے ہیں: امام بخاری طلب حدیث کے لیے میرے ہمراہ شیوخ وقت کی خدمت میں آمد و رفت رکھتے تھے لیکن ان کے پاس عام طلبہ کی طرح قلم و دوات اور کاغذ کچھ نہ ہوتا تھا میں نے ان سے کہا جب تم حدیث سن کر تحریر نہیں کرتے تو تمہاری آمد و رفت اور سماع کا کیا فائدہ؟ : یہ سماع تو ہَوا کی مانند ہے جو ایک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل گیا ـ
سولہ دن بعد امام بخاری نے مجھ سے کہا تم لوگوں نے مجھ کو بہت تنگ کر دیا آؤ اب میری یاد داشت کا اپنے نوشتوں سے مقابلہ کرو ۔ اس مدت میں ہم نے پندرہ ہزار حدیثیں لکھیں تھیں امام بخاری نے صحت کے ساتھ سب کو اس طرح سنایا کہ میں اپنی حدیثوں کو ان سے صحیح کرتا تھا ـ
امام بخاری خود فرماتے تھے:
کہ میں نے اپنی صحیح کا چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کیا ہے ۔ (تذکرۃ المحدثین ص:196)
سیرت و خصائص:
امام بخاری علیہ الرحمہ نے جس اخلاص و انہماک کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کریمہ کو سینے میں محفوظ کیا تھا اسی طرح انہوں نے اپنی ذات و صفات کو اخلاق نبوی ﷺ کے سانچے میں ڈھال لیا تھا زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت، حسن اخلاق، حق گوئی و حق شناسی میں ممتاز تھے ۔ حلم و مروت کے پیکر تھے ۔ کبھی کسی کو برائی سے یاد نہ کرتے اور برائی کا بدلہ ہمیشہ نیکی سے دیتے ۔ ہر شخص کی عزت نفس کا لحاظ رکھتے آپ بےحد صابر انسان تھے، اور اپنی ذات کا انتقام بِالکل ہی نہ لیتے تھے ۔ آپ بہت ہی متواضع اور منکسر المزاج واقع ہوئے تھے ۔ بڑی سادہ زندگی بسر کرتے اور اپنے کام خود کر لیا کرتے تھے ۔ کسی دوسرے کو زحمت نہ دیتے ۔
آپ کے شاگرد محمد بن حاتم وراق بیان کرتے ہیں: کہ ایک مرتبہ امام بخاری علیہ الرحمہ بخارا کے قریب سرائے بنا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں ہی سے دیوار میں اینٹیں لگا رہے تھے میں نے آگے بڑھ کر کہا آپ رہنے دیجیے میں یہ انٹیں لگا دیتا ہوں آپ نے فرمایا قیامت کے دن یہ عمل مجھے نفع دے گا ۔ وراق کہتے ہیں کہ جب ہم امام بخاری علیہ الرحمہ کے ساتھ کسی سفر میں جاتے تو آپ ہم سب کو ایک کمرے میں جمع کر دیا کرتے اور خود علیحدہ رہتے ۔
ایک بار میں نے دیکھا امام بخاری علیہ الرحمہ رات کو پندرہ بیس مرتبہ اٹھے اور ہر مرتبہ اپنے ہاتھ سے آگ جلا کر چراغ روشن کیا کچھ احادیث نکالیں ان پر نشانات لگائے پھر تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ گئے ـ میں نے عرض کیا آپ نے رات کو اٹھ کر تنہا مشقت برداشت کی مجھے اٹھا لیتے فرمایا تم جوان ہو اور گہری نیند سوتے ہو میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ (محدثین عظام حیات و خدمات، ص:321) ۔
امراء / مالداروں سے دوری:
امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی علمی دیانت اور وقار کو کبھی مجروح نہ ہونے دیا ۔ اپنی ذات اور ضرورت کے لیے امراء و رؤسا کے دروازوں پر ہر گز نہ گئے ۔ ہمیشہ حکمرانوں اور مالداروں سے دور رہتے تھے ۔
جب گھر جا کر پڑھانے کے لئے کہا:
جب حاسدین نے حاکمِ بخارا خالد بن احمد ذہلی سے کہا کہ آپ امام بخاری سے کہیں کہ وہ آپ کے بیٹے کو گھر آکر پڑھایا کریں ۔ حاکمِ بخارا نے اس خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا میں علم کو سلاطین کے دروازے پر لے جا کر ذلیل کرنا نہیں چاہتا ۔ پڑھنے والے کو میرے درس میں آنا چاہیے ۔
والئ بخارا نے کہا اگر میرا لڑکا درس میں آئے تو وہ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں پڑھے گا، آپ کو اسے علیحدہ پڑھانا ہوگا ۔ امام بخاری نے جواب دیا میں کسی شخص کو احادیث رسول ﷺ کی سماعت سے نہیں روک سکتا ۔ اس کے بعد آپ کو اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔
ایک بار آپ کے مضارب تاجر نے پچیس ہزار لے کر دوسرے ملک میں سکونت اختیار کی امام صاحب سے لوگوں نے کہا کہ مقامی حاکم کا خط لے کر اس علاقہ کے حاکم کے پاس پہنچا دو روپیہ آسانی سے مل جائے گا امام بخاری نے فرمایا: اگر میں نے اپنے روپے کے لئے حکام سے سفارش لکھواؤں تو کل یہ حکام میرے دین میں دخل دیں گے اور میں اپنے دین کو دنیا کے عوض ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ آج کل کے علماء کے لئے اس میں عظیم سبق ہے ۔
امام صاحب کا ادب الحدیث:
حدیث شریف کو کتاب میں ذکر کرنے سے پہلےآپ غسل کرتے اور خوشبو لگاتے تھے ۔ اس کے بعد آپ دو رکعت نفل ادا کرتے ۔ پھر اس حدیث کی صحت کے بارے میں استخارہ کرتے اس کے بعد اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کرتے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے ایک مرتبہ مسودہ لکھا ۔ دوسری مرتبہ مبیضہ تیار کیا اور تیسری مرتبہ ہر حدیث کو رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کرتے اور جس حدیث کے بارے میں بالمشافہ یا خواب کے ذریعے حضور ﷺ سے اجازت مل گئی اور اس کی صحت کا یقین کامل ہو گیا اس کو اپنی صحیح میں درج کر لیا ۔ (الشعۃ اللمعات، ص:10) ۔
وصال:
بروز جمعۃ المبارک، یکم شوال المکرم، 250ھ / بمطابق یکم ستمبر 870ء ۔ 61 سال 11ماہ 18 یوم کی عمر پاکر رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی خدمت کرتے ہوئے دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف منتقل ہوئے ۔
قبر مبارک:
خرتنگ نزد سمرقند موجودہ ازبکستان میں محو آرام ہیں ۔ آپ کی قبر مبارک سے مدتوں ایسی خوشبو آتی رہی جو مشک و عنبر سے بھی عمدہ تھی لوگ قبر کی مٹی تبرکاً لےجاتے رہے ۔ (ھدی الساری، ج:2، ص:266) ۔ آپ کی قبر انور پر دعا قبول ہوتی ہے ۔ (ارشاد الساری، ج:1، ص:39)