سراپائے مبارک
اللہ رے وہ حسین پیکر جس پہ ہو نثار ماہِ انور کیا نورِ نگاہِ آمنہ کا بے مثل ہے دلنشیں سراپا رعنائیاں خلد کی سمٹ کر انساں کی ہیں شکل میں زمیں پر یہ منظر گلستانِ قدرت ہے پیشِ نظر بشر کی صورت ہے شکلِ بشر، سوا بشر سے انسان، مگر جُدا بشر سے واللہ ہے کیا حسیں سراپا ہے ظلِّ خدا حسیں سراپا صورت گرِ دوجہاں کا مظہر ہے ذاتِ عیاں نہاں کا مظہر