افلاک سے اونچا ہے ایوان محمد کا مخلوق الٰہی ہے سامان محمد کا
پاتے ہیں سبھی صدقہ ان کے در اقدس سے ہر ذرۂ عالم ہے مہمان محمد کا
ہوتی ہے ہراک نعمت تقسیم مدینے سے کونین میں جاری ہے فیضان محمد کا
دیتے ہیں ملک پہرہ سرکار کے روضے پر جبریل معظم ہے دربان محمد کا
عالم ہے اگر شیدا ان پر تو تعجب کیا خود چاہنے والا ہے رحمٰن محمد کا
شاہان جہاں کیوں کر رکھیں نہ سر آنکھوں پر فرمان الٰہی ہے فرمان محمد کا
حور و ملک و غلماں جن و بشر و حیواں لیتے ہیں سبھی سر پر فرمان محمد کا
طیبہ کو جاتا ہے کہتے ہیں ملک باہم لو دیکھو وہ آتا ہے مہماں محمد کا
تکلیف حضر سے تو دل تنگ نہ ہو زائر برسے گا ترے اوپر باران محمد کا
رویا میں نہ دیکھا گر وہ چہرۂ نورانی لے جاؤں گا دنیا سے ارمان محمد کا
افسوس کہ اے بلبل تو نے نہ کبھی دیکھا بے خار گلستاں ہے بستاں محمد کا
کیوں چاک ہو غم سے دل کیوں فوج الم گھیر سر پر ہے غلاموں کے دامان محمدکا
دنیا کی سبھی باتیں مٹ جائیں مرے دل سے ہو در زباں کلمہ ہر آن محمد کا
جب مدح و ثنا حق نے قرآن میں فرمائی کیا منہ ہے جو واصف ہو انسان محمد کا
تقدیر جمیل اپنی شاہوں سے رہے بڑھ کر سگ اپنا بنائے گرد ربان محمد کا
قبالۂ بخشش