اعمال کے صدف کو نگینہ ملا ہے آج بندوں کو مغفرت کا خزینہ ملا ہے آج
تعمیر ہو رہی ہے عطاوں کی کائنات ہر قلب کو سُرُور کا سینہ ملا ہے آج
مجرم بھی جاسکیں گے کرم کی پناہ میں پائے طلب کو فیض کا زینہ ملا ہے آج
رکھدیجئےجبینِ وفا، چشمِ تَر کے ساتھ مقبول بندگی کا قرینہ ملا ہے آج
فرمارہاہےرب،کہ میں راضی ہوں مومنو شمعِ دعا کو نورِ “رضینا ” ملا ہے آج
لوگو ! شبِ برات مبارک ہو آپکو دستِ کرم سے جامِ شبینہ ملا ہے آج
سیراب ہورہے ہیں غلامان مصطفٰی میخانۂ رسول کا مینا ملا ہے آج
دل کی سیاہی مٹ گئ توبہ کےنور سے ہستی کو ایک گوہرِ بینا ملا ہے آج
شیطان کیا ڈبوئےگا، بحر گناہ میں عفو وکرم کا ہمکو سفینہ ملا ہے آج
اشکوں سے دُھل گیا ہے غبارِ دل و نظر بےچینیوں کو ، باغ سکینہ ملا ہے آج
کچھ وہ ہیں جنکےنام پہ لکھدی گئ ہے موت کچھ وہ ہیں جنکو اور بھی “جینا” ملا ہے آج
حج کےبھی ہورہےہیں اِسی شب میں فیصلے خوش بخت ہیں وہ،جنکو مدینہ ملاہےآج
تابِندہ اِسلئے ہـے ، فریدی مرا قلم لعلِ سخن کا مجھکو دفینہ ملا ہے آج