اب کہاں حشر میں اندیشہء رُسوائی ہے
آنکھ اللہ کےمحبوب کی بَھر آئی ہے
یا محمد وہ تری شانِ دِل آرائی ہے
جس کا شیدا ہے خدا خلق تمنّائی ہے
عشق کی اور کہاں ایسی پذیرائی ہے
آ اِدھر آ یہ مدینے سے صَدا آئی ہے
ہر خوشی ایک ہی نقطے پہ سمٹ آئی ہے
جب توجّہ مرے سرکار نے فرمائی ہے
وسعتوں کو تری رحمت نے دیا ہے مفہوم
قربِ قوسین ترے اورج کی انگڑائی ہے
عرش بھی اس کے لیے فرش ہوا جاتاہے
جس نے سرکار کے قدموں میں جگہ پائی ہے
زندگی مردہ ضمیروں کو عطا فرمادی
کتنی اعلیٰ مرے آقا کی مسیحائی ہے
سر جھکا یا تو مدینہ ہی مقابل پایا
کتنی مقبول محبت کی جبیں سائی ہے
وعدہءِ بخششِ امت بھی تھا کافی، لیکن
اے خدا تو نے محمد کی قسم کھائی ہے
اپنے دامن میں چھپالیں گے شفیع محشر
کب غلا موں کی گوارا انہیں رسوائی ہے
آپ کو دیکھکے دیکھا ہے خدا کو سب نے
آپ کی ذات ہی آئینہ یکتائی ہے
یہ دَرِ رحمتِ عالم ہےیہاں پر خاؔلد
قبل فریاد ہی فریاد کی شنوائی ہے