آیا لبوں پہ ذِکر جو خیر الانام کا
غوغا ہوا بلند دُورد و سلام کا
مجھ پر نثار ہونے لگیں مستیاں تمام
میں کر رہا تھا وِدد محمد کے نام کا
جلوؤں کی بھیک دے مجھے اےجانِ مدعا
شہرہ ہے دو جہاں میں ترے فیض ِ عام کا
سب لے کے آرہےہیں مرادیں، میں اپنا دل
کر لیجئے قبول یہ تحفہ غلام کا
اسریٰ کی شب اڑا جو غبارِ رہِ حضور
غازہ بنا فلک پہ وہ ماہِ تمام کا
کشتی ہماری بحرِ حوادث میں جب پھنسی
دیکھا کمال ہم نے محمد کے نام کا
شاہوں کی جس کے سامنے پھیلی ہیں جھولیاں
میں ہوں فقیر اس شہ عالی مقام کا
رشکِ ارم ہے دِل غمِ عشق ِ حبیب سے
خاؔلد ہے جب سے وِرد محمد کے نام کا