آغوش میں رحمت کی پہنچوں گر ان کا اشارہ ہوجائے مدت سے تڑپتی ہے دل میں پوری یہ تمنا ہوجائے
اے ماہِ عرب پھر مہ کی طرف اک اور اشارہ ہوجائے پھر کفر کی ظلمت مٹ جائے پھر نور دوبالا ہوجائے
اعمال پہ اپنے غور کیا تو دل میں ہوا اک حشر بپا ہاں شافع محشر تم چاہو تو دور یہ دھڑکا ہوجائے
اے چشمِ ندامت بہہ کے ذرا امید شفاعت کر پیدا ہر موج معاصی ممکن ہے رحمت کا سفینہ ہوجائے
ہنگام سجود اے جوشِ جبیں لازم ہیں ادب کے بھی آئیں سجدوں کی فروانی میں کہیں ہنگامہ نہ برپا ہوجائے
اس ہند سے طیبہ کو جاؤں سر روضۂ اقدس پر رکھوں سر رکھ کے میں پھر اس وقت اٹھوں جب روح روانہ ہوجائے
اے آتشِ عشقِ روئے منور اور بھڑک کچھ اور بھڑک یہ جاں ہو رخِ انور پہ فدا اور ان کا نظارا ہوجائے
ہو پاس شریعت بھی کامل اور آن رہے مدہوشوں کی جب گرد ترے روضے کے پھروں انداز کچھ ایسا ہوجائے
اے بادِ صبا طیبہ جاکر، کہنا کہ خلیؔل خستہ جگر فرقت میں تڑپتا ہے یکسر ہو حکم تو طیبا ہوجائے