آزردہ آب دیدہ ہوں میں اُن کی چاہ میں
اِک رنگ ِ حُسن ہے مرے حالِ تباہ میں
آئے ہیں سر جھکائے ہوئے بار گاہ میں
لےَ لَو ندامتوں کو اَب اپنی پناہ میں
ایسے درِ قبول سے نسبت ہوئی نصیب
تاثیر دیکھتا ہوں دعاؤں میں آہ میں
اے عالمِ حضوری سرکار زندہ باد
تیرے سوا کوئی نہ جچے گا نِگاہ میں
تیری عطائے خاص مرے کام آگئی
گنجائشِ نِجات نہیں تھی گناہ میں
حیراں کھڑا ہوں کیسے مدینے کو جاؤں میں
آنکھیں بچھی ہوئی ہیں ہر اک سمت راہ میں
خاؔلد کی آرزد ہے کہ ہنگامِ موت بھی
جلوے بسے ہوئے ہوں تمہارے نِگاہ میں