آجاؤ رحمتوں کے خزینے کے سامنے
پھیلے ہیں سب کے ہاتھ مدینے کے سامنے
اللہ رے یہ شان دَیارِ حبیب کی
کعبہ جُھکا ہوا ہے مدینے کے سامنے
دنیا میں نکہتوں پہ جنہیں بھی غرور ہے
سارے خجل ہیں اُن کے پسینے کے سامنے
سرکش بنے مُجمۂ عجزو اِنکسار
اَخلاقِ مصطفی کے قرینے کے سامنے
جب کہہ لیا خلوص سے یا مصطفی مدد
ساحِل خود آگیا ہے سفینے کے سامنے
یہ افتخار اور کسی کو نہیں نصیب
ہر سر جُھکا ہوا ہے مدینے کے سامنے
خاؔلد بلائیں مُجھ کو جو آقائے نامدار
دیکھوں میں رقص روحِ مدینے کے سامنے