آتی ہے باد صبح جو سرور کے سامنے سر ٹیکتی ہے زلف معنبر کے سامنے
شرمندۂ جمالِ رأنی ہیں مہر و ماہ کیا تاب لائیں روئے منور کے سامنے
طوفِ حریم قدس کو دوڑے ہیں بار بار لوٹے ہیں خوب خوب ترے گھر کے سامنے
وارفتگان عشق سے کچھ بھی بعید تھا سجدے جو کرتے روضۂ انور کے سامنے
دیکھوں گا کیا بگاڑے گا طوفاں معصیت جاؤں گا ظلّ لطف میں داور کے سامنے
ہم سے خراب حالوں کا بس تم ہو آسرا اب ہم تو آپڑے ہیں اسی در کے سامنے
اللہ رے جوشِ عشق کہ فردوس چھوڑ کر پہنچا خلیؔل روضۂ اطہر کے سامنے