’’سفرِ مدینہ طیبہ کی آرزو میں‘‘
آتشِ فرقتِ حضرت کو بجھاتے جائیں دھجیاں جیب و گریباں کی اڑاتے جائیں
گاہ بہلاتے ہوئے جائیں دلِ مضطر کو بیقراری میں کبھی آگ لگاتے جائیں
اپنی قسمت کی رسائی پہ کبھی ناز کریں اپنی حالت پہ کبھی اشک بہاتے جائیں
قطع منزل پہ جو وحشت کبھی آڑے آئے قصہ ہائے قرنی گا کے سناتے جائیں
چھانٹتے جائیں ہجوم غم عصیاں دل سے اپنی بگڑی ہوئی تقدیر بناتے جائیں
سر کو بھی روکے رہیں جب ہوں مدینہ کے قریب دل کو آدابِ زیارت بھی سکھاتے جائیں
شامِ غربت میں جو گھبرائے دلِ زار خلیؔل صبح امید کے آثار بھی پاتے جائیں