آئی بہارِ زیست مقدّر سَنبھل گئے
سرکار کے قدم مری قسمت بَدل گئے
آیا نظر جو گنبدِ خِضْرا خُدا گواہ
جذبات میرے نور کے سانچے میں ڈھل گئے
یہ جان کر وہ بار گہ کار ساز ہے
طیبہ کی سمت اہل ِ نظر سر کے بل گئے
فیضان مصطفی تھا کہ ہم رَاہ ِ عِشق میں
سَو بار لڑکھڑائے مگر پھر سَنبھل گئے
صَل علیٰ یہ نامِ محمد کی برکتیں
طوفان آفتوں کے مرے سر سے ٹل گئے
ہر مَنصب و وقار نے بڑھ کر قدم لیئے
سرکار کے غلام جِدھر سے نکل گئے
خاؔلد جو اُن کا نام لیا ظلمتیں چھٹیں!
لاکھوں چَراغ خود مری راہوں میں جل گئے