نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
1338 items found for ""
- امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ
حضرت سیدی ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نام و نسب: اسم گرامی: محمد ۔ کنیت: ابو عبد اللہ ۔ لقب: امام المحدثین، امیر المؤمنین فی الحدیث ۔ سلسلۂ نسب اس طرح ہے: محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ بخاری جعفی ۔ آپ کے جد اعلیٰ مغیرہ نے حاکمِ بخارا، یمان جعفی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اس لیے آپ کو جعفی کہا جاتا ہے " بخارا " کی نسبت سے بخاری کہا جاتا ہے ۔ تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت 13 شوال المکرم 194ھ، بمطابق 19جولائی 810ء بروز جمعہ بعد نمازِ عصر یا عشاء بخارا میں پیدا ہوئے ۔ تحصیلِ علم: امام بخاری نے "بخارا" میں ابتدائی تعلیم کے بعد صغر سنی میں ہی تحصیلِ حدیث کی جانب متوجہ ہو گئے تھے، اور دس سال کی عمر میں امام داخلی علیہ الرحمہ کے حلقۂ درس میں شریک ہونے لگے اور اپنی خدا داد قوت حفظ و ضبط سے حدیثوں کی اسناد و متون کو ذہن میں محفوظ کرنے لگے ۔ قوت حفظ و ضبط کا یہ عالم تھا کہ 18 سال کی عمر میں آپ نے عبد اللہ بن مبارک علیہ الرحمہ کی تمام کتابیں اور وکیع اور دیگر اصحابِ امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی کتابوں کو ازبر کر لیا تھا ۔ اسی عمر میں آپ نے روضۂ انور کے سائے میں بیٹھ کر " التاریخ الکبیر " تصنیف فرمائی ۔ 216ھ میں طلبِ حدیث کے لئے آپ نے مکۃ المکرمہ کی طرف پہلا سفر کیا ۔ اس کے علاوہ طلبِ حدیث کے لئے آپ نے مصر اور شام دو مرتبہ، بصرہ چار مرتبہ اور بے شمار مرتبہ بغداد اور کوفہ کا سفر کیا ۔ آپ نے ایک ہزار سے زائد اساتذہ سے اکتسابِ علم کیا ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ آپ امیر المؤمنین فی الحدیث کے منصب پر فائز ہو گئے، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور آپ کی تصنیف " بخاری شریف " امت میں مقبولیتِ عامہ عطاء فرمائی ۔ قوتِ حافظہ: قدرت نے امام بخاری علیہ الرحمہ کو بے مثال ذہانت اورقوت حفظ و ضبط سے سر فراز فرمایا تھا ۔آپ انتہائی بیدار مغز اور روشن دماغ انسان تھے ۔ قرطاس و قلم پر اتنا اعتماد نہیں کرتے تھے جتنا انہیں اپنے لوحِ ذہن پر بھروسہ تھا ۔ حاشد بن اسماعیل عہد بخاری کے زبردست محدث تھے فرماتے ہیں: امام بخاری طلب حدیث کے لیے میرے ہمراہ شیوخ وقت کی خدمت میں آمد و رفت رکھتے تھے لیکن ان کے پاس عام طلبہ کی طرح قلم و دوات اور کاغذ کچھ نہ ہوتا تھا میں نے ان سے کہا جب تم حدیث سن کر تحریر نہیں کرتے تو تمہاری آمد و رفت اور سماع کا کیا فائدہ؟ : یہ سماع تو ہَوا کی مانند ہے جو ایک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل گیا ـ سولہ دن بعد امام بخاری نے مجھ سے کہا تم لوگوں نے مجھ کو بہت تنگ کر دیا آؤ اب میری یاد داشت کا اپنے نوشتوں سے مقابلہ کرو ۔ اس مدت میں ہم نے پندرہ ہزار حدیثیں لکھیں تھیں امام بخاری نے صحت کے ساتھ سب کو اس طرح سنایا کہ میں اپنی حدیثوں کو ان سے صحیح کرتا تھا ـ امام بخاری خود فرماتے تھے: کہ میں نے اپنی صحیح کا چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کیا ہے ۔ (تذکرۃ المحدثین ص:196) سیرت و خصائص: امام بخاری علیہ الرحمہ نے جس اخلاص و انہماک کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کریمہ کو سینے میں محفوظ کیا تھا اسی طرح انہوں نے اپنی ذات و صفات کو اخلاق نبوی ﷺ کے سانچے میں ڈھال لیا تھا زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت، حسن اخلاق، حق گوئی و حق شناسی میں ممتاز تھے ۔ حلم و مروت کے پیکر تھے ۔ کبھی کسی کو برائی سے یاد نہ کرتے اور برائی کا بدلہ ہمیشہ نیکی سے دیتے ۔ ہر شخص کی عزت نفس کا لحاظ رکھتے آپ بےحد صابر انسان تھے، اور اپنی ذات کا انتقام بِالکل ہی نہ لیتے تھے ۔ آپ بہت ہی متواضع اور منکسر المزاج واقع ہوئے تھے ۔ بڑی سادہ زندگی بسر کرتے اور اپنے کام خود کر لیا کرتے تھے ۔ کسی دوسرے کو زحمت نہ دیتے ۔ آپ کے شاگرد محمد بن حاتم وراق بیان کرتے ہیں: کہ ایک مرتبہ امام بخاری علیہ الرحمہ بخارا کے قریب سرائے بنا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں ہی سے دیوار میں اینٹیں لگا رہے تھے میں نے آگے بڑھ کر کہا آپ رہنے دیجیے میں یہ انٹیں لگا دیتا ہوں آپ نے فرمایا قیامت کے دن یہ عمل مجھے نفع دے گا ۔ وراق کہتے ہیں کہ جب ہم امام بخاری علیہ الرحمہ کے ساتھ کسی سفر میں جاتے تو آپ ہم سب کو ایک کمرے میں جمع کر دیا کرتے اور خود علیحدہ رہتے ۔ ایک بار میں نے دیکھا امام بخاری علیہ الرحمہ رات کو پندرہ بیس مرتبہ اٹھے اور ہر مرتبہ اپنے ہاتھ سے آگ جلا کر چراغ روشن کیا کچھ احادیث نکالیں ان پر نشانات لگائے پھر تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ گئے ـ میں نے عرض کیا آپ نے رات کو اٹھ کر تنہا مشقت برداشت کی مجھے اٹھا لیتے فرمایا تم جوان ہو اور گہری نیند سوتے ہو میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ (محدثین عظام حیات و خدمات، ص:321) ۔ امراء / مالداروں سے دوری: امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی علمی دیانت اور وقار کو کبھی مجروح نہ ہونے دیا ۔ اپنی ذات اور ضرورت کے لیے امراء و رؤسا کے دروازوں پر ہر گز نہ گئے ۔ ہمیشہ حکمرانوں اور مالداروں سے دور رہتے تھے ۔ جب گھر جا کر پڑھانے کے لئے کہا: جب حاسدین نے حاکمِ بخارا خالد بن احمد ذہلی سے کہا کہ آپ امام بخاری سے کہیں کہ وہ آپ کے بیٹے کو گھر آکر پڑھایا کریں ۔ حاکمِ بخارا نے اس خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا میں علم کو سلاطین کے دروازے پر لے جا کر ذلیل کرنا نہیں چاہتا ۔ پڑھنے والے کو میرے درس میں آنا چاہیے ۔ والئ بخارا نے کہا اگر میرا لڑکا درس میں آئے تو وہ عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں پڑھے گا، آپ کو اسے علیحدہ پڑھانا ہوگا ۔ امام بخاری نے جواب دیا میں کسی شخص کو احادیث رسول ﷺ کی سماعت سے نہیں روک سکتا ۔ اس کے بعد آپ کو اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔ ایک بار آپ کے مضارب تاجر نے پچیس ہزار لے کر دوسرے ملک میں سکونت اختیار کی امام صاحب سے لوگوں نے کہا کہ مقامی حاکم کا خط لے کر اس علاقہ کے حاکم کے پاس پہنچا دو روپیہ آسانی سے مل جائے گا امام بخاری نے فرمایا: اگر میں نے اپنے روپے کے لئے حکام سے سفارش لکھواؤں تو کل یہ حکام میرے دین میں دخل دیں گے اور میں اپنے دین کو دنیا کے عوض ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ آج کل کے علماء کے لئے اس میں عظیم سبق ہے ۔ امام صاحب کا ادب الحدیث: حدیث شریف کو کتاب میں ذکر کرنے سے پہلےآپ غسل کرتے اور خوشبو لگاتے تھے ۔ اس کے بعد آپ دو رکعت نفل ادا کرتے ۔ پھر اس حدیث کی صحت کے بارے میں استخارہ کرتے اس کے بعد اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کرتے ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں: کہ امام بخاری علیہ الرحمہ نے ایک مرتبہ مسودہ لکھا ۔ دوسری مرتبہ مبیضہ تیار کیا اور تیسری مرتبہ ہر حدیث کو رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کرتے اور جس حدیث کے بارے میں بالمشافہ یا خواب کے ذریعے حضور ﷺ سے اجازت مل گئی اور اس کی صحت کا یقین کامل ہو گیا اس کو اپنی صحیح میں درج کر لیا ۔ (الشعۃ اللمعات، ص:10) ۔ وصال: بروز جمعۃ المبارک، یکم شوال المکرم، 250ھ / بمطابق یکم ستمبر 870ء ۔ 61 سال 11ماہ 18 یوم کی عمر پاکر رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی خدمت کرتے ہوئے دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف منتقل ہوئے ۔ قبر مبارک: خرتنگ نزد سمرقند موجودہ ازبکستان میں محو آرام ہیں ۔ آپ کی قبر مبارک سے مدتوں ایسی خوشبو آتی رہی جو مشک و عنبر سے بھی عمدہ تھی لوگ قبر کی مٹی تبرکاً لےجاتے رہے ۔ (ھدی الساری، ج:2، ص:266) ۔ آپ کی قبر انور پر دعا قبول ہوتی ہے ۔ (ارشاد الساری، ج:1، ص:39) https://www.facebook.com/photo/?fbid=6032117613523660&set=a.1026436610758477 https://Instagram.com/naatacademy
- گُلِ نعت چُن رہا ہوں چَمَنِ خیال سے
گُلِ نعت چُن رہا ہوں چَمَنِ خیال سے !! یہ سعادتِ مسلسل مِلی نیک فال سے !! غمِ ہجر کی اَذِیَّّت بھی سکون بخش ہے یہ نتیجہ مُتَّصِل ہے طلبِ وصال سے !! مجھے سیرتِ صحابہ پہ عمل نصیب ہو کہیں مَیں بھٹک نہ جاؤں رہِ اعتدال سے !! یہ ثنائے مصطفیٰ ہے جو عطائے خاص ہے یہ کہاں نصیب ہوگی ہنر و کمال سے !! مجھے اُن کی نعت گوئی کے لئے چُنا گیا یہ شَرَف عطا ہُوا ہے درِ ذُو الجلال سے !! وہ بُلائیں گے کسی دن تجھے اپنے شہر میں اے سحر تُو منتظِر ہے کئی ماہ و سال سے !! ~سحر بلرام پوری
- لیلۃ الجائزہ امت مسلمہ کے لیے انعام
*لیلۃ الجائزہ: امت مسلمہ کے لیے انعام کی رات اور ہمارا طرز عمل* ___ محمد حسین مشاہد رضوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام ا سمانوں پر لیل ۃ الجائزہ (یعنی انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عیدکی صبح ہوتی ہے تو حق تعالی شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے وہ زمین پر اترکر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی ا واز سے جس کو جنات اور انسان کے علاوہ ہرمخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس کریم رب کی درگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والاہے اور بڑے سے بڑے قصورکو معاف کرنے والاہے۔ رمضان کی مبارک ساعتوں میں محنت کرنے والوں کو مبارک ہو، رمضان کی راتوں میں قیام کرنے والو، قرآن سننے والو، دن کو روزے رکھنے والو، گناہوں سے بچنے والو، نیکیوں کی دوڑ لگانے والو، اللہ اللہ کی صدائیں لگانے والو خوش ہو جاؤ ! انعام کی رات آگئی ہے. اللہ تبارک تعالی کے مزدوروں کو مزدوری ملنے کا وقت آ گیا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کا نام (آسمانوں پر) لیل ۃ الجائزہ (انعام کی رات) لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالی شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے. یہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے پکارتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس رب کریم کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے. پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرما تا ہے: کیا بدلہ ہے اس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو، وہ عرض کرتے ہیں ہمارے معبود اور ہمارے مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے تو اللہ رب العزت ارشاد فرما تا ہے کہ اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی اوربندوں سے خطاب فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ اے میرے بندو! مجھ سے مانگو میری عزت کی قسم میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے عطا کروں گا. دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا. میری عزت کی قسم کہ جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں پر ست اری کرتا رہوں گا. (اور ان کو چھپاتا رہوں گا) میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رسوا اور فضیحت نہ کروں گا. بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ. تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا. پس فرشتے اس اجروثواب کو دیکھ کر جو اس امت کو عید کے دن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اور کھل جاتے ہیں. (رواہ ابوالشیخ ابن حبان فی کتاب الثواب )۔ لیکن ذرا غور کیجئے! ذرا تصور کیجئے !ایک شخص اپنی پوری زندگی کی پونجی ایک عالیشان مکان اورمحل بنانے پرصرف کردے اور جب خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے بننے والا اس کاخوبصورت محل تیار ہوجائے تویکایک وہ شخص اپنے ہی ہاتھوں بنائے ہوئے اس محل کوگرانے پرکمربستہ ہوجائے ... کیا ایسے شخص کو ہوشمندوعاقل سمجھاجائے گا ... کیااسے پاگل اور مجنون نہیں سمجھاجائے گا ... ایک طالب علم سال بھرامتحان کی تیاری کرے 'دن رات کاآرام 'چین نینداورسکون اپنے اوپر حرام کرے 'بالآخر اللہ اللہ کرکے وہ کمر ۂ امتحان میں داخل ہو 'بڑی تندہی 'محنت او ر کامیابی سے وہ اپناپیپرحل کرے لیکن اچانک وہ اپناساراحل شدہ پرچہ پھاڑ کرکمر ۂ امتحان سے باہر نکل آئے اور بلاوجہ، بے لگام اچھلنا کودنا 'ناچناگانا اورہنگامہ کرنا شروع کردے ... ایسے طالب علم کوکیاکہاجائے گا؟ ... کیااسے بے وقوف اور دیوانہ نہیں کہاجائے گا کہ اس نے اپنے سارے سال کی مشقت اور خون جگرکی محنت پریکلخت پانی پھیردیا؟ ... ایک مالی ایک پودے کوشب وروزمحنت سے سینچے 'گرمی 'سردی اور دھوپ سائے کی پرواہ کئے بغیروہ اس پودے کی پرورش کرے اورجب یہ پودا ایک تناور درخت بن جائے اور پھل دینے کے قریب آجائے تو مالی کلہاڑا لے کر اس درخت کوکاٹنے پرتل جائے ... ذرا سوچئے اسے کیاکہاجائے گا! ... کیا دنیا میں ایسے انسانوں 'ایسے طالب علموں اور ایسے مالیوں کا تصورکیاجا سکتا ہے؟ کیاایسے انسا ن دنیامیں موجود ہیں یاموجود ہوسکتے ہیں؟ جی ہاں ! ہمارا تجربہ اورمشاہدہ بتاتاہے کہ دنیامیں ایسے انسان موجودہیں. البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ ایسے انسان دنیامیں بہت کم ہوتے ہیں، شاذونادر ہوتے ہیں، آٹے میں نمک کے برابرہوتے ہیں۔ لیکن یہ کیا یہاں تو معاملہ بالکل الٹا ہے، ایسی مجنونانہ حرکتیں کرنے والوں کی اتنی زیادہ تعداد. ذرا اپنے اردگرد دیکھئے یہ کیاہورہاہے؟ کوئی ہنگامہ برپاہے، کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، ایک ہجوم ہے، انسانوں کاسمندر ہے، چکاچوند روشنیاں ہیں، آنکھوں کوشرم سے پانی پانی کردینے والے مناظر ہیں، یہ کون ہے؟ حو ا کی بیٹی ہے، اسلام کی بیٹی ہے، مسلمان کی بیٹی ہے. ارے بھئی! ابھی کچھ وقت پہلے ہی کی بات ہے 'یہ شرم وحیاء کی پتلی تھی، ایمان میں سرتاپا ڈوبی تھی، صوم وصلو ۃ کے زیور سے لدی تھی، نظریں شرم سے جھکی تھیں، پردہ و حجاب میں لپٹی اور سمٹی تھی. لیکن آج اسے کیا ہوا. یہ چاند نکلتے ہی اس پر کیا جنون چھا گیا، کیا اس کاایمان ہی رخصت ہوگیا؟ یہ پردہ 'یہ حجاب کہاں گیا؟ آوارہ مردوں کے ہجوم میں اس کا کیاکام، ارے یہ کس کی بہن ہے اس نے توکبھی اپنا ہاتھ کسی غیرمرد کونہ دکھایاتھا اوراب اسے کیاہوا ایک غیرمرد کواپنا ہاتھ پکڑارہی ہے. محض اس لئے کہ اس کے ہاتھوں پرمہندی لگادی جائے. اور ذرا ادھردیکھئے. اسے کیا ہوا؟ محرم مردوں کواپنے بازو نہ دکھانے والی نامحرموں کو اپنے بازوتھمارہی ہے، تاکہ اسے چوڑیاں پہنادی جائیں. اوریہاں مسلمان بہنیں یہ کیاکررہی ہے، بیوٹی پارلر میں گھسی ہے 'اپنے چہرے کوبگاڑ رہی ہے 'فطرت کو مسخ کررہی ہے 'کہیں پلکیں بدل رہی ہیں توکہیں بھنویں، کہیں جسم سے بال اکھڑوانے کے لئے تھریڈنگ ہورہی ہے توکہیں فشل اور ماسکنگ اورکہیں مصنوعی ناخن لگ رہے ہیں، کیا یوں اللہ کے دئیے ہوئے قدرتی اورحسین چہرے اور جسم کوپسندنہ کرنے والی اللہ کی رحمت کی مستحق ہوسکتی ہے؟ کیا انہیں اللہ کے نبی کایہ انتباہ بھول گیاہے ... جس میں آپ نے فرمایاتھا ... ' اللہ تعالی نے لعنت کی ان عورتوں پر جومردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اوران مردوں پرجوعورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور جوجسم گودتی اور گدواتی ہیں اورجواپنے حسن میں اضافہ کے لئے اپنے دانتوں میں خلا پیدا کرتی ہیں اور اپنی بھنووں اور پلکوں کوکترواتی ہیں اورجواپنے بالوں کے ساتھ نقلی بال لگواتی یااضافہ کرتی ہیں 'وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں. اورہاں! ذرا ان مسلمان نوجوانوں کو بھی دیکھئے! مہینہ بھر صوم وصلو ۃ کے پابندرہنے والے، پانچوں وقت مسجدوں کو آباد کرنے والے، ایک ماہ میں کئی کئی قرآن ختم کرنے والے، اعتکاف کے کرنے والے، چاند رات آتے ہی یوں شتر بے مہار ہوگئے جیسے ایمان ان کوچھوکر بھی نہیں گیاتھا، کہیں عورتوں پر ٹکٹکیاں لگائی ہوئی ہیں توکہیں ان پر آوازے کس رہے ہیں، کہیں شیطان کی آواز، موسیقی کی دھنوں پر بڑے بڑے ڈیک لگاکر ناچ کودرہے ہیں 'شریفوں اور مریضوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے، توکہیں فلموں اور ڈراموں میں مست ہیں، کہیں سگریٹوں کے مرغولے بنارہے ہیں، توکہیں شراب کے جام لٹائے جارہے ہیں. کہیں ون ویلنگ کے کرتب دکھاکراپنی جوانیوں کو موت کالقمہ بنارہے ہیں. اور یہ فحش عید کارڈوں کے اسٹالوں پر کون کھڑا ہے؟ اسلام کی بیٹیاں بھی اور بیٹے بھی. کیا یہ سب اپنی محنتوں کو اپنے ہاتھوں برباد کرنے کے مترادف نہیں؟ کیا یہ جنونیت اور حماقت نہیں؟ خدارا کچھ سوچیں! ہم رمضان میں بنی ہوئی ایمان کی یہ عمارت عید کی ایک ہی رات میں کیوں زمین بوس کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے برعکس ہمارے اکابر اور بزرگوں کا طرز عمل تو یہ تھا :حضرت عامر ابن قیس کے بارے میں مروی ہیکہ وہ اختتام رمضان پر رونے لگے، تو لوگوں نے کہا آپ کیوں رورہے ہیں؟ تو فرمایا قسم بخدا متاع دنیا کے ضائع ہونے پر نہیں رورہا ہوں، میں تو روزے میں پیاس کی شدت پر اور ٹھنڈی رات میں اللہ کے حضور میں کھڑے ہونے کی مشقت کے ہاتھوں سے چلے جانے پر رورہا ہوں، یعنی روزہ تراویح اور دیگر رمضانی عبادت اب نہ ہونے کا افسوس ہے. حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ فرماتے، ہائے کاش مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے وہ شخص جس کی رمضان المبارک میں عبادتیں قبول ہوگئی، تو میں انہیں مبارک باد دیتا، اور اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون ہے، جس کی عبادتیں قبول نہ ہو سکی اور وہ محروم رہا تو ہم اس کی تعزیت کرتے. ایک بزرگ کو عید کے دن لوگوں نے غم زدہ دیکھا تو لوگوں نے کہا کہ خوشی اور مسرت کے دن آپ غم زدہ کیوں نظر آرہے ہیں؟ تو فرمایا، بات تو صحیح ہے کہ یہ خوشی اور مسرت کا دن ہے، مگر مجھے اس بات نے غم میں ڈال رکھا ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہو ں جس نے مجھے روزے اور دیگر عبادات کا حکم دیا، مگر مجھے نہیں علم کے میرے یہ اعمال عنداللہ مقبول بھی ہوئے یا نہیں؟ بشر حافی رحم ۃ اللہ سے کسی نے دریافت کیا، کہ حضرت بہت سے مسلمان ایسے دیکھے گئے، جوصرف رمضان المبار ک میں خوب عبادت اور مجاہدہ کرتے ہیں اور بقیہ سال بھر پھر کچھ نہیں، تو آپ نے فرمایا، ایسااس لئے کہ انہوں نے اللہ کو کماحقہ نہیں پہچانا، اور عارضی صرف رمضان المبارک کی حد تک کی عبادت کس کام کی؟ اصل عبادت اور حقیقی صلاح وتقوی تو یہ ہے کہ مسلمان سال بھر عبادت وریاضت ومجاہدہ ومحاسبہ میں لگارہے. لہذا ہمیں چاہیے کہ انعام کی اس رات کو اس طرح گزاریں کہ انعام دینے والا ہم سے خوش ہو.ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص پانچ راتوں میں (عبادت کیلئے) جاگے. اس کے واسطے جنت واجب ہوجائے گی. لیل ۃ التزویہ (آٹھ ذی الحجہ کی رات ) ، لیل ۃ العرفہ (9 ذی الحجہ کی رات)، لیل ۃ النحر (01 ذی الحجہ کی رات)، شب برأت (پندرہ شعبان المعظم کی رات)، عید الفطر کی رات. اس کے علاوہ ہمارا طرز عمل رمضان کے بعد بھی وہی ہونا چاہیے جو رمضان میں تھا. جس طرح ہم نے پانچوں نمازوں کا اہتمام کیا ہم یہ عہد کریں یہ نیت کریں، اب انشاء اللہ رمضان کے بعد بھی ہم اس کا پورا اہتمام کرینگے، جیسا کہ رمضان میں اہتمام کیا. جس طرح رمضان المبارک میں آپ نے گناہوں سے اجتناب کیا یا کم از کم کوشش کی رمضان کے بعد بھی وہی اہتمام باقی رکھیں. جس طرح رمضان المبارک میں تراویح اور تہجد کا اہتمام کیا اسی طرح رمضان کے بعد بھی تہجد، چاشت اور اشراق کا اہتمام کیا جائے، اور اپنے آپ کو اسی کا عادی بنایاجائے تاکہ بے شمار فضائل واجر عظیم سے مالا مال ہو سکیں. جب رمضان المبارک میں ہم نے تلاوت قرآن کا اہتمام کیا ہے اور کئی ایک قرآن ختم کیا ہے، رمضان کے بعد بھی اہتمام کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے رہیں. جس طرح رمضان میں زکو ۃ و صدقات ادا کرنے کا اہتمام کیا، رمضان کے بعد بھی اس کا پورا اہتمام کریں. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کا کوئی معمول رمضان المبارک میں کرنے رہ جاتا تو آپ شوال میں اس کی قضا کرلیتے تھے؛ مثلا: ایک مرتبہ کسی وجہ سے رمضان کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف نہ کرسکے تو کسی مجبوری کی وجہ سے نو شوال میں اس کی قضا کی بل کہ شعبان میں چھوٹے ہوئے عمل کی قضابھی شوال ہی میں کرنے کی فرماتے (بخاری ومسلم )اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ رمضان کے قضا روزے کی قضا بھی شوال میں شوال کے روزے رکھنے سے پہلے کرلیں.اللہ تعالی ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا اور خصوصی انعامات سے نوازے. (آمین )(بیہقی فی شعب الایمان: 3540، عن ابن عباس رضی اللہ عنہ )اللہ کریم ہمیں عمل کی توفیق بخشے! آمین !! ................
- عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے بزمِ ثنائے زُلف میں میری عروسِ فکر کو ساری بہارِ ہشت خلد چھوٹا سا عِطر دان ہے عرش پہ جا کے مرغِ عقل تھک کے گِراغش آگیا اور ابھی منزلوں پَرے پہلا ہی آستان ہے عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دُھوم دَھام کان جِدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے اِک ترے رُخ کی روشنی چین ہے دو جَہان کی اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ! گلبنِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اُٹھان ہے تجھ سا سِیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں پھر وہ تجھی کو بُھول جائیں دِل یہ تِرا گمان ہے پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دِل ہے بے قرار روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے شانِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز سدرہ سے تا زمیں جسے نرم سی اِک اُڑان ہے بارِ جلال اُٹھا لیا گرچہ کلیجا شق ہُوا یُوں تو یہ ماہِ سبزہ رنگ نظروں میں دھان پان ہے خوف نہ رکھ رضاؔ ذرا تو تو ہے عَبدِ مصطفٰی تیرے لئے اَمان ہے تیرے لئے اَمان ہے اعلی حضرت
- دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیںﷺ تو ہو
🤍دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیںﷺ تو ہو ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیںﷺ تو ہو پھوٹا جو سینۂ شبِ تارِ اَلَست سے اس نورِ اوّلیں کا اجالا تمہیںﷺ تو ہو سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ تمہیںﷺ تو ہو اس محفلِ شہود کی رونق تمہیںﷺ سے ہے اس محملِ نمود کی لیلٰی تمہیںﷺ تو ہو جلتے ہیں جبرئیل کے پر جس مقام پر اس کی حقیقتوں کے شناسا تمہیںﷺ تو ہو جو ماسوا کی حد سے بھی آگے گزر گیا اے رہ نوردِ جادۂ اسریٰ تمہیںﷺ تو ہو پیتے ہی جس کے زندگئی جاوداں ملی اس جانفزاز لال کے مینا تمہیںﷺ تو ہو اٹھ اٹھ کے لے رہے ہیں جو پہلو میں چٹکیاں وہ درد دل میں کر گئے پیدا تمہیںﷺ تو ہو دنیا میں رحمتِ جہاں اور کون ہے جس کی نہیں نظیر وہ تنہا تمہیںﷺ تو ہو گرتے ہوؤں کو تھام لیا جس کے ہاتھ نے اے تاجدارِ یثرب و بطحا! تمہیںﷺ تو ہو جو دستگیر ہے وہ تمہارا ہی ہاتھ ہے جو ڈوبنے نہ دے وہ سہارا تمہیںﷺ تو ہو بپتا سنائیں جا کے تمہارے سوا کسے ہم بے کسانِ ہند کے ملجا تمہیںﷺ تو ہو کلام: مولانا ظفر علی خان
- Youm e Durood o Salam – یومِ درود و سلام
تخلیقِ حسن و عشق کی ہے دلکشی درود اس پوری کائنات کی ہے روشنی درود خوشبو کا پیرہن اسے دیتی ہیں تتلیاں پڑھتی ہے جب بھی شاخِ ثنا پر کلی درود میرا خدا، خدا کے فرشتے، بشر تمام بھیجیں مرے حضورؐ پہ مل کر سبھی درود میری دعا کو اپنے پروں میں سمیٹ کر جائے گا آسماں کی طرف آج بھی درود خوشنودیٔ رسولِ معظمؐ کے واسطے آلِ رسولِ پاک پہ پڑھیئے ابھی درود بنیاد ہے درود ہی نعتِ حضورؐ کی لاریب اُنؐ کی نعت کی ہے شاعری درود کیوں ہم حصارِ رحمتِ آقاؐ میں لیں نہ سانس دراصل ہم غلاموں کی ہے زندگی درود اُنؐ کی حدیثِ پاک سے چنتے رہو علوم حکمت کے سائباں میں ہے ہر آگہی درود پہلے فلک سے آئے گا پروانۂ نجات بھیجوں گا جب حضورؐ پہ مَیں آخری درود جگنو لحد میں بھی ہیں درود و سلام کے مرنے کے بعد بھی نہیں بھولا کبھی درود تصویر احترام کی بن کر کھڑا رہوں روضے کے سامنے ہو مری خامشی درود میرا قلم بھی صورتِ توصیفِ مصطفیؐ لوحِ ادب پہ لکھتا رہے ہر گھڑی درود رہتا ہے عافیت کے جزیروں میں وہ ریاضؔ ہر ابتلاء میں پڑھتا ہے جو آدمی درود ریاض حسین چودھری رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کتنا حسین تحفہ ہے ورد درود پاک قرآن نے سکھایا ہے ورد درود پاک ہر اک وظیفہ اپنی جگہ ہے خدا قسم مقبول یہ وظیفہ ہے ورد درود پاک مفہوم سلمو کا سمجھ میں اب آگیا اللّٰه نے بتایا ہے ورد درود پاک دیوانۂ رسول سے سنتا ہوں آج بھی مبروک یہ طریقہ ہے ورد درود پاک چل اہتمام کرتے ہیں کچھ آن بان سے دیدار کا وسیلہ ہے ورد درود پاک تا عمر اپنے لب پہ سجائے رکھیں سبھی بخشش کا اک ذریعہ ہے ورد درود پاک مشکل گھڑی جب آتی ہے فارح پہ دوستو بے ساختہ یہ کرتا ہے ورد درود پاک فارح مظفرپوری *رحمتیں ہونے لگیں نازل مرے گھر بار پر* *لکھ دیا ہے جب سے میں نے یا نبی دیوار پر* *واہ کیا رب نے بنایا ہے رخِ سرکار کو* *حسن کو خود ناز ہے روئے شہِ ابرار پر* *قتل کرنے کو گئے تھے، ہو گئے شیدا عمر* *اک نظر جس دم پڑی تھی احمدِ مختار پر* *ہم کہاں تھے اس کے قابل ہم کہاں اس کے مجاز* *لطفِ آقا ہے، قدم رکّھا جو اس سنسار پر* *بادشاہوں کے قدم پر سر وہ جھک سکتا نہیں* *جو جھکا ہے صاحبِ لولاک کی پیزار پر* *مصطفیٰ کا کھا کے صدقہ کہتا ہے ہر اک غلام* *اپنا دامن کیوں پساریں ہم درِ اغیار پر* بالیقین خاکی یہ نعتِ مصطفی کا فیض ہے رشک کرتا ہے زمانہ جو مرے افکار پر شمس تبریز خاکی ظہوری بلگرامی حمدِ خدائے پاک میں ہدیہ درود کا اور مصطفے کے سامنے سجدے سجود کا جب تک رقم تھا اسم رسولِ شہود کا کاغذ پہ سلسلہ رہا عنبر کا عود کا لکھنے لگا میں نعت کہ لکنت نہیں ہوئی صدقہ حسن سے پایا ھے لفظوں میں جود کا میں راسخُ العقیدہ ہوں مجھ کو یقین ھے نعلینِ مصطفے تلے اپنے وجود کا نوکِ سناں پہ کرتا ھے حمدِ رسولِ حق پابند عشق کب ہوا ظلم و قیود کا حبِّ علی نبی مری جھولی میں آ گری زیرِ زبان ورد تھا نامِ ودود کا کہتا ہوں مصطفے ہیں خدا بھی نبی علی جب مان رکھ نہ پاؤں خدا کی حدود کا عامر ھے نعت گوئی عطا ہی سے متصل ھے عشق کا معاملہ کب عقل و بود کا سید عامر کاظمی محفل نبی کی گھر میں سجاتے غلام ہیں الفت کا جام سب کو پلاتے غلام ہیں بزمِ رسول پاک سجی ہو اگر کہیں جا کر کے نعت ان کی سناتے غلام ہیں گنبد ہرا خدا نے زمیں پر بنا دیا تسکین جس سے دل کو دلاتے غلام ہیں دعویٰ نبی سے عشق کا کرتے ہیں سب مگر وعدہ وفا کا دل سے نبھاتے غلام ہیں بن مانگے جھولی بھرتے ہیں محبوب کبریا انکی عطا کو خیر سے کھاتے غلام ہیں نام رسول پاک کو سنتے ہیں سب مگر آنکھوں سے اپنی انگلی لگاتے غلام ہیں تجھ کو خبر ہے اجملی نعت رسول سے سویا نصیبہ اپنا جگاتے غلام ہیں غلام غوث اجملی پورنوی مرا دہن ہے معطر درود پڑھتا ہوں لحد بھی ہوگی منور درود پڑھتا ہوں میں روز کھانے سے قبل اس میں چاشنی کے لیے نبی و آل نبی پر درود پڑھتا ہوں مدام رحمتیں میرا طواف کرتی ہیں سبب یہ ہے کہ میں اکثر درود پڑھتا ہوں انگوٹھے چوم کے رکھتا ہوں اپنی آنکھوں پر ہمیشہ نام کو سن کر درود پڑھتا ہوں برائے جامِ ثنا نعت کی صراحی میں گرا رہا ہوں یہ گوہر درود پڑھتا ہوں غمِ زمانہ سے یکسر نجات پانے کا وظیفہ ہو گیا ازبر، درود پڑھتا ہوں سنا ہے مژدہ ءِ دلکش حدیث کی صورت کہ وہ پلائیں گے کوثر درود پڑھتا ہوں بروز حشر کھلے جب کہ نامہ ءِ اعمال گواہی دیں مہ و اختر درود پڑھتا ہوں مزہ تو تب ہے قمر جب خدا عمل پوچھے کہوں اے داورِ محشر درود پڑھتا ہوں قمر آسی نبی کی ذات پہ ہے وجہہِ افتخار درود ہے ذہن و دل کے لئے باعثِ قرار درود زبانِ خلق پہ جاری ہے بار بار درود حریمِ قُدس میں پڑھتاہے کردگار درود ہے کون اُن کے سوا جس پہ پڑھ رہے ہیں سبھی غریب و مفلس و نادار و تاجدار درود انہیں کی ذات ہے وجہہِ وجودِ کون و مکاں ہیں اُن کی شان میں قرآں میں بے شمار درود خدا نے کھائی ہے قرآن میں قسم جس کی ہو اُن کی زُلفِ معنبر پہ مشکبار درود ہے فکر جن کی شفاعت کی ہر گھڑی ان کو پڑھیں نہ اُن پہ بھی کیوں اُن کے جاں نثار درود ردائے احمدِ مُرسل سے سرفراز ہیں جو ہے نعت گوئی میں حسان کا وقار درود اُنہیں کی مدح و ثنا ہے قصیدہ? بردہ درود تاج بھی ہے ایک شاہکار درود سکونِ قلب کا باعث ہے اہلِ دل کے لئے ہے باغِ زیست کی وہ جانفزا بہار درود جو صدق دل سے ہیں محبوبِ رب کے شیدائی وہ بھیجتے ہیں بصد عجز و انکسار درود ہے ان کا وردِ زباں نام بزمِ عرفان میں ہے صوفیا کے ہمیشہ گلے کا ہار درود پہنچتا رہتا ہے ہر لحظہ ان کی خدمت میں براہ راست یہی جوڑتا ہے تار درود تقاضا فرض شناسی کا ہے یہی برقیؔ بصد خلوص کریں ان پہ ہم نثار درود احمد علی برقیؔ اعظمی مصطفیٰﷺکی شان و عظمت پر سلام انﷺکی پیاری پیاری صورت پر سلام شاہِ بطحا جانِ رحمت ﷺ پر سلام حاملِ ختمِ نبوت پر سلام سارے عالم کے لئے رحمت ہیں آپ ﷺ آپ ﷺ کی پیاری ولادت پر سلام آپ ﷺ ہیں محبوبِ داور یا نبی ﷺ آپ ﷺ کی ہر ایک سنت پر سلام آپ ﷺ کے در کا گدا ادہمؔ بھی ہے آپ ﷺ کی چشمِ عنایت پر سلام انصاری عبدالقادر ادہمؔ قادری صاحبِ خیرالبشر تم پر درود ماہرِ علم و ہنر تم پر درود دل بھی تو دیوانہ ہو کر اب مرا پڑھ رہا شام و سحر تم پر درود صرف انساں ہی نہیں اس دہر میں پیش کرتے ہیں شجر تم پر درود آنکھوں میں روضہ بسا کر آپ کا روز پڑھتی ہے نظر تم درود لاکھوں عربوں سال سے واللّٰہ یہ پڑھ رہے شمش و قمر تم پر درود رب نے ناظم ہے لکھا قرآن میں اے مرے نور البشر تم پر درود ناظم رضا حسینی رچھاوی پڑھو مسکرا کر درودوں کی ڈالی لبوں پر سجا کر درودوں کی ڈالی جب آئے نظر انکا در تو مری جاں نکلنا سنا کر درودوں ڈالی اندھیرے کا منہہ کالا کرنے چلا ہوں لحد میں سجا کر درودوں کی ڈالی کمی نیکیوں کی اگر ہو گئی تو رکھیں گے اٹھا کر درودوں کی ڈالی کرو پیش اے حاجیو تم بھی ہر دم مدینے میں جا کر درودوں کی ڈالی او گلشن کے بلبل مرے گھر میں آکر سنا چہچہا کر درودوں کی ڈالی توکر مطمئن اپنے دل کو اے قاسم ہمیشہ سنا کر درودوں کی ڈالی محمد قاسم اہلِ وفا و صبر کا نعرہ درود ہے ان کے ہر اک غلام کا تحفہ درود ہے اللہ کے فرشتے ہیں اس بات کے گواہ اللہ نے رسول پہ بھیجا درود ہے بوبکر اور عمر، علی ، عثمان کے عمل ان چار ہستیوں کا وظیفہ درود ہے شیرِ خدا و زہرا و حسنین پر سلام سرکار مصطفیٰ پہ خدا کا درود ہے مالک، امام شافعی، حنبل کے ساتھ ساتھ نعمان کے لبوں نے بھی بھیجا درود ہے غوث الوری و خواجہِ ہند الولی ہی کیا ہر پیر ہر ولی نے سکھایا درود ہے بندہ نواز و حضرتِ شیخِ دکن نے بھی بھیجا سلام اور سدا بھیجا درود ہے جنت کی آرزو ہے اگر دل میں مومنو پڑھتے رہو درود کہ رستہ درود ہے تحریکِ سنی دعوتِ اسلامی کا شعار پڑھنا درود اور پڑھانا درود ہے قربت بروزِ حشر وہ پائے گا اے وقار شام و سحر نبی پہ جو پڑھتا درود ہے محمد وقار احمد نوری چاند سورج کو بھی جو ملی روشنی انﷺ کی ایسی حکومت پہ لاکھوں سلام آپ کی ذات سے ہے مری زندگی آپ کی اس عنایت پہ لاکھوں سلام ہیں ازل تا ابد مصطفےٰ ﷺ رہنما ان ﷺ کی کامل نبوت پہ لاکھوں سلام زندگی تازگی روشنی آپ ﷺ ہیں مصطفےٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام مصطفےٰ کی جبیں سے ملی روشنی ہو جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام محمد احمد زاہد سانگلہ ہل مومنوں کی شان ہے ورد درود پاک مومنو کی جان ہے ورد درودپاک کرتاہے جوبھی رات ودن ورد درود پاک کٹتی ہے ہر مصیبت ورد درود پاک پڑھتا ہے جودرود اپنے حضور پر ملتی ہے یہ صلہ قربت درود پاک کرو زباں سے اپنے ورد درود پاک ہوجائےگا زباں پہ ورد درود پاک پڑھتا ہے صبح شام جو آقا پہ ہے درود اس کا مقدر جاگتا ہے یہ ہے درود پاک کیسے بیاں کروں میں شان درود پاک اللہ نے بیاں کی ہے شان درود پاک پڑھتے رہو درود تم آفاق ہرگھڑی تیرا بلند ہوگا یہ ہے رتبہ درود پاک تیرا سنوار دےگا مقدر درود پاک محمد آفاق رضوی ملے گی قلب کو راحت، درود پڑھتے رہو خدائے پاک کی سنت، درود پڑھتے رہو کرو رسول کی مدحت، درود پڑھتے رہو بناؤ قلب کی زینت، درود پڑھتے رہو سجاؤ لب پہ درود و سلام کے غنچے جہاں میں پاؤ گے عزت، درود پڑھتے رہو ادب خلوص و محبت سے باوضو ہو کر کرو رسول کی مدحت، درود پڑھتے رہو درود پاک پڑھو مومنوں محمدﷺ پر خدائے پاک کی سنت، درود پڑھتے رہو خدائے پاک کی چاہو اگر رضا مومن نبی پہ اپنے بکثرت، درود پڑھتے رہو بڑائی آقاﷺ کی کل کائنات کرتی ہے خدا بھی کرتا ہے مدحت، درود پڑھتے رہو بنائی رب نے خدائی تمام جن کیلئے وہی ہیں مالک خلقت، درود پڑھتے رہو گزاری عشق محمد میں زندگی جس نے خدا کی اس پہ ہے رحمت، درود پڑھتے رہو تمام خلق سلامی کو جن کی جھکتی ہے نثار جن پہ ہے جنت، درود پڑھتے رہو نزع کا وقت جو آئے اے ہادئ اکرم لبوں پہ ہو تری مدحت، درود پڑھتے رہو ستا رہے ہیں غم ہجر ہم کو پیارے نبی مدینے کی دو اجازت درود پڑھتے رہو بروز حشر خدا سے اے شافع محشر عطا ہو ہم کو شفاعت، درود پڑھتے رہو مدد کو آئیے مشکل کشا حبیبِ خدا پریشاں حال ہے امت، درود پڑھتے رہو ثنائے آقا میں اشعار کہ رہا طارق قبول ہو یہ عقیدت، درود پڑھتے رہو محمد طارق قادری۔ مبارک پور سارے نبیوں کے رہبر ، درود و سلام تم پہ محبوب داور ، درود و سلام اپنے ہی نور سے رب نے پیدا کیا نائب رب اکبر ، درود و سلام آپ ہی کے لئے سارا عالم بنا سارے عالم کے سرور ، درود و سلام آپ ہی کے ہے سر پہ شفاعت کا تاج شافع ء روز محشر ، درود و سلام آپ ہی نے پلایا ہے کوثر ہمیں مالک حوض کوثر ، درود و سلام زندگی ہے ملی آپ ہی کے لئے آپ پر جاں سے بڑھکر ، درود و سلام آرزو ہے کہ سرکار میں بھی پڑھوں آپ کے در پہ آ کر ، درود و سلام کنکروں نے گواہی رسالت کی دی بند مٹھی میں پڑھ کر ، درود و سلام جو وفادار ہیں آپ کے نام پر بھیجتے ہیں مچل کر ، درود و سلام بھیجتے ہیں فرشتے حضور آپ پر آسماں سے اتر کر ، درود و سلام آپ پر یا نبی بھیجتے ہی رہے کربلا کے بہتر (72) ، درود و سلام خاک در حسن ہے جسم کیواسطے زندگانی کے زیور ، درود و سلام ہم غلاموں کا بھی آپ کر لیں قبول اے زمانے کے یاور ، درود و سلام حسرتِ جاں ہے آقا پڑھے آپ پر جسم سے آکے باہر ، درود و سلام آرزو ہے یہ جاوید جاری رہے ساری دنیا کے لب پر ، درود و سلام جاوید صدیقی گونڈوی (لکھنؤ)انڈیا بے حد و انتہا ہے برکت دروُد کی اذکار میں سوا ہے شوکت دروُد کی قُربت کاسلسلہ ہے آقا (ص) کریم سے کیف و سروُر بانٹے کثرت دروُد کی اُس دل میں ہو گا روشن اک نوُر کا دیا جس دل میں بس گئی ہو اُلفت دروُد کی محسوُس اُن کو ہو گی خوشبوُ حضور کی جن کو بھی مل گئی ہے نعمت دروُد کی عصیاں سے دوُرہونگے جو بھی پڑھیں دروُد گھیرے رہے گی اُن کو رحمت دروُد کی مقبولیت دعا کی ہوتی ہے اس کے ساتھ دیکھی ہے یہ بھی اکثر حکمت دروُد کی آل_نبی(ص) کا صدقہ توفیق ہے ملی صد شکر ناز کو ہے عادت دروُد کی صفیہ ناز صابری بھیجتا ہے خدا درود شریف تم پہ خیرالوری درود شریف مانگنے سے سوا ملے گا تجھے اتنی بہتر دعا درود شریف جس میں شامل شفاء کامل ہے ہر مرض کی دوا درود شریف مانگنے کا ہنر ہے مجھ میں کہاں میری ہر التجا درود شریف جب رکھا ہے درود ورد زبان بن کے چھائی گھٹا درود شریف تربتِ پاک پر چڑھا نے کو بن گیا ہے ردا درود شریف لب پہ جاری رہے ترے احمؔد جب کہ آئےقضا، درود شریف شیخ احمؔد نقشبندی اعظمی نسخۂ کیمیا درود پاک دافع ہر بلا درود پاک راحت قلبِ ما درود پاک روحِ ما کی غذا درود پاک یہ گنہگار لب، تو پاکیزہ تو کجا من کجا درود پاک سب وظائف ہیں مقتدی تیرے اور تو مقتدا درود پاک رنگ لائیں دعائیں آدم کی جب انہوں نے پڑھا درود پاک کاش! ہو جائے اپنا وردِ لب دم بدم ، جا بجا درود پاک خلد ہےاس کی منتظر،جس کو پڑھ کے آئی قضا درود پاک وقت رخصت ہومیرےہونٹوں پر ان کی مدح و ثنا ، درود پاک واسطےعاصیوں کے،کرتی ہے باب رحمت کو وا درود پاک آپ پر خود خدا، فرشتے سب بھیجتے ہیں سدا درود پاک تیرگی ختم کرکے، مومن کی قبر چمکائے گا درود پاک حشرمیں انکے قرب میں ہوگا ورد جس کا رہا درود پاک مضمحل کیوں ہو اےمریضو! تم پڑھ لو بہر شفا درود پاک گھیرلیں گر تجھےمصائب تو پڑھ کے ہر غم بُھلا درود پاک کاش!فرمالیں وہ قبول حسنین میں نے جتنا پڑھا درود پاک *حسنین رضا قادری بلرامپوری* رب کی ہے ابتدا. . درود شریف بھیجو بے انتہا. درود شریف ہے خدا کی رضا. . درود شریف حق کا ہے فیصلہ. درود شریف پڑھیے پڑھیے سدا درود شریف جابجا. ہرلمحہ. درود شریف ورد صبح و مسا. درود شریف ہرگھڑی. ہرجگہ. درود شریف جسکے دل میں بسادرود شریف کردےپھر آئینہ. درود شریف ہرمرض کی. شفا درود شریف دافع ہر بلا. درود شریف ذکرِ کل اصفیا. درود شریف پڑھتے ہیں اولیا. درود شریف رحمتوں کی گھٹا. درود شریف ابرجود. و. سخا . درود شریف عشق. کا راستہ. درود.شریف عاشقوں کی. غذا. درود شریف جان رحمت. رسولِ اعظم پر خود خدا. بھیجتادرود شریف جوپسند ہے. خداے برتر کو وہ ہے پیاری. صدا. درود شریف جس میں شامل خدا ملک انساں ایسا ہے. مشغلہ. درود شریف جو. دعائیں کراتا ہے. مقبول کام کا. واسطہ درود شریف روح کو تازگی. عطا کر دے روح فرسا. بڑا. درود شریف مومنوں ہر. گھڑی. اسے پڑھنا ہاں ہے. حکم خدا درود شریف آخری دم لبوں. سے. خالد کے ہو ادا. یاخدا. درود شریف سیدخالدعبداللہ اشرفی اورنگ آباد مہاراشٹر الہند *بنا لو اپنی یہ عادت، درودِ پاک پڑھو* *ٹلے گی سر سے ہر آفت، درودِ پاک پڑھو* *سند فلاحِ دو عالم کی بَن کے قرآں میں* *لکھی ہوئی ہے یہ آیت، درودِ پاک پڑھو* *سند کے ساتھ احادیث کی کتابوں میں* *رقم ہے اس کی فضیلت، درودِ پاک پڑھو* *ہو بابِ دِل پہ لگا قُفلِ بد ! تو کُھل جائے* *لگا کے ضربِ عقیدت، درودِ پاک پڑھو* *تمہارے سر پہ یقیناً رہے گا ہر لمحہ* *نبی کا سایۂ رحمت، درودِ پاک پڑھو* *ملے گی گلشنِ ہستی کے غنچہ و گُل کو* *اِسی سے رنگت و نکہت، درودِ پاک پڑھو* *وبا کا خوف، مصائب کا نام مٹتا ہے* *اِسی عمل کی بدولت، درودِ پاک پڑھو* *پلٹ کے آئیں گے پھر سے تمہارے اچّھے دِن* *مگر ہے شرط، بکثرت، درودِ پاک پڑھو* *میں اپنی نسل کو دے جاؤں گا یہی نُسخہ* *حسن! بشکلِ نصیحت، درودِ پاک پڑھو* *حسن بلرامپوری* (ممبئی) قرطاس پر نہ چھوڑ ! کتابت درود کی مُہمَل نہ لِکھ ! قلم سے عبارت درود کی کرتی ہیں مکھیاں بھی تلاوت درود کی جو شہد میں ھے ساری حلاوت درود کی قراٰن نے کہا ھے شفا ، کیوں شفا نہ ہو پھولوں کےاِس عرَق میں ھے حکمت درودکی صوم وصلوٰة وحج کی ادا کا ھے وقت خاص جب بھی پڑھو ادا ھے عبادت درود کی دن ہو کہ رات ، وقتِ کراہت کہ مستحب صَلوا عَلَیہ ، عام ھے ساعت درود کی اللہ بھیجتا ھے درو د ، اُن پہ اور مَلَک اے مومنو ! ھے تم کو ہدایت درود کی اُس کے بدن کو قبر کی مٹی نہ کھائے گی جس کے لبوں پہ رہتی ھے کثرت درود کی کھلتے رہیں گلاب ، درود و سلام کے لائے گی اُن کو خواب میں نکہت درود کی اُن پر پڑھوں درود ، میں روضے کے سامنے یارب ! عطا ہو پھر یہ سعادت درود کی سیفی ! تمام ہوتی نہیں ھے کوئی نماز جب تک لگے نہ مہرِ محبت درود کی سیدشاکرحسین سیفی کاش اتر جائیں مرے دل پر بھی انوارِ درود آشکارا ہوں مرے ہونٹوں سے اسرارِ درود جب اُترتے ہیں زمینِ دل پہ انوارِ درود تب اُبھرتے ہیں مشامِ جاں سے اشعارِ درود دل کے گلشن میں جو لگاتے ہیں اشجارِ درود حوضِ کوثر پر وہی پائیں گے اثمارِ درود جن کی نسبت سے مجھے معراجِ روحانی ملے کاش ہو جائیں مجھے حاصل وہ اذکارِ درود گلشنِ مدحت سے چنتی ہوں میں نعتوں کے گلاب یوں معطر سا مجھے رکھتے ہیں اشعارِ درود جس کے پڑھنے سے نہیں ہوتی دعا رد کوئی مری لب پہ رکھا ہے وہی ہر آن سردارِ درود لب فروزاں ، روح رخشاں ، سینہ روشن دل جواں ناز ہر شے کر رہی ہے آج اظہارِ درود سمیعہ ناز یہ ہم سے پوچھ لے کوئی ہے کیا درود شریف ہے وجہ دافع رنج و بلا درود شریف مرادیں اس کی ہوں پوری الٰہی محفل میں ترے حبیب پہ جس نے پڑھا درود شریف نشان ہوتا ہے جیسے ہر اک جماعت کا ہے عاشقوں کی بھی پہچان کیا؟ درود شریف محال اس کی اجابت تلک رسائی ہے دعا وہ جس میں پڑھا نہ گیا درود شریف کلامِ رب میں یصَلونَ ، سَلمو بھی ہے ادب سے پڑھتے رہو سب سدا درود شریف اسی کے دم سے ہے پرنور انجمن دل کی چراغ خانہ ء دل کی ضیا درود شریف کبھی وہ شخص بلاؤں میں گھر نہیں سکتا شغف جو رکھتا ہے صبح و مسا درود شریف مرا عقیدہ ہے ایمان ہے یقیں ہے یہ ہر اک دعا سے ہے بڑھکر دعا درود شریف خدا عطا کرے عرفان مجھ کو یہ توفیق ہو شغل وقتِ نزع بھی مرا درود شریف عرفان نعمانی جاہدی باسنی ناگور راجستھان ہر اک مرض کی ہے بیشک دوا درود شریف ہے سب سے اچھا یہ تحفہ ملا درود شریف بنایا جس نے بھی ہے مشغلہ درود شریف مٹائے تیرگی اس کی سدا درود شریف ہے جن کے صدقے بنا ذرہ ذرہ عالم کا انہیں پہ بھیجتا خود بھی خدا درود شریف نصیبہ اپنا ہے سویا جگا لیا اُس نے رسولِ پاک پہ جس نے پڑھا درود شریف اگر جو چاہیے نیکی کی ٹوکری تم کو *وظیفہ اپنا بناؤ سدا درود شریف* قبول کرتا ہے مولیٰ وہی دعا جس میں ہے جاتا اوّل و آخر پڑھا درود شریف درود پاک کی عظمت تو دیکھیے لوگو! قریبِ سرورِ دیں لے گیا درود شریف ہوا عروج پہ اس کی ستارہ قسمت کا نبی کے عشق میں جس نے پڑھا درود شریف پڑھو درود شہ انبیاء پہ خوب ہر دم کرے گی قبر میں بیشک ضیا درود شریف اے *سعد* صاف رکھو دل کو باوضو ہوکر پڑھو حضور پہ صبح و مسا درود شریف *محمد رضا عالم سعد سہرسا بہار* ملا ہے غم میں سہارا درود پڑھنے سے بنا ہے کام ہمارا درود پڑھنے سے وبا کا دور کہ موسم ہو سخت پَت جَھڑ کا خوشی سے ہوگا گزارا درود پڑھنے سے ہمارے دَفترِ دل میں بھی چَھپ کے آتا ہے عطا کا تازہ شُمارہ درود پڑھنے سے اے نجدیو! ہمیں تم اِس سے روکتے کیوں ہو بگڑتا کیا ہے تمہارا درود پڑھنے سے ہمارے دل کے سمندر میں موج کی صورت اُبال خوشیوں نے مارا درود پڑھنے سے یقیں ہے خواب میں اک رات روئے احمد کا ضرور ہوگا نظارا درود پڑھنے سے نہ پوچھے جانے کے لائق تھے ہم تو دنیا میں ہوئے جہاں کو گوارا درود پڑھنے سے یہ بات سچ ہے کہ انسان ہونے لگتا ہے ہراک نگاہ میں پیارا درود پڑھنے سے دکھاؤ روئے زمیں پر اگر ہے کوئی تو ہوا ہو جس کا خسارا درود پڑھنے سے رسولِ پاک کی رحمت نے مجرموں کی طرف کیا لطیف اِشارہ درود پڑھنے سے جو کشتی ڈوبنے والی تھی موجِ طُوفاں میں اُسے ملا ہے کنارا درود پڑھنے سے زہے نصیب اے *اشرفؔ* تِرے مُقدّر کا چمک اٹھا ہے ستارہ درود پڑھنے سے اشرفؔ رضا سبطینی شاہ کارِ خالقی کو ہے سلام یعنی نبیوں کے نبی کو ہے سلام جس کا صدقہ ہے یہ حسنِ کائنات رب کی اس کاری گری کو ہے سلام بے کس و مجبور کا حامی ہے جو اس کی بندہ پروری کو ہے سلام جھک کے ملنا ہے جسے ہر ایک سے اس کی طرزِ عاجزی کو ہے سلام مالک کل اور چٹائی ہے سریر مصطفیٰ کی سادگی کو ہے سلام بھیج کر ان پر درودیں پھر کہو فاطمہ کی پردگی کو ہے سلام ساتھ جو کربل میں تھے شبیر کے ہر کسی کی تشنگی کو ہے سلام سارے اصحابِ شہِ دیں پر درود سارے عشاقِ نبی کو ہے سلام نظم کرتا ہے جو ان کی نعتِ پاک اس بشر کی شاعری کو ہے سلام مصطفیٰ تو مصطفیٰ مفتاح لکھ ان کے ہر اک امتی کو ہے سلام مفتاح الحسن مفتاح چشتی لب پر یہی صبح مسا صل علی صل علی صل علی صل علی صل علی صلی علی آدم پڑھیں یوسف پڑھیں عیسی کہیں موسی کہیں رب نے کہا سب نے کہا صل علی صل علی حجرو شجر جن وبشر کوہ و دمن مرغ چمن ارض و سما کی ھے صدا صل علی صل علی تاروں کی لو مہ کی چمک آب رواں یا ھو دھنک سب کا یہی ھے مدعا صل علی صل علی کیسے کہیں کچھ اور ھم کیسے پڑھیں کچھ اور ھم یہ ھی پڑھا یہ ھی سنا صل علی صل علی سب دیکھ لو قرآن میں ھے کہہ رھا یہ ھی خدا پڑھتے چلو صل علی صلی علی صل علی ھے اک یہی دونوں جہاں کی روشنی کا راستہ دم دم یہی تو پڑھتا جا صل علی صل علی ھے آروز اب جی یہی جاٶں مدینے ایکدن کرتے ھوٸے صل علی صلی علی صل علی دنیا کے ہر دکھ درد گا عالم یہی درمان ھے یامصطفی یا مجتبی صل علی صلی علی کلام ۔ ساٸیں محمد محبوب عالم چشتی رضوی نبی سے گر ہے محبت درود پاک پڑھو ملے گی قلب کو راحت درود پاک پڑھو خداۓپاک یہ فرما رہا ہے قرآں میں ادا کرو مری سنت درود پاک پڑھو اے عاصیو! اے گنہ گارو! اے سیہ کارو! اگر ہے خواہش جنت درود پاک پڑھو غم و الم کی ہوا چل رہی ہو جب ہر سو سکوں کی چاہیے دولت درود پاک پڑھو خدا کی رحمتیں ہوں گی سروں پہ سایہ فگن نبی کریں گے شفا عت درود پاک پڑھو خدا کے ساتھ فرشتوں کا بھی وظیفہ ہے کرو انہیں کی اطاعت درود پاک پڑھو تمہاری سمت رکھے گی مسلسل اپنا رخ مدینے والے کی رحمت درود پاک پڑھو شبِ الم کو بدلنا ہے روزِ فرحت سے تو نورِ حق پہ بکثرت درود پاک پڑھو رسول پاک کی قربت ہے گر عزیز تمھیں کرو نفیس عبادت درود پاک پڑھو از ۔محمد نفیس مصباحی بلرام پوری خدا بھیجتا ہے جب، ان پر درود پڑھے کیوں نہ شہ کا ثنا گر درود شہِ دیں کی قربت بھی مل جائے گی پڑھو ان پہ بس تم برابر درود ٹلا سر سے طوفانِ رنج و الم پڑھا میں نے جس وقت شہ پر درود جو تلوار سے تیز ہے پل صراط میں ہو جاؤں گا پار پڑھ کر درود وہ سب کچھ تمہیں بخش دے گا خدا جو مانگو گے لب پر سجا کر درود لحد میں تجھے روشنی چاہیئے؟ حبیب خدا پہ پڑھا کر درود وظائف سنو سیف جتنے بھی ہیں سبھی سے ہے ان سب میں برتر درود محمد سیف رضا قادری الہ آباد تمام ہو یہ تمنا درود پڑھتے ہوئے میں جاؤں شہرِ مدینہ درود پڑھتے ہوئے خیال و فکر میں وہ سبز گنبد آقا رہے ہمیشہ ہویدا درود پڑھتے ہوئے کہیں بھی، کوئی مصیبت جو گھیر لے تجھ کو! نجات یافتہ ہونا درود پڑھتے ہوئے زباں کو اہل جہاں کی محبتوں سے بچا بناکے اپنا وظیفہ درود پڑھتے ہوئے عظیم تر تجھے خوشیاں نصیب ہوں گی مگر جگا تو سویا نصیبہ درود پڑھتے ہوئے ہمارا اسم محمدﷺ ہی اسم اعظم ہے اسی سے کام بنے گا درود پڑھتے ہوئے قبول توبۂ آدم کا کیا وسیلہ ہے قبول ہوگئ توبہ درود پڑھتے ہوئے بھنور میں کب سے پھنسی تھی یہ کشتی امت عطا ہوا ہے کنارہ درود پڑھتے ہوئے اگر دھڑکنا تجھے ہے تو خوب دھڑکا کر! مگر اے مرکزی حصہ درود پڑھتے ہوئے کہاں نصیب سبھی کو ہے عشق پاک نبی بڑھا اے قلب جلاپا درود پڑھتے ہوئے وصال یار بھی حاصل کبھی ہو مجھ کو بھی مگر ہو جب تو خدارا درود پڑھتے ہوئے ہمیں نہیں ہے یہاں کوئی بھی خَطَر پیارے! کریں گے پار یہ دریا درود پڑھتے ہوئے بچیں جہاں کے شیاطیں سے آصف خستہ سفر، حضر میں ہمیشہ درود پڑھتے ہوئے محمد آصف نوری منظری اپنی حیات کا تو وظیفہ بنا درود قربِ رسول پاک کا ہے راستہ درود سایہ فگن انہیں کے سروں پر ہیں رحمتیں پڑھتے ہیں جو حضور پہ صبح و مسا درود ہر اٰن ہے وہی تو خدا کی امان میں ہر اٰن جو حضور پہ پڑھتا رہا درود وہ لوگ سوۓ خلد بصد شان جائیں گے پڑھتے ہیں اپ پر جو حبیب خدا درود اس کی دعا ضرور کرے گا خدا قبول جس نے دعا سے پہلے نبی پر پڑھا درود دیکھے گا خواب میں وہ کبھی جلوۂ رسول سوتا ہے جو رسول پہ پڑھتا ہوا درود نام رسولِ پاک شرافت جہاں سُنا میں نے بصد خلوص وہیں پر پڑھا درود ««««شرافت حسین بلرامپوری»»»» مشکل سے دور رہنے کو پل پل درود پڑھ مشکل کشا حضور پہ جل تھل درود پڑھ دنیا سے بچ کے رہنا ہے ہمدم اگر تجھے محبوب کبریا پہ مسلسل درود پڑھ تجھ کو سکون قلب ملے گا ضرور بس “یادوں میں ان کی ڈوب کے ہر پل درود پڑھ” جب نام ہو لبوں پہ محمد , مٹھاس سے میرا بھی منہ بھرے , دل بیکل درود پڑھ آقا سے اذن حاضری مل جائے کاش پھر طیبہ سفر کے واسطے آ چل درود پڑھ معصوم امتی ہے بنا رب کا ہے کرم دن رات شکر کر ادا پل پل درود پڑھ انعام الحق معصوم صابری شاہ بطحاء کی عنایت پر سلام۔ ان کے در کی نور و نکہت پر سلام۔ جن کے در پہ پلتے ہیں شاہ و گدا۔ نور والی پیاری تربت پر سلام۔ تاجدار انبیاء خیر البشر۔ نوری صورت پاک طینت پر سلام۔ آپ ہی ہیں میرے رہبر بالیقین۔ پیاری پیاری اعلی حکمت پر سلام۔ رحمت عالم کے صدقے میں جہاں۔ آمد شاہ ہدایت پر سلام۔ روز محشر بخشواینگے ہمیں۔ ان کی اس اعلیٰ ضیافت پر سلام۔ درپہ پلتا ہے نظامی آپ کے۔ آپ کی پیاری عنایت پر سلام۔ علی احمد نظامی ایس نگری یوپی انڈیا نبی، رسول، پیمبر، دُرود پڑھتے ہیں مِنار و مسجد و منبر، دُرود پڑھتے ہیں امیر، شاہ، تونگر، دُرود پڑھتے ہیں غلام، نوکر و چاکر، دُرود پڑھتے ہیں بہار، سرو سمن، گل، شگوفے، مشک، کلی گلاب، چمپا و عنبر، دُرود پڑھتے ہیں پپیہا، بلبل و قمری، چکور، طوطی، مور عقاب، مرغ، کبوتر، درود پڑھتے ہیں درودِ پاک ترانہ ہے باغِ جنت کا فرشتے، خلد کے اندر، دُرود پڑھتے ہیں حسن، حسین گلِ باغِ فاطمہ زہرا حضور فاتحِ خیبر ، دُرود پڑھتے ہیں رسولِ پاک کے اصحاب، اولیا، اقطاب تمام ، عالم و رہبر، دُرود پڑھتے ہیں فلک پہ شمس و قمر اور نجوم، سیارے زمیں پہ کنکر و پتھر، دُرود پڑھتے ہیں ردیف، قافیہ، اشعار، خود بخود، تنویر، ادب سے، اپنے نبی پر، دُرود پڑھتے ہیں ✍ محمد تنویر رضا صدیقی ردولی شریف راحتِ قلب وجاں جسکا پیارا ہے نام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام جبراٸیلِ امیں جنکے در کے غلام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام جس کو صلو علیہِ خدا بھی کہے جسکو داٸم سلامُٗ کےتحفے ملے ہیں جو خیر البشر ، ہیں جو خیرالانام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام ماہتابِ نبوت شہِ دوسرا مرکزِ نورِ ایمان خیرالوری’ انبیا و رسل کے بھی ہیں جو امام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام جو ہیں عرشِ علی’ پر بلاٸے گٸے جنکی خاطر دوعالم بناٸے گٸے جنکے صدقے رہیں نہ مصاٸب آلام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام جنکی تعظیم کو آٸیں چل کے شجر گویا ہو کے گواہی دیں واللہ حجر جنکی آمد پہ روشن ہوٸے فرش و بام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام ہے مطیعِ محمدﷺ ، مطیعِ خدا یعنی مقصودِ حق، مصطفے’ کی رضا جنکی گفتار ہے عین ربی کلام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام جنکی نسبت زمانے میں سب سے وری’ جنکی رحمت سے سب کا بھلا ہی بھلا جن کا جاری ہے فیضِ نظر صبح و شام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام ہے دعاٸے نقی آخری ہو گھڑی آٸیں سرکار کرنے کو چارہ گری لب پہ جاری ہو کلمہِ خیرالانام اس نبیِ معظم پہ ہر دم سلام سلامِ عقیدت از: سید سبطِ حسنین نقی
- استاد زمن علامہ حسن رضابریلوی
پسندیدہ نعت گو شاعر ۔۔ ! تعارف ذوقِ نعت [۱۳۲۶ھ]، نعتیہ دیوان ، از: شاگرد داغ استاد زمن علامہ حسن رضابریلوی تحریر: محمد ثاقب رضا قادری مرکزالاولیا ء ، لاہور مولانا حسن رضا کا نعتیہ دیوان ’’ذوق نعت‘‘ معروف بہ ’’صلۂ آخرت‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۳۲۶ھ میں آپ کے وصال کے بعدحکیم حسین رضا خان کی سعی و اہتمام سے طبع ہوا۔حمد، نعت، مناقب صحابہ و اولیأ،ذکر شہادت، بیان معراج، نغمۂ رُوح،کشفِ رازِ نجدیت ،رُباعیات اور چند تاریخی قطعات پر مشتمل ہے۔ تقریبًا تمام حروف تہجی کے ردیف میں مولانا نے کلام فرمایا ہے۔ اول طباعت پر اخبار ’’اہل ِفقہ‘‘ ،امرتسرکے ایڈیٹر مولانا غلام احمد صاحب نے ۲۰جولائی، ۱۹۰۹ء کے شمارہ میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا اشتہار دیا، جس کو ہم یہاں نقل کر رہے ہیں : ’’یہ نعتیہ دیوان جناب حضرت مولانا الحاج حسن رضا خان صاحب مرحوم و مغفور بریلوی کی تصنیف ہے۔ حضرت مولانا موصوف اعلیٰ درجہ کے ادیب اور شاعر تھے اور آپ کے کلام میں ایسی تاثیر ہے کہ دل اِس کے سننے سے بے اختیار ہو جاتا ہے۔ آپ کی قادرُالکلامی کا یہ عالم ہے کہ ایک دفعہ مجھے بریلی جانے کا اتفاق ہوا۔ میں نے عرض کیا کہ میں نعتیہ رسالہ جاری کرنے والا ہوں، پہلی طرح ہو گی’’محوِ دیدار ِمحمد دل ہمارا ہو گیا‘‘، اس پر ایک نعتیہ غزل تحریر فرما دیجیے۔ آپ نے فورًا قلم برداشتہ غزل لکھ دی جس کے چند اشعار درج ہیں : ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے تیری ہیبت سے فلک کا مہ دو پارا ہو گیا نام تیرا ذکر تیرا تُو ترا پیارا خیال ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا آپ نے ایام رحلت سے پہلے اپنا نعتیہ دیوان مرتب کرنا شروع کیا مگر افسوس کہ چھپنے سے پہلے آپ رہ گزارِ عالم جاودانی ہوئے اور اب یہ دیوان آپ کے فرزندرشید جناب مولوی حکیم حسین رضا خان صاحب نے نہایت عمدہ کاغذ پر بکمالِ آب وتاب چھپوایا ہے۔ علاوہ نعت شریفوں کے حضراتِ بزرگان دین کی شان میں مناقب و قصائد لکھے ہیں۔ بعض مبتدعین کے ردمیں بھی چند نظمیں ہیں۔ تمام مسلمانوں کو عمومًا اور نعت خوانوں کو خصوصًااس قابل قدر کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔‘‘ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے’’ ذوق نعت‘‘ کی تاریخ میں ایک شاہکار قطعہ لکھا، قطعہ کیا ہے اعلیٰ حضرت کی شاعر ی شکوہ انداز، حسنؔ کی یادیں ، شاعری اور شخصیت کا حسین مرقع، ملی اور مذہبی خدمات ، اپنے روابط اور حسنؔ سے جذباتی لگاؤ کا واضح اظہار جو اعماقِ قلب سے زبانِ قلم پر اُترا اور صفحہ قرطاس پر بکھر گیا ۔ آخری چار شعر ہر مصرع تاریخ، مصرع نصف کی تکرار، صنائع بدائع سے مملو، حسن وجمال کی تصویر دیکھیے ؎ قوت بازؤے من سُنّی نجدی فگن حاجی و زائر حسن، سلمہٗ ذوالمنن نعت چہ رنگیں نوشت، شعر خوش آئیں نوشت شعر مگو دیں نوشت، دور ز ہر ریب و ظن شرع ز شعرش عیاں، عرش بہ بتیش نہاں سُنّیہ را حرزِ جاں، نجدیہ را سر شکن قلقلِ ایں تازہ جوش، بادہ بہنگام نوش نور فشاند بگوش، شہد چسکاں در دہن کلک رضاؔ سالِ طبع، گفت بہ افضال طبع زا نکہ از اقوالِ طبع، کلک بود نغمہ زن ’’اوج بہیں محمدت، جلوہ گہ مرحمت‘‘ ’’عافیت عاقبت باد نوائے حسنؔ‘‘ ’’بادِ نوائے حسنؔ، باب رضائے حسن‘‘ؔ ’’باب رضائے حسنؔ، باز بہ جلبِ منن‘‘ ’’باز بہ جلبِ منن، بازوئے بخت قوی‘‘ ’’بازوِ بخت قوی،نیک حجابِ محن‘‘ ’’نیک حجابِ محن، فضل عفو و نبی‘‘ ’’فضل عفو و نبی، حبل وی و حبل من‘‘ اعلیٰ حضرت مزید فرماتے ہیں : نعتِ حسنؔ آمدہ نعتِ حسن حُسنِ رضا باد بزیں سلام اِنَّ مِنَ الذَّوْقِ لَسِحْرٌ ہمہ اِنَّ مِنَ الشِعْرِ لَحِکْمَۃٌ تمام کلک رضاؔ داد چناں سال آں یافت قول از شد رأس الانام پاک و ہند میں’’ذوق نعت‘‘ کے کئی ایڈیشنز چھپ کر قبولیت عامہ حاصل کرچکے، لکھنؤ سے طبع ہونے والے پانچویں ایڈیشن میں کچھ کلام کا اضافہ کیا گیا ، غالبًایہی نسخہ بعد میں مرکزی انجمن حزب الاحناف، لاہور سے شاہ ابوالبرکات (خلیفۂ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی) نے شائع کروایا۔ اضافی کلام کی تفصیل پیش کی جاتی ہے :۱۔ اس ایڈیشن میں مولانا حسن رضا کی مثنویوں کو شامل کیا گیا، جن میں’’ وسائل بخشش ‘‘بھی شامل ہے اور کچھ میلاد شریف کے بیان پر مشتمل ہیں۔۲۔قصیدہ درمدح شاہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمۃ۳۔نذیر احمد دہلوی نے سیداحمدخان کی مد ح میں قصیدہ لکھا تھا جس کا ردیف ’’باقی‘‘تھا ، مولانانے اس قصیدہ کا ایک ایک شعر نقل کرکے پھر اسی ردیف میں نذیر احمد کے قصیدہ کا رد کیا ہے۔ تقریبًا سو (۱۰۰) سے زائد اشعار ہیں۔ علامہ حسن رضابریلوی کی نعتیہ شاعری تحریر : ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی،مالیگاؤں نعت اردو کی دیگر اصنافِ سخن کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقت ور،معظّم،محترم اور محبوب وپاکیزہ صنف ہے۔اس کا آغاز یومِ میثاق ہی سے ہوچکا تھا۔قادرِ مطلق جل شانہٗ نے قرآنِ عظیم میں جابجا اپنے محبوبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرماکر نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشاہے۔صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات،اہلِ بیتِ اطہار،تابعین،تبع تابعین،ائمۂ مجتہدین،سلف صالحین،اغواث،اقطاب،ابدال،اولیا،صوفیہ،علمااور بلاتفریق مذہب و ملّت شعراوادباکاایک لامتناہی سلسلہ ہے جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہِ محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی عقیدت و محبت کے گل و لالہ بکھیرے ہیں۔ ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے باضابطہ طور پر آغاز کے آثار سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ملتے ہیں۔طوطیِ ہندحضرت امیر خسروؔ کو ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے میدان کا مستند شاعر کہاجاتاہے۔امیر خسروؔ فارسی زبان وادب کے ماہر تھے۔آپ کا کلامِ بلاغت نظام بھی فارسی ہی میں موجود ہے۔بعد ازاں جب اردو زبان کا وجود ہوا تب ہی سے اردو میں نعتیہ شاعری کا بھی آغاز ہوا۔خواجہ بندہ نواز گیسو دراز،فخرِ دین نظامی،غلام امامؔ شہید،لطف علی لطفؔ بدایونی،کفایت علی کافیؔ ،کرامت علی شہیدیؔ ،احمد نوریؔ مارہروی،امیر مینائی،بیدمؔ شاہ وارثی،نیازؔ بریلوی،آسیؔ غازی پوری،محسن کاکوروی اور امام احمد رضا بریلوی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی تک پہنچا اوراردو نعت گوئی کا یہ نا ختم ہونے والامقدس سفر ہنوز جاری و ساری ہے۔ امام احمد رضا بریلوی بلا شبہہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم نعت گو شاعر گزرے ہیں آپ حسّان الہند ہیں۔نعتیہ شاعری کے سرتاج اور اس فن کی عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ سخنورانِ عجم کے امام بھی ۔۔۔ اسی طرح آپ کے برادرِ اصغر علامہ حسن رضا بریلوی کے دیوان کے مطالعہ کے بعد انھیں بھی بلا تردد اردو کا ممتاز نعت گو شاعر قرار دیا جا سکتا ہے ۔آپ کے نعتیہ دیوان’’ذوقِ نعت‘‘میں جہاں کلا سیکیت کے عناصر اور تغزّل کے رنگ کی بھر پور آمیزش ہے وہیں پیکر تراشی، استعاری سازی،تشبیہات، اقتباسات،فصاحت وبلاغت،حُسنِ تعلیل و حُسنِ تشبیب،حُسنِ طلب و حُسنِ تضاد ،لف و نشر مرتب و لف ونشر غیر مرتب ،تجانیس،تلمیحات،تلمیعات،اشتقاق،مراعاۃ النظیروغیرہ صنعتوں کی جلوہ گری بھی۔۔۔ اس دیوان میں نعت کے ضروری لواز م کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار قرار دیا جاسکتا ہے۔آپ کا پورا کلام خود آگہی،کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصور سے ہم کنار ہے۔مگر کیا کہا جائے اردو ادب کے اُن مؤرخین و ناقدین اور شعرا کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے گروہی عصبیت اور جانبداریت کے تنگ حصار میں مقید و محبوس ہوکر اردو کے اس عظیم شاعر کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یکسر خالی رکھا نیز یہ شاعر جس قادر الکلام شاعر کی بارگاہ میں اپنے نعتیہ کلام کو زیورِ اصلاح سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے پیش کرتا تھا اُس (یعنی امام احمد رضا بریلوی) کا بھی ذکرِ خیر اپنی کتابوں میں نہ کرکے اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین ادبی جُرم کا ارتکاب کیا ہے۔وہ تو بھلا ہو لالہ سری رام کا جنھوں نے ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جلد دوم کے صفحہ ۴۵۰ پر علامہ حسن رضا بریلوی کا تذکرہ کرکے اپنے آپ کو متعصب مؤرخینِ اردو ادب سے جدا کر لیا ہے۔موصو ف لکھتے ہیں۔ ’’سخنورِ خوش بیاں،ناظمِ شیریں زباں مولانا حاجی محمد حسن رضا خاں صاحب حسن ؔ بریلوی خلف مولانا مولوی نقی علی خاں صاحب مرحوم و برادر مولانا مولوی احمد رضاخاں صاحب عالمِ اہلِ سنت و شاگردِ رشید حضرت نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی۔۔۔ ۔۔۔ نعت گوئی میں اپنے برادرِ بزرگ مولوی احمد رضا خاں سے مستفیض ہیں اور عاشقانہ رنگ میں بلبلِ ہندوستان داغؔ سے تلمذ تھا‘‘۔ یہاں یہ امر باعثِ حیرت و استعجاب ہے کہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جیسے ضخیم تذکرے میں امام احمد رضابریلوی کا ذکر محض اس مقام کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے جبکہ آپ کا ذکر بحیثیتِ شاعر الگ سے ہونا چاہیے تھا ،یہاں پر آپ کا تذکرہ صر ف علامہ حسن رضا بریلوی کے بڑے بھائی کی حیثیت سے ہے اس موقع پر ماہرِ غالبیات کالیداس گپتا رضاؔ کی اس تحریر کو نقل کرنا غیر مناسب نہ ہوگا،گپتا صاحب رقم طراز ہیں۔ ’’تاہم حیرت ہے کہ اس ضخیم تذکرے میں اِن (حسنؔ رضا بریلوی) کے بڑے بھائی ’’عالمِ اہلِ سنت اور نعت گوئی میں اُن کے استاذ جناب احمد رضا خاں کے ذکر نے جگہ نہ پائی۔‘‘(ماہنامہ قاری،دہلی ، امام احمد رضا نمبر ،اپریل ۱۹۸۹ ء ،مضمون: امام احمد رضا بحیثیتِ شاعر،از: کالیداس گپتا رضا ،ص ۴۵۶)۔ استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کاکلامِ بلاغت نظام معنی آفرینی کے لحاظ سے جس قدر بلند و بالا ہے اس پر اس قدر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا ہے۔غالباً آپ کی شاعری پر پہلا مقالہ رئیس المتغزلین سید فضل الحسن قادری رضوی رزّاقی مولانا حسرتؔ موہانی علیہ الرحمۃ (م)کا تحریر کردہ ہے جو کہ ’’اردوئے معلی‘‘علی گڑھ کے شمارہ جون ۱۹۱۲ء میں اشاعت پذیر ہواتھا۔(سیرتِ اعلیٰ حضرت،از : فرزندِ استاذ زمن علامہ حسنین رضا خاں بریلوی،مطبوعہ،مکتبۂ مشرق ،بریلی،ص ۱۳ سے ۱۷ تک مولانا حسرتؔ موہانی کا یہ مضمون درج ہے)۔ اس مسلمہ حقیقت سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خانوادۂ رضا کا طرۂ امتیاز ہے۔حدائقِ بخشش(از:امام احمد رضا بریلوی)اور ’’ذوقِ نعت‘‘کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں بھائیوں کو محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھٹی میں گھول کر پلائی گئی ہے۔’’حدائقِ بخشش‘‘ محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایسا میخانہ ہے جہاں کی پاکیزہ شراب سے آج ساری دنیا کے خوش عقیدہ مسلمان سیراب ہورہے ہیں۔اسی طرح ’’ذوقِ نعت‘‘ بھی محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حسیٖن مجموعہ ہے جس کا ورق ورق محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تابندہ و فروزاں اور سطر سطر میں تعظیم و ادبِ رسالت کی جلوہ گری ہے نام تیرا ، ذکر تیرا تو ترا پیارا خیال ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہوگیا یہ پیاری ادائیں ، یہ نیچی نگاہیں فدا جانِ عالم ہے اے جانِ عالم یہ کس کے روے نکو کے جلوے زمانے کو کررہے ہیں روشن یہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا اللہ کرے وقار آقا علامہ حسن رضا بریلوی کا روئے سخن نعت گوئی سے قبل غزل گوئی کی طرف تھا۔مگر جب آپ نے اپنے برادرِ اکبر امام احمد رضا بریلوی کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کیا تو طبیعت میں انقلاب برپا ہوگیا،دل میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دبی ہوئی چنگاری شعلۂ جوالہ بن کر اُبھر گئی اور آپ نعتیہ شاعری کے میدان کے ایک ایسے عظیم ترین شہسوار بن گئے کہ جلد ہی ’’اُستاذِ زمن‘‘ کے لقب سے دنیاے شعر وادب میں پہچانے جانے لگے۔امام احمد رضا بریلوی کی اس نظرِ عنایت کا انھیں بھی اعتراف ہے ۔’’ذوقِ نعت‘‘ میں ایک مقام پر اپنے برادرِ معظّم کے حق میں یوں دعا کی ہے بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضاؔ سے بھلا ہو الٰہی جنابِ رضاؔ کا میرے خیال میں’’ حدائقِ بخشش‘‘ کے اشعارِ آبدار کے معنی ومفہوم کے فہم میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا مطالعہ نا گزیر ہے ۔حدائقِ بخشش جہاں فکر و تخیل کا ایک بحرِ بیکراں اور معنی آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے وہیں ذوقِ نعت اس بحرِ بیکراں کی غواصی کے ذریعہ حاصل کردہ صدف سے نکالے گئے قیمتی موتیوں سے پرویا ہوا خوشنما ہار ہے اور اس کے اشعار فکرِ رضا کے سہل انداز میں شارح و ترجمان ہیں قرآن کھارہا ہے اسی خاک کی قسم ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پر لوٹے تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا ذات بھی تیری انتخاب ہوئی نام بھی مصطفی ہوا تیرا قمر اک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا زمانہ پہ روشن ہیں طاقت کسی کی وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی علامہ حسن رضا بریلوی کا نعتیہ کلام شاعری کی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات سے سجا سنورا اور تمام تر فنّی محاسن سے مزین اور آراستہ ہے موضوعات کا تنوع،فکر کی ہمہ گیری،محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ جذبات کی فراوانی کے اثرات جابجا ملتے ہیں۔آپ کے کلام میں اندازِبیان کی ندرت بھی ہے اور فکر و تخیل کی بلندی بھی،معنی آفرینی بھی ہے، تصوّفانہ آہنگ بھی،استعارہ سازی بھی ہے، پیکر تراشی بھی ،طرزِ ادا کا بانکپن بھی ہے، جدت طرازی بھی ،کلاسیکیت کا عنصر بھی ہے،رنگِ تغزل کی آمیزش بھی ،ایجاز و اختصاراور ترکیب سازی بھی ہے،عربی اور فارسی کا گہرا رچاؤ بھی لبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں ہو مجھے تارِ نفَس ہر خطِ مسطر کاغذ کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومن تمہارے در پہ رہ جاوں جو سنگِ آستاں ہوکر آستانہ پہ ترے سر ہو اجل آئی ہو اور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو اونچی ہوکر نظر آتی ہے ہر اک شَے چھوٹی جاکے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا شاعری میں ایجاز واختصار کلام کی ایک بڑی اور اہم خوبی ہے۔اس میں علامہ حسن رضا بریلوی کو کافی ملکہ حاصل تھا ۔مشکل اور طویل مضامین کو سہل انداز میں ایک ہی شعر میں کہہ کر گزر جانا آپ کے مسلم الثبوت شاعر ہونے کی واضح اور روشن دلیل ہے ؛مثالیں خاطر نشین ہوں گناہ گار پہ جب لطف آپ کا ہوگا کِیا بغیر کِیا بے کِیا ہوگا کیا بات تمہارے نقشِ پا کی ہے تاج سرِ وقار آقا بت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہے مل مل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو جتنی ہو قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو اسی طرح کم سے کم لفظوں میں مفہوم کی ادائیگی اور شعر میں بلاغت بھرنے کے لیے ترکیب سازی کی بڑی اہمیت ہے۔شاعری میں محبوب یا ممدوح کے اوصافِ بلیغ کے اظہار میں تراکیب اہم رول ادا کرتی ہیں۔علامہ حسن رضا بریلوی کے نعتیہ کلام میں جہاں تمام ادبی و فنّی محاسن موجود ہیں وہیں ترکیب سازی کے بہت ہی دل کش اور نادر نمونے ملتے ہیں اس مہک پر شمیم بیز سلام اس چمک پر فروغ بار دُرود زخم دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیٖم روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس اے نظمِ رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع تو نے ہی اسے مطلعِ انوار بنایا زمیں کے پھول گریباں دریدہ غمِ عشق فلک پہ بدر ، دل افگارِ تابِ حسنِ ملیح صبیح ہوں کہ صباحتِ جمیل ہوں کہ جمال غرض سبھی ہیں نمک خوارِ بابِ حسنِ ملیح اگر دودِ چراغِ بزمِ شہ چھو جائے کاجل کو شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں علامہ حسنؔ رضا بریلوی کے کلام کی خصوصیات پر اگر قلم کو جنبش دی جائے تواس متنوع خوبیوں اور محاسن سے لبریز کلام کا احاطہ اس مختصر سے مقالے میں ناممکن ہے۔کیوں کی آپ کی شعری کائنات کے کما حقہٗ تعارف کے لیے ایک عظیم دفتر درکار ہے۔اسی لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اجمالی جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔ مالکِ کون ومکاں باعثِ کن فکاں صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ مطلق جل شانہٗ نے مجبور و بے کس نہیں بل کہ مالِک ومختار بناکر اس خا ک دانِ گیتی پر مبعوث فرمایاہے۔آقا و مولا صاحبِ اختیار ہیں اور آپ کے کمالات ارفع و اعلا ہیں ،اس طرح کے اظہار سے ’’ذوقِ نعت ‘‘ کے اوراق مزین و آراستہ ہیں ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا تمہیں ہو مالکِ مِلکِ خدا خاص وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے محبوب کیا مالک و مختار بنایا کیوں نہ ہو تم مالکِ مِلکِ خدا مُلکِ خدا سب تمہارا ہے ، خدا ہی جب تمہارا ہوگیا سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیا و المرسلین ہیں ۔آپ کے اوصاف و کمالات ،شمائل و فضائل اس قدر ارفع و اعلا،افضل و بالا ہیں کہ اس میں دوسرے انبیا آپ کے شریک نہیں اور خداوندِ قدوس سے آپ کو سب سے زیادہ قربت حاصل ہے شریک اس میں نہیں کوئی پیمبر خدا سے ہے جو تجھ کو واسطہ خاص تمام بندگانِ خدا ہر ہر کام میں اپنے خالق و مالک جل شانہٗ کی مرضی و مشیت کے طلب گار ہیں۔مگر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جومرضی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بھی خوش نودی و رضا ہے۔نقاشِ ازل جل شانہٗ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ پیشانی پر یہ بات بہ خطِّ قدرت ازل ہی میں تحریر فرمادی تھی قدرت نے ازل میں یہ لکھا ان کی جبیں پر جو ان کی رضا ہو وہی خالق کی رضا ہو ایک عاشق کی یہ سب سے بڑی آرزو اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے محبوبِ رعنا ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے روئے منور کی زیارت نصیب ہوجائے ۔علامہ حسنؔ رضا بریلوی جامِ روے جاناں کی تشنگی رکھتے ہیں اور آپ کی یہ تشنگی اتنی فزوں تر ہے کہ اگر نزع کے وقت حورانِ خلد آکر آپ کے آگے جام پر جام لنڈھائیں بھی تو آپ ان کی طرف نگہِ التفات کرنے کی بجاے اپنا رُ خ دوسری جانب پھیر لیں گے دے اس کودمِ نزع اگر حور بھی ساغر منھ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو عاشق چاہتا ہے کہ سرورِ انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کے جلووں سے دل منور و مجلا ہوجائے اور ہمہ وقت اس میں مدینے کی یاد رچی بسی رہے رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے مرا دل بنے یادگارِ مدینہ لالہ و گل کی نکہتوں اور گلستانوں کے رنگ و بہار پر صحرائے مدینہ کو اس طرح فوقیت دی جارہی ہے رنگِ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند صحراے طیبہ ہے دلِ بلبل کو تُو پسند علامہ حسنؔ رضا بریلوی آقا ومولا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرِ پاک کی خواہش و تمنا کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں یوں دعا گو ہیں مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے خدایا دکھادے بہارِ مدینہ صحرائے مدینہ کے حصول کے بعد جنت اور بہارِ گلشن کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ان کو صحراے مدینہ کے آگے یوں ہیچ بتایا ہے خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا جب زاہد عاشق کو جنت کے باغوں کا پھول دے کر اسے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جنت کے لالہ و گل کو محبوبِ دل نواز ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہرِ رعنا کے خوش نما کانٹوں کے آگے بے وقعت سمجھتے ہوئے زاہد کو اس طرح خطاب کرتا ہے کہ گلِ خلد لے کے زاہد تمہیں خارِ طیبہ دے دوں مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے علامہ حسنؔ رضا بریلوی کو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی تڑپ اور لگن ہے کہ اس دنیا سے جاتے وقت بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زبان پر ترانۂ نعت جاری رہے خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رخصت زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی موت کے بعد مدینۂ طیبہ کا غبار بننے اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس کوچہ میں دفن ہونے کی ایمانی خواہش کا یوں اظہار کرتے ہیں مری خاک یارب نہ برباد جائے پسِ مرگ کردے غبارِ مدینہ مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں لگادے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے عاشق کی نظر میں روزِ محشر کا انعقاد صرف اسی لیے ہوگا کہ اس دن محبوبِ خدا( صلی اللہ علیہ وسلم )کی شانِ محبوبی دکھائی جائے گی کیوں کہ آپ اس روز عصیاں شعاروں اور گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزمِ محشر کا کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی عاشق کہتا ہے کہ مجھے میدانِ محشر میں کوئی خوف نہیں ہوگا کیوں کہ یہ آقا و مولا میرا شفیع ہے خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے جب کہ اس کے برعکس منکرینِ شفاعت اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ایک ایک کا منھ تکتے اِدھر اُدھر بھٹکتے رہیں گے حشر میں اک ایک کا منھ تکتے پھرتے ہیں عدوٗ آفتوں میں پھنس گئے تیرا سہارا چھوڑ کر سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی محافل میں پڑھے جانے والے بہت سارے میلاد نامے’’ذوقِ نعت‘‘ ہی کے ہیں وہ تمام کے تمام شعری کمال کے اعلا نمونے ہیں۔چند اشعار خاطر نشین ہوں فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے زمینِ خلد کی کیاری ہے بارہویں تاریخ جھکالائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارض کہ وہ ماہِ دل آرا اَب زمیں پر آنیوالاہے وہ مہر مِہر فرما وہ ماہِ عالم آرا تاروں کی چھاوں آیا صبحِ شبِ ولادت خوشبو نے عنادل سے چھڑائے چمن و گل جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا علامہ حسنؔ رضا بریلوی کایہ کمالِ شاعری ہے کہ آپ ایک لفظ کو ایک معنی پر ایک شعر میں اس پُرکاری اور ہنر مندی سے استعمال کرتے ہیں کہ تکرار کا نقص نہیں بل کہ تخیل کا حسن پیدا ہوجاتا ہے مثلاً ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے نکالی ہے تو آنیوالوں کی حسرت نکالی ہے علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری میں کلاسیکیت اور تغزل کارنگ حد درجہ غالب ہے۔نعت کے اعلا ترین تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان دونوں کو یک جا کرکے سلامت روی کے ساتھ گذر جاناعلامہ حسنؔ رضا بریلوی کی قادرالکلامی کی بیّن دلیل ہے۔ذیل میں برنگِ تغزل آپ کے چیدہ چیدہ اشعار خاطر نشین فرمائیں مرے دل کو دردِ الفت ، وہ سکون دے الٰہی مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے کرے چارہ سازی زیارت کسی کی بھرے زخم دل کے ملاحت کسی روشن ہے ان کے جلوۂ رنگیں کی تابشیں بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح ہوا بدلی گھرے بادل کھلیں گل بلبلیں چہکیں تم آئے یا بہارِ بے خزاں آئی گلستاں میں کیا مزے کی زندگی ہے زندگی عشاق کی آنکھیں ان کی جستجو میں دل میں ارمانِ جمال زینتوں سے ہے حسینانِ جہاں کی زینت زینتیں پاتی ہیں جلوے تری زیبائی کے جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھی ہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حسنِ ملیح اپنا ہے وہ عزیز جسے تو عزیز ہے ہم کو تو وہ پسند جسے آئے تو پسند دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت مٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے پڑے ہوئے تو زرِ رہِ گذار ہم بھی ہیں ’’ذوقِ نعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ قابلِ لحاظ حصہ مناقب پر بھی مشتمل ہے ۔حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق،حضرت عثمان غنی،حضرت علی مرتضیٰ ،حضرت امام حسین وشہدائے کربلارضی اللہ عنہم حضرت غوثِ اعظم،حضرت خواجہ غریب نواز،حضرت شاہ اچھے میاں و شاہ بدیع الدین مدار قدست اسرارہم کی شانِ اقدس میں منقبتیں جہاں ایک طرف شعری و فنی کمال کا نمونہ ہیں وہیں علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی اپنے ممدوحین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظہرِ جمیل بھی۔ علاوہ ازیں ’’ذوقِ نعت‘‘ میں شامل ایک نظم بہ عنوان’’کشفِ رازِ نجدیت‘‘لطیف طنز و ظرافت کا بے مثال فنی نمونہ ہے،اسی طرح اس دیوان میں مسدّس منظومات ،نعتیہ رباعیات اور سلامیہ قصائد بھی موجود ہیں۔جہانِ لوح وقلم اور دنیاے سنیت میں استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسن ؔ بریلوی کے نام چند صفحات تحریرکرکے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان کی وسیع ترشعری کائنات کے تعارف کاحق ادا کررہاہوں ،بل کہ خدائے لم یزل کی طرف سے ملنے والی اس رحمتِ بے پایاں اور ثوابِ عظیم میں خود کو شریک کررہاہوں جواُلفتِ مصطفی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم میں ڈوبے ہوئے’’ذوقِ نعت‘‘ کے اشعارِ آب دار کو پڑھ کر گناہ گاروں کی قسمت میں ارزاں کردیا جاتا ہے۔ (ماہ نامہ کنزالایمان ،دہلی جلد نمبر ۳،شمارہ نمبر ۱۱ ،ستمبر ۲۰۰۱ء/جمادی الثانی ۱۴۲۲ھ،صفحہ۳۸/۴۲)
- سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی
سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ سلسلہ (1) محمد حسین مشاہدرضوی تاريخِ ہند سے دلچسپي ركھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ جنگ آزادی 1857ءميں علماے اہلِ سنت اور مشايخِ طريقت كا نہايت بنيادي كردار رہاہے۔ بلكہ اگر یہ كہا جائے تو كچھ مبالغہ نہ ہوگا كہ شمالی ہند ميں انگريزوں كے خلاف مسلم راے عامہ ہموار كرنے اور پورے خطے ميں انقلاب كی فضا برپا كرنے كا بنيادی كام انھيں كی قيادت اور سربراہی ميں ہوا۔ ان مجاہدين ميں علامہ فضلِ حق خير آبادی(م1278ھ)، مفتی صدر الدين خاں آزرده دہلوی (م1285ء)،مولانا سيد احمد الله شاه مدراسی (م1274ھ)، مفتی عنايت احمد كاكوروی (م1279ھ)، مولانا رحمت الله كيرانوی (1308ھ)، مولانا فيض احمد بدايونی، مولانا ڈاكٹر وزير خاں اكبر آبادی( م1289ھ)، مولانا وہاج الدين مراد آبادی (م1274ھ)، مولانا رضا علی خاں بريلوی( م1286ھ)، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی (م1273ھ)، حكيم سعيد الله قادری( 1325ھ) وغيرہم كے انقلابی كارنامے آب زر سے لكھنے كے قابل ہيں۔ ان اعاظم علماے حق میں شہيد ِ جنگ ِآزادی سلطانِ نعت گویاں حضرت مولانا مفتی سيد كفايت علی كافی مراد آبادی عليہ الرحمۃ والرضوان كا نام نماياں نظر آتا ہے۔آپ كا نسبی تعلق نگينہ، ضلع بجنور ،يو پی كے ايك معزز خانوادهٔ سادات سے تھا۔ آپ نے مراد آباد كو اپنا وطن بنا ليا تھا۔ علماے بدايوں و بريلی سے علم حاصل كيا۔ بارهويں صدی كے مجدد حضرت شاه غلام علی نقش بندی دہلوی كے خليفہ اور شاه عبد العزيز محدث دہلوی (م 1239ھ/ 1824ء) كے شاگرد رشيد حضرت شاه ابو سعيد مجددی رام پوری ( (م1250ھ )سے علمِ حديث كی تكميل كی۔علمِ طب مولانا رحمٰن علی مصنف تذكرهٔ علماے ہند كے والد مولانا حكيم شير علی قادری سے حاصل كيا۔ مولانا كافیؔ پر اپنے استاذ و مربی حضرت شاه ابو سعيد مجددی قدس سرہٗ كی شخصيت كا گہرا اثر تھا۔ اسی وجہ سے آپ كو علمِ حديث اور تصوف سے بے حد شغف تھا، اور رسولِ اكرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم كی سيرت طيبہ سے عشق كی حد تك لگاو تھا۔آپ ایک عظیم المرتبت اور فقید المثال نعت گوشاعر بھی تھے۔ شيخ امام بخش ناسخؔ لكھنوی كے شاگرد شيخ مہدی علی خاں ذكی ؔمراد آبادي( م1281ھ)سے شعر و شاعری ميں اصلاح ليتے تھے۔تقدیسی شاعری میں آپ کا مقام و مرتبہ نہایت بلند و بالا ہے ۔ آپ کے کئی مجموعے منثور ومنظوم منظر عام پر آچکے ہیں جن میں ترجمہ شمائل ترمذی؛منظوم ،مجموعہ چہل حدیث؛ منظوم، خیابانِ فردوس ، بہارِ خلد، نسیمِ جنت ، مولودِ بہار، جذبۂ عشق ،دیوانِ کافی ،تجملِ دربارِ رحمت وغیرہ شامل ہیں۔ آپ جس قدر بلندپایہ اور مایۂ ناز نعت گو گزرے ہیں اُس لحاظ سے آپ کا ذکراِس حیثیت سے نعتیہ ادب کی تاریخ میں خال خال ہی ملتا ہے ممتاز محققِ نعت راجا رشید محمودنے اس ضمن میں یوں اظہارِ تأسف کیا ہے: ’’پروفیسر سید یونس شا ہ کی ’تذکرۂ نعت گویانِ اردو‘ اور ڈاکٹر ریاض مجید کے پی ایچ ڈی کے مقالے ’اردو میں نعت گوئی‘ کے سوا ، نعت پر لکھی جانے والی کتابوں اور مقالات و مضامین میں اُن کا ذکر نہیں ملتا۔ آج تک جتنے انتخابِ نعت شائع ہوئے ان میں سے صرف نقوش کے رسولﷺ نمبر میں اور میرے ضخیم انتخاب ’نعت کائنات‘میں ان کی ایک نعت ہے۔ شفیق بریلوی کے مرتبہ ’ارمغانِ نعت ‘میں ان کی ایک نعت نما غزل یا غزل نما نعت ہے۔ 1857 ءکی جنگِ آزادی کے حوالے سے جہاں جہاں کافیؔ کا ذکر آیا ہے ، وہاں بھی اگر کسی نے ان کی شاعری کی بات کی ہے تو ’’کوئی گُل باقی رہے گا ، نَے چمن رہ جائے گا‘‘ کے یہی چھے یا اس سے کم اشعار درج کیے ہیں۔ اس طرح اس ایک غزل کے علاوہ ان کی کوئی نعت لوگوں کے سامنے نہیں ہے۔جب کہ کفایت علی کافیؔ علیہ الرحمہ کا دیوانِ کافی نعت پرمشتمل ہے، ان کی مثنویاں ’’خیابانِ فردوس‘‘ اور ’’نسیمِ جنت‘‘ بھی نعتیہ ہیں۔ شمائل ترمذی کا منظوم اردو ترجمہ ’’بہارِ خلد‘‘ نعتیہ ہے۔ ’’مولودِ بہاریہ‘‘ ،’’ حلیہ شریف ‘‘،’’ مثنوی تجملِ دربارِ نبی کریم ﷺ ‘‘بھی نعتیہ ہیں۔‘‘ سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ سلسلہ (2) محمد حسین مشاہدرضوی مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی كی شاعری میں شرعی احكام كی بھر پور پاسداری نظر آتی ہے۔آپ کی زبان نہایت صاف ، شستہ اور اندازِ بیان نہایت مؤثر ہے۔ آپ کی تقدیسی شاعری کے علوے مرتبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ نعتیہ افق پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکنے دمکنے والے امام نعت گویاں امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ملفوظات میں کئی مقامات پر عمدہ الفاظ میں ذکر فرمایا ہے۔ اس محبت اور روحانی تعلق کی اصل وجہ عشق رسالت ﷺمیں مماثلت اور انگریز وں سے شدیدمخالفت ہی ہوسکتی ہے۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ آپ کے کلامِ بلاغت نظام کو شوق و ذوق سے سماعت کیا کرتےتھے یہی نہیں بلکہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے مفتی سیدکفایت علی کافیؔ کی طرزوں کے اتباع میں ان کی زمینوں پر مشتمل کئی کلام بھی قلم بند کیے ہیں ۔ الملفوظ ميں ہے: ’’سِوا دو كے كلام كے كسی كا كلام ميں قصداً نہيں سنتا، مولانا كافیؔ مراد آبادی اور حسنؔ مياں مرحوم ؛يعنی استاذِ زمن مولانا حسن رضا بريلوی ان دونوں كا كلام اول سے آخر تك شريعت كے دائرے ميں ہے ۔ البتہ مولانا كافی ؔ كے يہاں لفظ ’’راعنا‘‘ كا اطلاق جا بہ جا ہے، اور يہ شرعاً محض ناروا و بے جا ہے۔ مولانا كو اس پر اطلاع نہ ہوئی، ورنہ ضرور احتراز فرماتے۔ غرض ہندی نعت گويوں ميں ان دو كا كلام ايسا ہے، باقی اكثر ديكھا گيا كہ قدم ڈگمگا جاتا ہے، اور حقيقتاً نعت شريف لكھنا نہايت مشكل ہے، جس كو لوگ آسان سمجھتے ہيں، اس ميں تلوار كی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو الوہيت ميں پہنچ جاتا ہے، اور اگر كمی كرتا ہے تو تنقيص ہوتی ہے۔ البتہ حمد آسان ہے كہ اس ميں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سكتا ہے۔ غرض حمد ميں ايك جانب اصلابالكل حد نہيں، اور نعت شريف ميں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔‘‘ (الملفوظ، مرتبہ:مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا نوری بريلوی،ج:2، ص:39، مطبوعہ رضا اكيڈمی ممبئی1427ھ 2006ء، ملخصاً) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی بريلوی شہيد ِحريت حضرت مفتی سید کفایت علی كافیؔ علیہ الرحمہ كی نعتيہ شاعری سے اس قدر متاثر تھے كہ انھيں ’’سلطانِ نعت گوياں ‘‘اور اپنے آپ كو ان كا ’’وزير اعظم‘‘ قرار ديتے ہوئے تحديث ِنعمت كے طور پر لكھتے ہيں: مہكا ہے مری بوےدہن سے عالم ياں نغمۂ شيريں نہيں تلخی سے بہم كافیؔ ’’سلطانِ نعت گوياں‘‘ ہے رضاؔ ان شاءالله ميں وزيرِ اعظم ----- ایک دوسرے قطعہ میں یوں عرض گزار ہیں : پرواز میں جب مدحتِ شہ میں آؤں تا عرش پروازِ فکرِ رسا میں جاؤں مضمون کی بندش تو میسر ہے رضاؔ کافیؔ کا دردِ دل کہاں سے لاؤں سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ سلسلہ (3) محمد حسین مشاہدرضوی مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی کے دل میں نبیِ مکرم ﷺ سے ایسی والہانہ عشق و محبت رچی بسی تھی کہ جب آپ کو پھانسی کا حکم سنایا گیاتو مسرور و وارفتہ تھے۔ قتل گاہ کو جاتے ہوئے زبان پر یہ کلام جاری تھا، جس میں سرکار دوعالم ﷺ کا ذکر مبارک کرتے ہوئے نعت کی اہمیت اور عظمت کا یوں اظہار کیا ہے کہ دنیا جہان کی تمام تر باتیں ختم ہوجائیں گی لیکن نعت ِ رسول ﷺ حشرتک قائم و دائم رہے گی ،اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور پنجتن کی محبت کا ذکر بھی کیا ہے، نیز اس کلام میں دُرود شریف کی برکتوں کا ذکر بھی کیا : کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا پر رسول اللہ کا دینِ حَسَن رہ جائے گا نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا بلبلیں اُڑ جائیں گی، سوٗنا چمن رہ جائے گا اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو اس تنِ بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اوپر درود آگ سے محفوظ اس کا، تن بدن رہ جائے گا سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ ولیکن حشر تک نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا مفتی سیدکفایت علی کافیؔ مرادآبادی اتنے بڑے عاشقِ رسول تھے کہ تختۂ دار بھی آتشِ عشق سرد نہ کرسکا۔ مذکورہ اشعار آپ کی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے والہانہ محبت و عقیدت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مردِ حق آگاہ مولانا کافیؔ نے گویا بزبانِ حال یہ پیغام دیا ہےکہ زندگی وہی ہے جو رسول مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و تعظیم میں گزرے۔ عشقِ رسول ﷺان كی غذاے روح اور قلب كا سامانِ تسكين تھا۔ اور سچی بات تو يہ ہے كہ عشقِ رسول كے جذبات سے جب آپ كا دل مضطرب ہوتا اور فراقِ حبيب ان كی روح كا سكون و قرار چھين ليتاتو ان كے جذباتِ دروں نعتيہ اشعار كا روپ دھار ليتے اور ان كے نازك احساسات كے سرچشموں سے عشقِ نبوی ﷺسے لب ريز منظوم آبشار جاری ہو جاتے۔ ان كی نظر ميں نعت ِرسولﷺ سننا اور سنانا دونوں جہان كی سعادت مندی اور فيروز بختی كا سامان ہے، اور نعت ِمصطفیٰﷺميں اپنی زندگی كے گراں قدر اوقات صرف كرنے والا٫’’سعيد ِدو جہاں‘‘ہے۔ آپ خود کہتے ہيں: ہے سعيدِ دوجہاں وه جو كوئی ليل و نہار نعتِ اوصافِ رسول الله كا شاغل ہوا بس آرزو یہی دلِ حسرت زده كی ہے سنتا رہے شمائل و اوصافِ مصطفیٰ اسی جذبۂ دروں اور سوداے عشق كی كرشمہ سازی تھی كہ آپ كا دل زيارتِ حرمين طيبين كے ليے تڑپتا مچلتا رہتاتھا۔ آپ كے ديوان ميں جا بہ جا زيارتِ ديارِ حبيب كا شوق اپنی جلوه سامانياں بكھيرتا نظر آتا ہے اور ان كا طائر ِتخيل حجازِ مقدس كی پاكيزه اور عطر بيز فضاؤ ں ميں مسلسل پرواز كے ساتھ اس تمنا كا برملا اظہار كرتا دکھائی دیتا ہے كہ كاش ان كے جسد ِخاكی كے بھی دن پھريں اور اسے بھی اس رشك ِجنت ، سرزمین كی آبلہ پائی نصيب ہو۔ الله تعالیٰ نے ان كی یہ تمناے شوق بھی پوری فرمائی اور 1841ءميں زيارتِ حرمين شريفين كا موقع عنايت فرمايا۔ آپ نے اس سفر كے متعلق ايك مثنوی بھی تحرير فرمائی جو ’’تجملِ دربارِ رحمت بار‘‘ كے عنوان سے منشی عبد الرحمٰن شاكرؔ ، مالك مطبع نظامی، كان پوركی كوشش اور اہتمام سے چھپ كر شائع ہوئی۔مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآدی علیہ الرحمہ کے دیوان سے چند متفرق اشعار نشانِ خاطر فرمائیں : بیمار شفا پاتے ہیں اُس خاکِ شفا سے بیمار ہوں میں اُس پاک مدینہ کی زمیں کا مظہرِ رحمت مصدرِ رافت مخزنِ شفقت عین عنایت ذاتِ محمد جانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ یکتاے عالمِ ایجاد اُس کا ثانی کوئی ہوا ہی نہیں شفیعِ روزِ محشر ہو قسیمِ حوضِ کوثر ہو محیطِ مرحمت ہو مطلعِ انوارِ احساں ہو سزاوارِ خطابِ رحمت للعالمیں ہو تم بانگشتِ شہادت خاتمِ ختمِ رسولاں ہو بہارِ خلد ہے روے محمد ﷺ شميمِ جاں فزا بوے محمدﷺ دلِ وحشي ہے زنجيريں تُڑاتا بشوقِ يادِ گيسوے محمدﷺ سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ سلسلہ (4) محمد حسین مشاہدرضوی سلطان نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی کے یہاں اکثریت کے ساتھ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے موضوعات کا گہرا رچاؤ ملتا ہے ۔ مولودِ سرکارِ دوعالم ﷺ کا منظوم بیانیہ مختلف النوع رنگ و آہنگ سے کافیؔ کے دیوان میں جابجا جگمگ جگمگ کررہا ہے ۔ میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے موقع پر دنیامیں ہونے والے رونما ہونے والے واقعات کو بھی قلم بند کیا ہے جنھیں صنعت تلمیح کے ذیل میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ میلادِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء پر اظہارِ مسرت و انبساط کرنا یہ صرف باادب بانصیب لوگوں کا ہی کام ہے جنھیں اللہ رب العزت جل و علا کی طرف سے سعادت میسر ہوتی ہے وہی آقا کریم ﷺ کی میلاد پر خوشی مناتے ہیں اور یہ فرحت ایسی فرحت ہے کہ اس پر تمام فرحتیں بھی قربان کردی جائیں تو کم ہیں کیوں کہ آپ ہی باعث ِ تخلیق کائنات ہیں اور آپ ہی کےسبب اللہ رب العزت نے ہمیں دنیا جہان کی تمام خوشیاں نصیب فرمائیں : باجلوۂ نورِ ضیا باشان اجلالِ ہدیٰ پیدا ہوئے والا گہر حضرت محمد مصطفیٰ ا س تہنیت کی دھوم تھی مشرق سے لے مغرب تلک پیدا ہوئے کیا نامور حضرت محمد مصطفیٰ طفیلِ سرورِ عالم ہوا سارا جہاں پیدا زمین و آسماں پیدا مکیں پیدا مکاں پیدا نہ ہوتا گر فروغِ نورِ پاکِ رحمتِ عالم نہ ہوتی خلقتِ آدم نہ گلزارِ جناں پیدا شہ ولادتِ خیرالوریٰ کی برکت سے گریز کر گیا دنیا سے دن نحوست کا ولادتِ نبوی کا جہاں میں ہے شہرہ ظہورِ نور کا کون و مکاں میں ہے شہرہ ہزار سال سے جلتی تھی آگ فارس میں وہ سرد ہوگئی دیر و مکاں میں ہے شہرہ بت پرستی مٹ گئی غالب ہوا دینِ متیں جب سے ختم الانبیاء بدرالدجیٰ پیدا ہوئے موضوعاتِ نعت میں ایک اہم موضوع معراجِ مصطفوی ﷺ بھی ہے ۔ یہ شہنشاہِ کون و مکان تاجدارِ عرب و عجم شب ِ اسریٰ کے دولھا ﷺ کا ایک امتیازی وصف اور منفرد معجزہ ہے۔ معراج کی شب مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر، اقصیٰ میں جملہ انبیاے کرام کی امامت ، ساتوں آسمانوں کی سیر، جنت و دوزخ کا مشاہدہ ، دیدارِ الٰہی ، قاب قوسین کی منزل تک رسائی، سرعرش پل میں جانا،پل میں واپس تشریف لانا اور دیگر واقعاتِ معراج کا بڑا خوب صورت بیان اور شعری اظہار اردو کی نعتیہ شاعری کا بے حد پسندیدہ عنوان ہے۔ کافیؔ جیسے عاشقِ صادق کے کلام میں معراج و اسریٰ کا بیان کچھ اس طرح نظر آتا ہے: واہ کیا جلوۂ اعجاز تھا جاناآنا شبِ اسریٰ میں عجب ناز تھا جاناآنا دیکھ اس جلوۂ رفتار کو حیراں تھے ملک حیرتِ دیدۂ پرواز تھا جانا آنا ساعتِ چند میں دیکھو تو کہاں تک پہنچے حق کے محبوب کا اک ناز تھا جانا آنا شبِ اسریٰ میں ان کے قدموں سے ہوگیا گلشنِ جناں روشن کلیم اللہ کا معراج کوہِ طور پر ہووے رسول اللہ کا معراج فرش عرشِ رحماں ہو سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی نور اللہ مرقدہٗ سلسلہ (5) محمد حسین مشاہدرضوی سلطانِ نعت گویاں مفتی سید کفایت علی کافیؔ مرادآبادی کے زرنگار قلم نے عقیدت و عقیدے کی ترجمانی کرتے ہوئے نبیِ مکرم ﷺ کے سراپا کا بھی بڑا خوب صورت شعری بیان کیا ہے۔ سراپا نگاری میں کافی ؔکا قلم نت نئے تلازمے اور علائم تلاش کرتا ہے ۔ تصویریت کا حسن اور منظر کشی کا جمال ایسا گہرا ہے کہ اشعار پڑھتے ہوئے قاری کے حواسِ خمسہ براہِ راست متاثر ہوتے ہیں جن میں مختلف پیکروں کی جلوہ گری دیدنی بھی ہے اور شنیدنی بھی، یوں تو کافیؔ کے یہاں سراپاے رسول ﷺ پر متعدد اشعار ملتے ہیں ذیل میں آپ کا سراپا نگاری پر مشتمل ایک بہترین اور عمدہ کلام نشانِ خاطر کریں : سراپا وہ صل علیٰ آپ کا تھا کہ ہر عضو حسنِ تجلی نما تھا حبیبِ خدا کا جمالِ مکرم سزاوارِ تحسینِ حمد و ثنا تھا بہارِ لطافت میں بے مثل ثانی گلِ بے خزاں عارضِ مصطفیٰ تھا وہ صلِ علیٰ گندمی رنگ ان کا کہ عارض رخِ عالمِ نور کا تھا چمکتا تھا کیا نورِ حسنِ صباحت فروغِ ملاحت دمکتا ہوا تھا مزین تھا پیراہنِ اعتدالی خوش اندام اندامِ خیرالوریٰ تھا وہ جسمِ مبارک کی روشن سیاہی کہ سرچشمۂ نور جس پر فدا تھا وہ دندان و لب غیرتِ دُرِّ مکنوں وہ حسنِ تبسم کا عالم نیا تھا وہ بحرِ تبسم میں موجِ لطافت کہ دریوزہ گر جس کا آبِ لقا تھا وہ حسنِ ادا کس زباں سے ادا ہو تبسم میں اُن کے جو حسنِ ادا تھا کرے اُس شمائل کا کیا وصف کافیؔ سراپا سہر خوبیوں سے بھرا تھا نعت نبوی ﷺ كے مزیدكچھ اور اشعار ملاحظہ ہوں جن میں عقائد ِ اہل سنت کی ترجمانی کچھ اس طرح دکھائی دیتی ہے: جس نے حضرت کا وسیلہ دوستو پیدا کیا میں یہ کہتا ہوں کہ وہ دارالاماں میں آگیا يا الٰہی حشر میں خير الوریٰ كا ساتھ ہو رحمتِ عالم ، محمد مصطفیٰ كا ساتھ ہو يا الٰہی ہے یہی دن رات ميری التجا روزِ محشر، شافعِ روزِ جزا كا ساتھ ہو بعد مرنے كے یہی ہے كافیؔ کی يا رب دعا دفترِ اشعارِ نعتِ مصطفیٰ كا ساتھ ہو حرزِ جاں جس نے کیا اسمِ رسول اللہ کو اُس کے اوپر سے تمامی درد و غم زائل ہوا جس کو کچھ حبِ مصطفیٰ ہی نہیں اُس کے ایمان کا پتا ہی نہیں وسیلہ جوکرے حضرت کا درگاہِ الٰہی میں اگر کیسی ہی مشکل سخت تر ہو سہل آساں ہو رسول اللہ کی ہم کو شفاعت کا وسیلہ ہے شفاعت کا وسیلہ اور رحمت کا وسیلہ ہے بچوگے مومنو تم گرمیِ خورشیدِ محشر سے لواے حمد کی ظلِ کرامت کا وسیلہ ہے مزید چند متفرق اشعار دیکھیں جن میں نبیِ رحمت ﷺ سے استغاثہ و فریاد کے عناصربڑے خلوص و للہیت سے نظم کیے گئے ہیں ، جن سے اہل سنت و جماعت کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی ظاہر ہوتی ہے: بروزِ جزا یارسولِ خدا ہمیں دو شفا یارسولِ خدا نہیں ہے سہارا بجز تم سوا مرے مصطفیٰ یارسولِ خدا یا شفیع المذنبیں یا رحمت للعالمیں خاص محبوبِ خدا سلطانِ عالی الغیاث خاتمِ پیغمبراں فریاد ہے دست گیرِ بے کساں فریاد ہے دردِ دل نے روز تڑپایا مجھے اے طبیبِ مہرباں فریاد ہے آپ کی درگاہ ہے دارالشفاء اس لیے میری یہاں فریاد ہے کافیؔ نے بڑی خوب صورتی اور فنی چابکدستی سےاچھوتی اور البیلی ردیفوں اور قوافی کو برتاہے ۔ بعض زمینیں بڑی ادق اور سنگلاخ بھی ہیں لیکن ان میں جوتازہ کاری اور طرفگی ہے وہ لائقِ تحسین و آفرین ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دورِ جدید کے کسی شاعر کا کلام پڑھ رہے ہیں ، چند ردیفیں نشانِ خاطر کیجیے: ’’مکہ وبطحا / مدینہ کے قریب / شفاعت / مہرِ نبوت / مولدِ حضرت / نورِ شب ِ ولادت / صلوات / شب ِ معراج / صلاح و فلاح / رسوخ / چاند / تعویذ / اعجاز / اختصاص / وسیلہ ہے/ صاحب ِ حوض / ارتباط / شافع / پیراہن شریف / مدینہ کا فراق / ورفعنا لک ذکرک / حورِ عین / روشن / صلو ا علیہ وسلموا / صلوا علیہ وآلہ/ تجلی وغیرہ۔ کافیؔ کے کلام میں سركاردوعالم ﷺ كے جا نشين خلفاے راشدين رضی اللہ عنہم اجمعین كی شان ميں بھی کلام ملتے ہیں نیز متفرق اشعار بھی ۔ بطورِ نمونہ درجِ ذيل اشعار نذرِ قارئين ہيں: السلام اے چار يارانِ صفا، اركانِ ديں مجمعِ جود و حيا، صدق و عدالت، السلام ثنا خوانِ نبی ہوں اور اصحابِ نبی، كافیؔ ابو بكر و عمر، عثماں علی سے مجھ كو الفت ہے مجھے الفت ہے يارانِ نبی سے ابو بكر و عمر، عثماں ، علی سے محبت ان كی ہے ايمان ميرا ميں ان كا مدح خواں ہوں جان وجی سے اہلِ بیت اطہار رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعریف و توصیف پر مشتمل اشعار بھی کافیؔ کی عقیدت مندانہ نیازمندی کا ثبوت ہیں : محبت جس کو ہے آلِ عبا سے اسے الفت ہے ختم الانبیاء سے طہارت اہلِ بیتِ شاہِ دیں کی ہوئی ثابت کلامِ انّما سے وہی مومن ہے جس کو ہے محبت علی حسنین سے خیرالنساء سے عدو ان کا عدوے مصطفیٰ ہے ہوا منقول یہ خیرالوریٰ سے رہوں آلِ عبا کا میں ثنا خواں یہی کافیؔ تمنا ہے خدا سے کافیؔ مرادآبادی کے یہاں غزل کے فارم کے علاوہ دیگر ہئیتوں میں بھی تقدیسی کلام ملتے ہیں ۔ زبان و بیان اور اسلوب کے لحاظ سے آپ کاکلام بڑے پایے کا ہے جس سے آپ کی قادرالکلامی ظاہر ہوتی ہے۔ عقیدے و عقیدت کی ہمہ رنگی کے ساتھ فنی محاسن کی جلوہ گری بھی متاثرکن ہے۔ ان کے کلام سےابھرنے والی شاعرانہ نزاکتوں کے جلومیں عالمانہ رفعتوں کی دل کش پرچھائیاں ہمیں شاد کام کرتی ہیں ۔ اللہ کریم سے دعاہے کہ ہمیںشہید ِ ملت سلطانِ نعت گویاں حضرت مفتی سید کفایت علی کافی ؔ مرادآبادی علیہ الرحمہ کے فیضان سے مالا مال فرمائے اور ان کی تربتِ اطہر پر انوار و تجلیات کی بارش نازل کرے ، آمین بجاہ النبی الامین الاشرف الافضل النجیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم! ختم شد!!!
- ہیں فضلِ ربّ سے عالَم میں نبی فضل و عطا والے
آفاق را گردیدہ ام ۔ مہرِ بُتاں ورزیدہ ام بسیار خوباں دیدہ ام ۔ اما تو چیز دیگری یا رسول اللّٰه صلی ﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔ میں زمینوں اور آسمانوں میں پھرا اور ایک سے بڑھ کر ایک حسینوں و جمیل کو دیکھا لیکن آپ صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بات ہی کچھ اور ہے آپ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بہتر "خوبصورت" تو کوئی بھی نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں فضلِ ربّ سے عالَم میں نبی فضل و عطا والے وہی ہیں قاسمِ نعمت ، وہی جُود و سخا والے خُدا نےکس قدر اُونچا کیا ذِکرِ شَہِ والا اُنہی کے گیت گاتے ہیں سبھی اَرض و سما والے چُنِیدہ ہیں جو خالِق کے ، پسندیدہ ہیں خَلقت میں وہی حُسنِ مجسَّم ہیں ، وہی ناز و ادا والے اُسی نورِ مجسَّم سے ہے آب و تاب عالَم کی اُسی کے فیض سے روشن ہیں سب نور و ضیا والے مقامِ حمد پر فائز جنابِ مصطفیٰ ہوں گے اِنہی کے مدح خواں ہوں گے سبھی روزِ جزا والے تڑپتے تلملاتے عاصیوں کو یہ خبر کر دو محمد مصطفیٰ محشر میں ہیں حوض و لِوا والے نکالیں گے وہ دوزخ سے گنہگارانِ اُمت کو سکونِ دائمی پائیں گے یوں کَرب و بَلا والے اُنہی کی تابشِ رُخ سے سحر کی روشنی پھیلی شبِ غم میں اَنیسِ جاں ہیں وہ زُلفِ دوتا والے اُنہی کا گھر خُدا کا در ، وہی ہادی وہی رہبر اُنہی کے نقشِ پا پہ چلتے ہیں راہِ خُدا والے جو اُن کی نعمتیں کھا کر اِہانت اُن کی کرتے ہیں وہ کتنے بے مروت ہیں، بڑے جور و جفا والے ہوئے ہیں پیشوا و مُقتدا ، اَصحاب و اُمت کے ابو بکر و عمر عثماں علی عِزّ و عُلا والے خلاصہ ہے دلائل کا ، عقیدہ اہلسنت کا ہیں اَصحابِ نبی سب عادل و صدق و صفا والے جو بعدِ انبیا اَفضل کہیں صدیق اکبر کو وہ سُنّی ہیں ، وہی تو ہیں علی مشکل کُشا والے دِفاعِ دِین و مسلک کیلئے ہر جا بحمدِ اللہ رہے غالب، ہوئے فاتح، جو ہیں احمد رضا والے عطائے مصطفی سے سُنیت پر استقامت ہے رضائے ربّ سے ہو برہان تم احمد رضا والے ابوالحقائق مفتی راشد علی رضوی برہان عطاری مدنی
- سلطانِ نعت گویاں حضرت علامہ سید کفایت علی
یادِ علامہ کفایت علی کافی ... ٢٢ رمضان المبارک یوم شہادت، سلطانِ نعت گویاں، مجاہدِآزادی 1857ء حضرت علامہ سید کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ سخن کی آبرو ہے آج بھی لہجہ کفایت کا نہ بھولے گا جہاں، وہ "دار" پرنغمہ کفایت کا فنا کی حد سے باہر ان کی خودداری کا ہے جوہر لباسِ موت میں کردار ہے زندہ کفایت کا ترانہ عزم و ہمت کا لکھا، پھانسی کے پھندے پر بلالِ مصطفیٰ سے ملتا ہے شجرہ کفایت کا سلاموں کے گہر ، اُس مردِ حُر کی استقامت پر شجاعت خیز ہے اب تا ابد قصّہ کفایت کا ضمیر اپنا نہ بیچا ، حق پرستی پر رہے قائم اصولِ رہبری کا چرخ ہے ، رستہ کفایت کا چراغ حق نوائ لے کے طوفاں کو ہزیمت دی نشانِ جرأت حسنین ہے اسوہ کفایت کا کہا "سلطانِ اہلِ نعت" اُن کو اعلیٰحضرت نے نبی کے عشق سے روشن ہے یوں خامہ کفایت کا چلو ہم ان کی سیرت کو بنائیں مشعلِ ہستی تَنِ فکر و عمل پر اوڑھ لیں جامہ کفایت کا وہ تیور جس سے کٹ جاتی ہیں مایوسی کی زنجیریں فریدی منتقل ہو قوم میں ورثہ کفایت کا از فریدی صدیقی مصباحی نوری جامع مسجد ، مدینۃ العرفان مسقط عمان
- Manqabat e Maula Ali
🤍ببارگاہِ امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم بیاں کس منہ سے ہو اس مجمع البحرین کا رتبہ جو مرکز ہے شریعت کا طریقت کا ہے سر چشمہ بنا اس واسطے اللہ کا گھر جائے پیدائش کہ وہ اسلام کا کعبہ ہے یہ ایمان کا کعبہ وہ ہے خاموش قرآں اور یہ قرآن ناطق ہیں نہیں جس دل میں یہ اس میں نہیں قرآن کا رستہ دلہن زہرہ عمر داماد اور حسین سے بیٹے تری ہستی ہے اعلیٰ اور بالا تر ترا کنبہ نبی ﷺ کی نیند پر اس نے نماز عصر قرباں کی جو حاضر کر چکا تھا اس سے پہلے جان کا ہدیہ نہ کیونکر لوٹتا اس کیلئے ڈوبا ہوا سورج کہ جب اس چاند کے پہلو میں اک سورج کا تھا جلوہ تعالیٰ اللہ تیری شوکت تری صولت کا کیا کہنا کہ خطبہ پڑھ رہا ہے آج تک خیبر کا ہر ذرّہ مسلمانورسول اللہﷺ کی الفت اگر چاہو کرو اس کی غلامی جس کا ہر مومن ہوا بندہ ہو چشتی قادری یا نقشبندی سہروردی ہو ملا سب کو ولایت کا انہی کے ہاتھ سے ٹکڑا ہے صدقہ میل پھر اس پاک و ستھرے کو روا کیوں ہو کہ دنیا کھا رہی ہے جس کی آلِ پاک کا صدقہ علی مشکل کشا ہیں سب کے سالکؔ کا سہارا ہیں ہر اک محتاج ان کا ہو جواں بڈھا ہو یا بچہ حکیم الامت مفتی محمد احمد یار خان نعیمی
- ہے در پہ آپ کے اِک روسیاہ ، یا زہرا
*منقبت پاک در شانِ سیدہء کائنات جگر گوشۂ رسول سیدہ ظاہرہ طیبہ طاہرہ نجیبہ عفیفہ حضرتِ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا و ابیہا* ہے در پہ آپ کے اِک روسیاہ ، یا زہرا پئے حُسین و حسن اِک نِگاہ ، یا زہرا طلب مجھے ہے یہی عِزّ و جاہ ، یا زہرا بنے فقیر ، تری گردِ راہ ، یا زہرا مطافِ حسنِ نجابت وجود ہے تیرا ہیں ہشتِ خُلد تری بار گاہ ، یا زہرا رسولِ پاک کھڑے ہوں برائے استقبال عجب یہ شان تری واہ واہ، یا زہرا تری حیاتِ مبارک ہے معرفت کا نصاب ہے تیرا نقشِ قدم خضرِ راہ ، یا زہرا مِلا ہے ملکۂ اہلِ بہشت کا رتبہ حدیثِ پاک ہے اِس پر گواہ ، یا زہرا تمہیں حضور نے فرمایا “بضعتہ منّی” خفا ہو تم ، تو خفا ہو نگے شاہ ، یا زہرا ورائے عقل تیری شانِ عظمت و رفعت مہ و نجوم تری گردِ راہ ، یا زہرا ہو اِس کا خاتمہ بالخیر شہرِ طیبہ میں یہی ہے نوریؔء مضطر کی چاہ ، یا زہرا ندیم نوریؔ