top of page
Naat Academy Naat Lyrics Naat Channel-Naat-Lyrics-Islamic-Poetry-Naat-Education-Sufism.png

نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے

1338 items found for ""

  • وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں

    وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں جو تِرے در سے یار پھرتے ہیں در بہ در یوں ہی خوار پھرتے ہیں آہ کل عیش تو کیے ہم نے آج وہ بے قرار پھرتے ہیں ان کے ایما سے دونوں باگوں پر خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں ہر چراغِ مزار پر قدسی کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں اُس گلی کا گدا ہوں میں جس میں مانگتے تاج دار پھرتے ہیں جان ہیں جان کیا نظر آئے کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں وردیاں بولتے ہیں ہرکارے پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم مول کے عیب دار پھرتے ہیں ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں بائیں رستے نہ جا مسافر سن مال ہے راہ مار پھرتے ہیں جاگ سنسان بَن ہے رات آئی گرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں نفس یہ کوئی چال ہے ظالم جیسے خاصے بِجار پھرتے ہیں کوئی کیوں پوچھے تیری بات رؔضا تجھ سے کتّے ہزار پھرتے ہیں (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبرکات

  • یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں

    یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں بیٹھے بٹھائے بد نصیب سر پہ بلا اٹھائی کیوں دل میں تو چوٹ تھی دبی ہائے غضب ابھر گئی پوچھو تو آہِ سرد سے ٹھنڈی ہوا چلائی کیوں چھوڑ کے اُس حرم کو آپ بَن میں ٹھگوں کے آ بسو پھر کہو سر پہ دھر کے ہاتھ لٹ گئی سب کمائی کیوں باغِ عرب کا سروِ ناز دیکھ لیا ہے ورنہ آج قمریِ جانِ غمزدہ گونج کے چہچہائی کیوں نامِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیمِ خلد سوزشِ غم کو ہم نے بھی کیسی ہوا بتائی کیوں کِس کی نگاہ کی حیا پھرتی ہے میری آنکھ میں نرگسِ مست ناز نے مجھ سے نظر چرائی کیوں تو نے تو کر دیا طبیب آتشِ سینہ کا علاج آج کے دودِ آہ میں بوئے کباب آئی کیوں فکرِ معاش بد بلا ہولِ معاد جاں گزا لاکھوں بلا میں پھنسنے کو رُوح بدن میں آئی کیوں ہو نہ ہو آج کچھ مِرا ذکر حضور میں ہوا ورنہ مِری طرف خوشی دیکھ کے مسکرائی کیوں حور جناں سِتم کیا طیبہ نظر میں پھر گیا چھیڑ کے پَردۂ حجاز دیس کی چیز گائی کیوں غفلتِ شیخ و شاب پر ہنستے ہیں طفلِ شیر خوار کرنے کو گدگدی عبث آنے لگی بہائی کیوں عرض کروں حضور سے دل کی تو میرے خیر ہے پیٹتی سر کو آرزو دشتِ حرم سے آئی کیوں حسرتِ نو کا سانحہ سنتے ہی دل بگڑ گیا ایسے مریض کو رَؔضا مرگِ جواں سنائی کیوں (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • رشکِ قمر ہوں رنگِ رخِ آفتاب ہوں

    رشکِ قمر ہوں رنگِ رخِ آفتاب ہوں ذرّہ تِرا جو اے شہِ گردوں جناب ہوں درِّ نجف ہوں گوہَرِ پاکِ خوشاب ہوں یعنی ترابِ رہ گزرِ بو تراب ہوں گر آنکھ ہوں تو اَبر کی چشمِ پُر آب ہوں دل ہوں تو برق کا دلِ پُر اضطراب ہوں خونیں جگر ہوں طائرِ بے آشیاں، شہا! رنگِ پریدۂ رُخِ گل کا جواب ہوں بے اصل و بے ثبات ہوں بحرِ کرم مدد پروردۂ کنارِ سراب و حباب ہوں عبرت فزا ہے شرمِ گنہ سے مِرا سکوت گویا لبِ خموشِ لحد کا جواب ہوں کیوں نالہ سوز لَے کروں کیوں خونِ دل پیوں سیخِ کباب ہوں نہ میں جامِ شراب ہوں دل بستہ بے قرار جگر چاک اشک بار غنچہ ہوں گل ہوں برقِ تپا ہوں سحاب ہوں دعویٰ ہے سب سے تیری شفاعت پہ بیشتر دفتر میں عاصیوں کے شہا! انتخاب ہوں مولیٰ دہائی نظروں سے گر کر جلا غلام اشکِ مژہ رسیدۂ چشمِ کباب ہوں مٹ جائے یہ خودی تو وہ جلوہ کہاں نہیں دردا! میں آپ اپنی نظر کا حجاب ہوں صَدقے ہوں اس پہ نار سے دے گا جو مخلصی بلبل نہیں کہ آتشِ گل پر کباب ہوں قالب تہی کیے ہمہ آغوش ہے ہلال اے شہسوارِ طیبہ میں تیری رکاب ہوں کیا کیا ہیں تجھ سے ناز تِرے قصر کو کہ میں کعبے کی جان عرشِ بریں کا جواب ہوں شاہا! بجھے سقر مِرے اشکوں سے تا نہ میں آبِ عبث چکیدۂ چشمِ کباب ہوں میں تو کہا ہی چاہوں کہ بندہ ہوں شاہ کا پَر لطف جب ہے کہہ دیں اگر وہ جناب ہوں حسرت میں خاک بوسیِ طیبہ کی اے رؔضا ٹپکا جو چشمِ مہر سے وہ خونِ ناب ہوں (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • اُمّتان و سیاہ کاریہا

    اُمّتان و سیاہ کاریہا شافعِ حشر و غم گساریہا دور از کوئے صاحبِ کوثر چشم دارد چہ اشکباریہا در فراقِ تو یا رسولَ اللہ! سینہ دارد چہ بے قراریہا ظلمت آبادِ گورِ روشن شد داغِ دل راست نور باریہا چہ کند نفس پردہ در مولیٰ چوں توئی گرمِ پردہ داریہا سگِ کوئے نبی و یک نگہے من و تا حشر جاں نثاریہا سَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ تَرْضٰی حق نمودت چہ پاس داریہا دارم اے گل بیادِ زلف و رخت سحر و شام آہ و زاریہا تازہ لطفِ تو بر رضؔا ہر دم مرہمِ کہنہ دل فگاریہا حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں

    پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں رخصتِ قافلہ کا شور غش سے ہمیں اُٹھائے کیوں سوتے ہیں ان کے سائے میں کوئی ہمیں جگائے کیوں بار نہ تھے حبیب کو پالتے ہی غریب کو روئیں جو اب نصیب کو چین کہو گنوائیں کیوں یادِ حضور کی قسم غفلتِ عیش ہے ستم خوب ہیں قیدِ غم میں ہم کوئی ہمیں چھڑائے کیوں دیکھ کے حضرتِ غنی پھیل پڑے فقیر بھی چھائی ہے اب تو چھاؤنی حشر ہی آ نہ جائے کیوں جان ہے عشقِ مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دوا اُٹھائے کیوں ہم تو ہیں آپ دل فگار غم میں ہنسی ہے نا گوار چھیڑ کے گل کو نو بہار خون ہمیں رُلائے کیوں یا تو یوں ہی تڑپ کے جائیں یا وہی دام سے چھڑائیں منّتِ غیر کیوں اٹھائیں کوئی ترس جتائے کیوں اُن کے جلال کا اثر دل سے لگائے ہے قمر جو کہ ہو لوٹ زخم پر داغِ جگر مٹائے کیوں خوش رہے گل سے عندلیب خارِ حرم مجھے نصیب میری بلا بھی ذِکر پر پھول کے خار کھائے کیوں گردِ ملال اگر دُھلے دل کی کلی اگر کھلے بَرق سے آنکھ کیوں جلے رونے پہ مسکرائے کیوں جانِ سفر نصیب کو کس نے کہا مزے سے سو کھٹکا اگر سحر کا ہو شام سے موت آئے کیوں اب تو نہ روک اے غنی عادتِ سگ بگڑ گئی میرے کریم پہلے ہی لقمۂ تر کھلائے کیوں راہِ نبی میں کیا کمی فرشِ بیاض دیدہ کی چادرِ ظل ہے ملگجی زیرِ قدم بچھائے کیوں سنگِ درِ حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرار آئے کیوں ہے تو رؔضا نرا ستم جرم پہ گر لجائیں ہم کوئی بجائے سوزِ غم سازِ طرب بجائے کیوں (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں

    عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں عرش کی آنکھوں کے تارے ہیں وہ خوشتر ایڑیاں جا بہ جا پرتو فگن ہیں آسماں پر ایڑیاں دن کو ہیں خورشید شب کو ماہ و اختر ایڑیاں نجم گردوں تو نظر آتے ہیں چھوٹے اور وہ پاؤں عرش پر پھر کیوں نہ ہوں محسوس لاغر ایڑیاں دب کے زیرِ پا نہ گنجایش سمانے کو رہی بن گیا جلوہ کفِ پا کا ابھر کر ایڑیاں ان کا منگتا پاؤں سے ٹھکرادے وہ دنیا کا تاج جس کی خاطر مرگئے منعَم رگڑ کر ایڑیاں دو قمر دو پنجۂ خور دو ستارے دس ہلال ان کے تلوے پنجے ناخن پائے اطہر ایڑیاں ہائے اس پتھر سے اس سینے کی قسمت پھوڑیے بے تکلّف جس کے دل میں یوں کریں گھر ایڑیاں تاجِ روح القدس کے موتی جسے سجدہ کریں رکھتی ہیں وَاللہ! وہ پاکیزہ گوہر ایڑیاں ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زلزلہ جاتا رہا رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں چرخ پر چڑھتے ہی چاندی میں سیاہی آ گئی کر چکی ہیں بدر کو ٹکسال باہر ایڑیاں اے رؔضا طوفانِ محشر کے طلاطم سے نہ ڈر شاد ہو ہیں کشتیِ امّت کو لنگر ایڑیاں حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم

    پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم یا الٰہی! کیوں کر اتریں پار ہم کس بَلا کی مے سے ہیں سرشار ہم دن ڈھلا ہوتے نہیں ہشیار ہم تم کرم سے مشتری ہر عیب کے جنسِ نا مقبولِ ہر بازار ہم دشمنوں کی آنکھ میں بھی پھول تم دوستوں کی بھی نظر میں خار ہم لغزشِ پا کا سہارا ایک تم گرنے والے لاکھوں ناہنجار ہم صَدقہ اپنے بازوؤں کا المدد کیسے توڑیں یہ بُتِ پندار ہم دم قدم کی خیر اے جانِ مسیح در پہ لائے ہیں دلِ بیمار ہم اپنی رحمت کی طرف دیکھیں حضور جانتے ہیں جیسے ہیں بدکار ہم اپنے مہمانوں کا صَدقہ ایک بوند مرمٹے پیاسے ادھر سرکار ہم اپنے کوچہ سے نکالا تو نہ دو ہیں تو حد بھر کے خدائی خوار ہم ہاتھ اُٹھا کر ایک ٹکڑا اے کریم ہیں سخی کے مال میں حق دار ہم چاندنی چھٹکی ہے اُن کے نور کی آؤ دیکھیں سیرِ طور و نار ہم ہمّت اے ضعف ان کےد ر پر گرکے ہوں بے تکلّف سایۂ دیوار ہم با عطا تم شاہ تم مختار تم بے نوا ہم زار ہم ناچار ہم تم نے تو لاکھوں کو جانیں پھیر دیں ایسا کتنا رکھتے ہیں آزار ہم اپنی ستّاری کا یا رب واسطہ ہوں نہ رسوا بر سرِ دربار ہم اتنی عرضِ آخری کہہ دو کوئی ناؤ ٹوٹی آ پڑے منجدھار ہم منھ بھی دیکھا ہے کسی کے عَفْو کا دیکھ او عصیاں نہیں بے یار ہم میں نثار ایسا مسلماں کیجیے توڑ ڈالیں نفس کا زنّار ہم کب سے پھیلائے ہیں دامن تیغِ عشق اب تو پائیں زخمِ دامن دار ہم سنّیت سے کھٹکے سب کی آنکھ میں پھول ہو کر بن گئے کیا خار ہم ناتوانی کا بھلا ہو، بن گئے نقشِ پائے طالبانِ یار ہم دل کے ٹکڑے نذرِ حاضر لائے ہیں اے سگانِ کوچۂ دِل دار ہم قسمتِ ثور و حرا کی حرص ہے چاہتے ہیں دل میں گہرا غار ہم چشم پوشی و کرم شانِ شما کارِ ما بے باکی و اصرار ہم فصلِ گُل سبزہ صبا مستی شباب چھوڑیں کس دل سے درِ خمّار ہم مَے کدہ چھٹتا ہے لِلّٰہ! ساقیا! اب کے ساغر سے نہ ہوں ہشیار ہم ساقیِ تسنیم جب تک آ نہ جائیں اے سیہ مستی نہ ہوں ہشیار ہم نازشیں کرتے ہیں آپس میں مَلک ہیں غلامانِ شہِ ابرار ہم لطفِ از خود رفتگی یا رب نصیب ہوں شہیدِ جلوۂ رفتار ہم اُن کے آگے دعویِ ہستی رؔضا کیا بکے جاتا ہے یہ ہر بار ہم حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضُحٰی تِرے چہرۂ نور فزا کی قسم

    ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضُحٰی تِرے چہرۂ نور فزا کی قسم قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زلف ِ دوتا کی قسم تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تِری خلق کو حق نے جمیل کیا کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تِرے خالقِ حُسن و ادا کی قسم وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم ترا مسندِ ناز ہے عرشِ بریں تِرا محرمِ راز ہے رُوحِ امیں تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا تِرا مثل نہیں ہے خدا کی قسم یہی عرض ہے خالقِ ارض و سما وہ رسول ہیں تیرے میں بندہ تِرا مجھے ان کے جوار میں دے وہ جگہ کہ ہے خلد کو جس کی صفا کی قسم تو ہی بندوں پہ کرتا ہے لطف و عطا ہے تجھی پہ بھروسا تجھی سے دُعا مجھے جلوۂ پاکِ رسول دکھا تجھے اپنی ہی عزّ و عُلا کی قسم مِرے گرچہ گناہ ہیں حدسے سوا مگر اُن سے امید ہے تجھ سے رَجا تو رحیم ہے اُن کا کرم ہے گوا وہ کریم ہیں تیری عطا کی قسم یہی کہتی ہے بلبلِ باغِ جناں کہ رؔضا کی طرح کوئی سحر بیاں نہیں ہند میں واصفِ شاہِ ہُدیٰ مجھے شوخیِ طبعِ رؔضا کی قسم حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول

    سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول لب پھول، دہن پھول، ذقن پھول، بدن پھول صدقے میں تِرے باغ تو کیا، لائے ہیں بَن پھول اس غنچۂ دل کو بھی تو ایما ہو کہ بَن پھول تنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ محن پھول وَاللہ! جو مِل جائے مِرے گل کا پسینہ مانگے نہ کبھی عِطر نہ پھر چاہے دلھن پھول دل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبو نہ لطافت کیوں غنچہ کہوں ہے مِرے آقا کا دہن پھول شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دمِ صبح شوخانِ بہاری کے جڑاؤ ہیں کرن پھول دندان و لب و زلف و رُخِ شہ کے فدائی ہیں درِّ عدن، لعلِ یمن، مشکِ ختن پھول بو ہو کے نہاں ہو گئے تابِ رُخِ شہ میں لو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کا دہن پھول ہوں بارِ گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاں للہ مِری نعش کر اے جانِ چمن پھول دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخنِ پا کا اتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چرخِ کہن پھول دل کھول کے خوں رولے غمِ عارضِ شہ میں نکلے تو کہیں حسرتِ خوں نابہ شدن پھول کیا غازہ مَلا گردِ مدینہ کا جو ہے آج نکھرے ہوئے جوبن میں قیامت کی پھبن پھول گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر بلبل کو بھی اے ساقیِ صہبا و لبن پھول ہے کون کہ گریہ کرے یا فاتحہ کو آئے بے کس کے اٹھائے تِری رحمت کے بھرن پھول دل غم تجھے گھیرے ہیں خدا تجھ کو وہ چمکائے سورج تِرے خرمن کو بنے تیری کرن پھول کیا بات رؔضا اُس چمنستانِ کرم کی زَہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حَسن پھول حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل

    کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل پامال جلوۂ کفِ پا ہے جمالِ گل جنّت ہے ان کے جلوہ سے جو یائے رنگ و بو اے گل ہمارے گل سے ہے گل کو سوالِ گل اُن کے قدم سے سلعۂ غالی ہوئی جناں واللہ میرے گل سے ہے جاہ و جلالِ گل سنتا ہوں عشقِ شاہ میں دل ہوگا خوں فشاں یا رب یہ مژدہ سچ ہو مبارک ہو فالِ گل بلبل حرم کو چل غمِ فانی سے فائدہ کب تک کہے گی ہائے وہ غنج و دَلالِ گل غمگیں ہے شوقِ غازۂ خاکِ مدینہ میں شبنم سے دھل سکے گی نہ گردِ ملالِ گل بلبل یہ کیا کہا میں کہاں فصلِ گل کہاں امّید رکھ کہ عام ہے جود و نوالِ گل بلبل گھرا ہے ابر ولا مژدہ ہو کہ اب گرتی ہے آشیانے پہ بَرقِ جمالِ گل یا رب ہرا بھرا رہے داغِ جگر کا باغ ہر مہ مہِ بہار ہو ہر سال سالِ گل رنگِ مژہ سے کرکے خجل یادِ شاہ میں کھینچا ہے ہم نے کانٹوں پہ عطرِ جمالِ گل میں یادِ شہ میں روؤں عنادِل کریں ہجوم ہر اشکِ لالہ فام پہ ہو احتمالِ گل ہیں عکسِ چہرہ سے لبِ گلگوں میں سرخیاں ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل نعتِ حضور میں مترنّم ہے عندلیب شاخوں کے جھومنے سے عیاں وَجْد و حالِ گل بلبل گلِ مدینہ ہمیشہ بہار ہے دو دن کی ہے بہار فان ہے مآلِ گل شیخین اِدھر نثار غنی و علی اُدھر غنچہ ہے بلبلوں کا یمین و شمالِ گل چاہے خدا تو پائیں گے عشقِ نبی میں خلد نکلی ہے نامۂ دلِ پُر خوں میں فالِ گل کر اُس کی یاد جس سے ملے چین عندلیب دیکھا نہیں کہ خارِ الم ہے خیالِ گل دیکھا تھا خوابِ خارِ حرم عندلیب نے کھٹکا کیا ہے آنکھ میں شب بھر خیالِ گل اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں کیجے رؔضا کو حشر میں خنداں مثالِ گل حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • تمھارے ذرّے کے پرتو ستار ہائے فلک

    تمھارے ذرّے کے پرتو ستار ہائے فلک تمھارے نعل کی ناقص مثل ضیائے فلک اگرچہ چھالے ستاروں سے پڑ گئے لاکھوں مگر تمھاری طلب میں تھکے نہ پائے فلک سرِ فلک نہ کبھی تا بہ آستاں پہنچا کہ ابتدائے بلندی تھی انتہائے فلک یہ مٹ کے ان کی رَوِش پر ہوا خود اُن کی رَوِش کہ نقش پا ہے زمیں پر نہ صوتِ پائے فلک تمھاری یاد میں گزری تھی جاگتے شب بھر چلی نسیم ہوئے بند دیدہائے فلک نہ جاگ اٹھیں کہیں اہلِ بقیع کچی نیند چلا یہ نرم نہ نکلی صدائے پائے فلک یہ اُن کے جلوے نے کیں گرمیاں شبِ اسرا کہ جب سے چرخ میں ہیں نقرہ و طلائے فلک مِرے غنی نے جواہر سے بھر دیا دامن گیا جو کاسۂ مہ لے کے شب گدائے فلک رہا جو قانعِ یک نانِ سوختہ دن بھر ملی حضور سے کانِ گہر جزائے فلک تجملِ شبِ اسرا ابھی سمٹ نہ چکا کہ جب سے ویسی ہی کوتل ہیں سبز ہائے فلک خطابِ حق بھی ہے در بابِ خلق مِنْ اَجَلِکْ اگر ادھر سے دمِ حمد ہے صدائے فلک یہ اہلِ بیت کی چکی سے چال سیکھی ہے رواں ہے بے مددِ دست آسیائے فلک رؔضا یہ نعتِ نبی نے بلندیاں بخشیں لقب زمینِ فلک کا ہوا سمائے فلک حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض

    نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض ظلمتِ حشر کو دِن کردے نہارِ عارض میں تو کیا چیز ہوں خود صاحبِ قرآں کو شہا لاکھ مصحف سے پسند آئی بہارِ عارض جیسے قرآن ہے ورد اُس گلِ محبوبی کا یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقارِ عارض گرچہ قرآں ہے نہ قرآں کی برابر لیکن کچھ تو ہے جس پہ ہے وہ مَدح نگارِ عارض طور کیا عرش جلے دیکھ کے وہ جلوۂ گرم آپ عارض ہو مگر آئینہ دارِ عارض طرفہ عالم ہے وہ قرآن اِدھر دیکھیں اُدھر مصحفِ پاک ہو حیران بہارِ عارض ترجمہ ہے یہ صفت کا وہ خود آئینۂ ذات کیوں نہ مصحف سے زیادہ ہو وقارِ عارض جلوہ فرمائیں رخِ دل کی سیاہی مٹ جائے صبح ہو جائے الٰہی شبِ تارِ عارض نامِ حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں حق کرے عرش سے تا فرش نثارِ عارض مشک بو زلف سے رخ، چہرہ سے بالوں میں شعاع معجزہ ہے حلبِ زلف و تتارِ عارض حق نے بخشا ہے کرم نذرِ گدایاں ہو قبول پیارے اک دِل ہے وہ کرتے ہیں نثارِ عارض آہ بے مایَگیِ دل کہ رؔضائے محتاج لے کر اِک جان چلا بہرِ نثارِ عارض حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

bottom of page