top of page
Naat Academy Naat Lyrics Naat Channel-Naat-Lyrics-Islamic-Poetry-Naat-Education-Sufism.png

نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے

1338 items found for ""

  • سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ

    سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ سب سے بالا و والا ہمارا نبی ﷺ اپنے مولیٰ کا پیارا ہمارا نبی ﷺ دونوں عالم کا دولھا ہمارا نبی ﷺ بزمِ آخر کا شمع فروزاں ہوا نورِ اوّل کا جلوہ ہمارا نبی ﷺ جس کو شایاں ہے عرشِ خُدا پر جلوس ہے وہ سلطانِ والا ہمارا نبی ﷺ بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی ﷺ جس کے تلووں کا دھووَن ہے آبِ حیات ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی ﷺ عرش و کرسی کی تھیں آئینہ بندیا سوئے حق جب سدھارا ہمارا نبی ﷺ خَلق سے اولیا، اولیا سے رُسُل اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی ﷺ حُسن کھاتا ہے جس کے نمک کی قسم وہ ملیحِ دل آرا ہمارا نبی ﷺ ذکر سب پھیکے جب تک نہ مذکور ہو نمکیں حُسن والا ہمارا نبی ﷺ جس کی دو بوند ہیں کوثر و سلسبیل ہے وہ رحمت کا دریا ہمارا نبی ﷺ جیسے سب کا خدا ایک ہے ویسے ہی اِن کا، اُن کا، تمھارا، ہمارا نبی ﷺ قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی ﷺ کون دیتا ہے دینے کو منھ چاہیے دینے والا ہے سچا ہمارا نبی ﷺ کیا خبر کتنے تارے کھِلے چھپ گئے پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی ﷺ ملکِ کونین میں انبیا تاجْدار تاجْداروں کا آقا ہمارا نبی ﷺ لا مکاں تک اجالا ہے جس کا وہ ہے ہر مکاں کا اُجالا ہمارا نبی ﷺ سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے ہے اُس اچھے سے اچھا ہمارا نبی ﷺ سارے اونچوں میں اونچا سمجھیے جسے ہے اُس اونچے سے اونچا ہمارا نبی ﷺ انبیا سے کروں عرض کیوں مالکو! کیا نبی ہے تمھارا ہمارا نبی ﷺ جس نے ٹکڑے کیے ہیں قمر کے وہ ہے نورِ وحدت کا ٹکڑا ہمارا نبی ﷺ سب چمک والے اجلوں میں چمکا کیے اندھے شیشوں میں چمکا ہمارا نبی ﷺ جس نے مردہ دلوں کو دی عمرِ ابد ہے وہ جانِ مسیحا ہمارا نبی ﷺ غمزدوں کو رؔضا مژدہ دیجے کہ ہے بے کَسوں کا سہارا ہمارا نبی ﷺ حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ

    رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ کہہ رہی ہے شمع کی گویا زبانِ سوختہ جس کو قُرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے منعمو! اُن کے خوانِ جود سے ہے ایک نانِ سوختہ ماہِ من یہ نیّرِ محشر کی گرمی تابکے آتشِ عصیاں میں خود جلتی ہے جانِ سوختہ برقِ انگشتِ نبی چمکی تھی اس پر ایک بار آج تک ہے سینۂ مہ میں نشانِ سوختہ مہرِ عالم تاب جھکتا ہے پئے تسلیم روز پیشِ ذرّاتِ مزارِ بیدلانِ سوختہ کوچۂ گیسوئے جاناں سے چلے ٹھنڈی نسیم بال و پر افشاں ہوں یا رب بلبلانِ سوختہ بہرِ حق اے بحرِ رحمت اک نگاہِ لطف بار تابکے بے آب تڑپیں ماہیانِ سوختہ روکشِ خورشیدِ محشر ہو تمھارے فیض سے اک شرارِ سینۂ شیدائیانِ سوختہ آتشِ تر دامنی نے دل کیے کیا کیا کباب خضر کی جاں ہو جِلا دو ماہیانِ سوختہ آتشِ گُلہائے طیبہ پر جلانے کے لیے جان کے طالب ہیں پیارے بلبلانِ سوختہ لطفِ برقِ جلوۂ معراج لایا وجد میں شعلۂ جوّالہ ساں ہے آسمانِ سوختہ اے رؔضا! مضمون سوزِ دِل کی رفعت نے کیا اس زمینِ سوختہ کو آسمانِ سوختہ حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ

    کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ قرض لیتی ہے گنہ پرہیزگاری واہ واہ خامۂ قدرت کا حُسنِ دست کاری واہ واہ کیا ہی تصویر اپنے پیارے کی سنواری واہ واہ اشک شب بھر انتظارِ عَفوِ امّت میں بہیں میں فدا چاند اور یوں اختر شماری واہ واہ اُنگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر ندّیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ نور کی خیرات لینے دوڑتے ہیں مہر و ماہ اٹھتی ہے کس شان سے گردِ سواری واہ واہ نیم جلوے کی نہ تاب آئے قمر ساں تو سہی مہر اور ان تلووں کی آئینہ داری واہ واہ نفس یہ کیا ظلم ہے جب دیکھو تازہ جرم ہے ناتواں کے سر پر اتنا بوجھ بھاری واہ واہ مجرموں کو ڈھونڈھتی پھرتی ہے رحمت کی نگاہ طالعِ بر گشتہ تیری ساز گاری واہ واہ عرض بیگی ہے شفاعت عفو کی سرکار میں چھنٹ رہی ہے مجرموں کی فرد ساری واہ واہ کیا مدینے سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج کچھ نئی بو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ خود رہے پردے میں اور آئینہ عکسِ خاص کا بھیج کر انجانوں سے کی راہ داری واہ واہ اس طرف روضے کا نور اُس سمت منبر کی بہار بیچ میں جنّت کی پیاری پیاری کیاری واہ واہ صدقے اس انعام کے قربان اس اکرام کے ہو رہی ہے دونوں عالم میں تمھاری واہ واہ پارۂ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رؔضا اُن سگانِ کُوْ سے اتنی جان پیاری واہ واہ حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • پُل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو

    پُل سے اتارو راہ گزر کو خبر نہ ہو جبریل پر بچھائیں تو پر کو خبر نہ ہو کانٹا مِرے جگر سے غمِ روزگار کا یوں کھینچ لیجیے کہ جگر کو خبر نہ ہو فریاد اُمّتی جو کرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیرِ بشر کو خبر نہ ہو کہتی تھی یہ بُراق سے اُس کی سبک روی یوں جائیے کہ گردِ سفر کو خبر نہ ہو فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں اے مرتضیٰ عتیق و عمر کو خبر نہ ہو ایسا گما دے اُن کی وِلا میں خدا ہمیں ڈھونڈھا کرے پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو آ دل! حرم کو روکنے والوں سے چھپ کے آج یوں اٹھ چلیں کہ پہلو و بَر کو خبر نہ ہو طیرِ حرم ہیں یہ کہیں رشتہ بپا نہ ہوں یوں دیکھیے کہ تارِ نظر کو خبر نہ ہو اے خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے یوں دل میں آ کہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو اے شوقِ دل یہ سجدہ گر اُن کو روا نہیں اچھا وہ سجدہ کیجے کہ سر کو خبر نہ ہو ان کے سوا رؔضا کوئی حامی نہیں جہاں گزرا کرے پسر پہ پدر کو خبر نہ ہو حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو

    حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو کعبہ تو دیکھ چکے کعبے کا کعبہ دیکھو رکنِ شامی سے مٹی وحشتِ شامِ غربت اب مدینے کو چلو صبحِ دل آرا دیکھو آبِ زم زم تو پیا خوب بجھائیں پیاسیں آؤ جودِ شہِ کوثر کا بھی دریا دیکھو زیرِ میزاب ملے خوب کرم کے چھینٹے ابرِ رحمت کا یہاں زور برسنا دیکھو دھوم دیکھی درِ کعبہ پہ بے تابوں کی اُن کے مشتاقوں میں حسرت کا تڑپنا دیکھو مثلِ پروانہ پھرا کرتے تھے جس شمع کے گرد اپنی اُس شمع کو پروانہ یہاں کا دیکھو خوب آنکھوں سے لگایا ہے غلافِ کعبہ قصرِ محبوب کے پردے کا بھی جلوہ دیکھو واں مطیعوں کا جگر خوف سے پانی پایا یاں سیہ کاروں کا دامن پہ مچلنا دیکھو اوّلیں خانۂ حق کی تو ضیائیں دیکھیں آخریں بیتِ نبی کا بھی تجلّا دیکھو زینتِ کعبہ میں تھا لاکھ عروسوں کا بناؤ جلوہ فرما یہاں کونین کا دولھا دیکھو ایمنِ طور کا تھا رکنِ یمانی میں فروغ شعلۂ طور یہاں انجمن آرا دیکھو مہرِ مادر کا مزہ دیتی ہے آغوشِ حطیم جن پہ ماں باپ فدا یاں کرم ان کا دیکھو عرضِ حاجت میں رہا کعبہ کفیلِ انجاح آؤ اب داد رسیِّ شہِ طیبہ دیکھو دھو چکا ظلمتِ دل بوسۂ سنگِ اَسوَد خاک بوسیِّ مدینہ کا بھی رتبہ دیکھو کر چکی رفعتِ کعبہ پہ نظر پروازیں ٹوپی اب تھام کے خاکِ در ِ والا دیکھو بے نیازی سے وہاں کانپتی پائی طاعت جوشِ رحمت پہ یہاں ناز گنہ کا دیکھو جمعۂ مکّہ تھا عید، اہلِ عبادت کے لیے مجرمو! آؤ یہاں عیدِ دو شنبہ دیکھو ملتزم سے تو گلے لگ کے نکالے ارماں ادب و شوق کا یاں باہم الجھنا دیکھو خوب مسعیٰ میں بامّیدِ صفا دوڑ لیے رہِ جاناں کی صفا کا بھی تماشا دیکھو رقصِ بسمل کی بہاریں تو منٰی میں دیکھیں دلِ خونابہ فشاں کا بھی تڑپنا دیکھو غور سے سن تو رؔضا! کعبے سے آتی ہے صدا میری آنکھوں سے مِرے پیارے کا روضہ دیکھو حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کو

    یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں ہم کو پھر دکھا دے وہ رخ اے مہر ِفروزاں ہم کو دیر سے آپ میں آنا نہیں ملتا ہے ہمیں کیا ہی خود رفتہ کیا جلوۂ جاناں ہم کو جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی پھر دکھا دے وہ ادائے گُلِ خنداں ہم کو کاش آویزۂ قندیلِ مدینہ ہو وہ دل جس کی سوزش نے کیا رشکِ چراغاں ہم کو عرش جس خوبیِ رفتار کا پامال ہوا دو قدم چل کے دکھا سروِ خراماں ہم کو شمعِ طیبہ سے میں پروانہ رہوں کب تک دور ہاں جَلا دے شرِرِ آتشِ پنہاں ہم کو خوف ہے سمع خراشیِّ سگِ طیبہ کا ورنہ کیا یاد نہیں نالۂ و افغاں ہم کو خاک ہو جائیں درِ پاک پہ حسرت مٹ جائے یا الٰہی! نہ پھرا بے سر و ساماں ہم کو خارِ صحرائے مدینہ نہ نکل جائے کہیں وحشتِ دل نہ پھرا کوہ و بیاباں ہم کو تنگ آئے ہیں دو عالَم تِری بے تابی سے چین لینے دے تپِ سینۂ سوزاں ہم کو پاؤں غربال ہوئے راہِ مدینہ نہ ملی اے جنوں اب تو ملے رخصتِ زنداں ہم کو میرے ہر زخمِ جگر سے یہ نکلتی ہے صدا اے ملیحِ عربی کر دے نمک داں ہم کو سیرِ گلشن سے اسیرانِ قفس کو کیا کام نہ دے تکلیف چمن بلبلِ بستاں ہم کو جب سے آنکھوں میں سمائی ہے مدینے کی بہار نظر آتے ہیں خزاں دیدہ گلستاں ہم کو گر لبِ پاک سے اقرارِ شفاعت ہو جائے یوں نہ بے چین رکھے جوششِ عصیاں ہم کو نیّرِ حشر نے اِک آگ لگا رکھی ہے! تیز ہے دھوپ ملے سایۂ داماں ہم کو رحم فرمائیے یا شاہ! کہ اب تاب نہیں تابکے خون رلائے غمِ ہجراں ہم کو چاک داماں میں نہ تھک جائیو، اے دستِ جنوں! پُرزے کرنا ہے ابھی جیب و گریباں ہم کو پردہ اُس چہرۂ انور سے اٹھا کر اِک بار اپنا آئینہ بنا، اے مہِ تاباں! ہم کو اے رؔضا! وصفِ رُخِ پاک سنانے کے لیے نذر دیتے ہیں چمن مُرغِ غزل خواں ہم کو حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہدِ گل کو

    زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہدِ گل کو الٰہی طاقتِ پرواز دے پر ہائے بلبل کو بہاریں آئیں جوبن پر گھرا ہے ابر رحمت کا لب مشتاق بھیگیں دے اجازت ساقیا مل کو ملے لب سے وہ مشکیں مُہر والی دم میں دم آئے ٹپک سن کر ’’قُمِ‘‘ عیسیٰ کہوں مستی میں قلقل کو مچل جاؤں سوالِ مدّعا پر تھام کر دامن بہکنے کا بہانہ پاؤں قصدِ بے تأمل کو دُعا کر بختِ خفتہ جاگ ہنگامِ اجابت ہے ہٹایا صبحِ رخ سے شانے نے شب ہائے کاکُل کو زبانِ فلسفی سے امن خرق والتیام اسرا پناہِ دورِ رحمت ہائے یک ساعت تسلسل کو دو شنبہ مصطفیٰ کا جمعۂ آدم سے بہتر ہے سکھانا کیا لحاظِ حیثیت خوئے تأمل کو وفورِ شانِ رحمت کے سبب جرأت ہے اے پیارے نہ رکھ بہرِ خُدا شرمندہ عرضِ بے تأمل کو پریشانی میں نام ان کا دلِ صد چاک سے نکلا اجابت شانہ کرنے آئی گیسوئے توسّل کو رؔضا نُہ سبزۂ گردوں ہیں کوتل جس کے موکب کے کوئی کیا لکھ سکے اس کی سواری کے تجمّل کو حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو

    چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو حور بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو کی جو بالوں سے تِرے روضے کی جاروب کشی شب کو شبنم نے تبرک کو ہیں دھارے گیسو ہم سیہ کاروں پہ یا رب! تپشِ محشر میں سایہ افگن ہوں تِرے پیارے کے پیارے گیسو چرچے حوروں میں ہیں دیکھو تو ذرا بالِ براق سنبلِ خلد کے قربان اتارے گیسو آخرِ حج غمِ امّت میں پریشاں ہو کر تیرہ بختوں کی شفاعت کو سدھارے گیسو گوش تک سنتے تھے فریاد اب آئے تا دوش کہ بنیں خانہ بدوشوں کو سہارے گیسو سوکھے دھانوں پہ ہمارے بھی کرم ہو جائے چھائے رحمت کی گھٹا بن کے تمھارے گیسو کعبۂ جاں کو پنھایا ہے غلافِ مشکیں اُڑ کر آئے ہیں جو ابرو پہ تمھارے گیسو سلسلہ پا کے شفاعت کا جھکے پڑتے ہیں سجدۂ شکر کے کرتے ہیں اشارے گیسو مشک بو کوچہ یہ کس پھول کا جھاڑا ان سے حوریو عنبرِ سارا ہوئے سارے گیسو دیکھو قرآں میں شبِ قدر ہے تا مطلعِ فجر یعنی نزدیک ہیں عارض کے وہ پیارے گیسو بھینی خوشبو سے مہک جاتی ہیں گلیاں واللہ کیسے پھولوں میں بسائے ہیں تمھارے گیسو شانِ رحمت ہے کہ شانہ نہ جدا ہو دم بھر سینہ چاکوں پہ کچھ اس درجہ ہیں پیارے گیسو شانہ ہے پنجۂ قدرت تِرے بالوں کے لیے کیسے ہاتھوں نے شہا تیرے سنوارے گیسو احدِ پاک کی چوٹی سے الجھ لے شب بھر صبح ہونے دو شبِ عید نے ہارے گیسو مژدہ ہو قبلے سے گھنگھور گھٹائیں اُمڈیں ابروؤں پروہ جھکے جھوم کے بارے گیسو تارِ شیرازۂ مجموعۂ کونین ہیں یہ حال کھل جائے جو اِک دم ہوں کنارے گیسو تیل کی بوندیں ٹپکتی نہیں بالوں سے رؔضا صبحِ عارض پہ لٹاتے ہیں ستارے گیسو (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • زائرو! پاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو

    زائرو! پاسِ ادب رکھو ہوس جانے دو آنکھیں اندھی ہوئی ہیں اُن کو ترس جانے دو سوکھی جاتی ہے امیدِ غربا کی کھیتی بوندیاں لکۂ رحمت کی برس جانے دو پلٹی آتی ہے ابھی وجد میں جانِ شیریں نغمۂ ’’قُم‘‘ کا ذرا کانوں میں رس جانے دو ہم بھی چلتے ہیں ذرا قافلے والو! ٹھہرو گھٹریاں توشۂ امّید کی کس جانے دو دیدِ گل اور بھی کرتی ہے قیامت دل پر ہم صفیرو! ہمیں پھر سوئے قفس جانے دو آتشِ دل بھی تو بھڑکاؤ ادب واں نالو کون کہتا ہے کہ تم ضبطِ نفس جانے دو یوں تنِ زار کے در پے ہوئے دل کے شعلو شیوۂ خانہ براندازیِ خس جانے دو اے رؔضا! آہ کہ کیوں سہل کٹیں جرم کے سال دو گھڑی کی بھی عبادت تو برس جانے دو (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں

    وصفِ رخ اُن کا کیا کرتے ہیں شرحِ والشمس و ضحیٰ کرتے ہیں اُن کی ہم مدح وثنا کرتے ہیں جن کو محمود کہا کرتے ہیں ماہِ شق گشتہ کی صورت دیکھو کانپ کر مہر کی رجعت دیکھو مصطفیٰ پیارے کی قدرت دیکھو کیسے اعجاز ہوا کرتے ہیں تو ہے خورشیدِ رسالت پیارے چھپ گئے تیری ضیا میں تارے انبیا اور ہیں سب مہ پارے تجھ سے ہی نور لیا کرتے ہیں اے بلا بے خِرَدِیِّ کفّار رکھتے ہیں ایسے کے حق میں انکار کہ گواہی ہو گر اُس کو درکار بے زباں بول اٹھا کرتے ہیں اپنے مولیٰ کی ہے بس شان عظیم جانور بھی کریں جن کی تعظیم سنگ کرتے ہیں ادب سے تسلیم پیڑ سجدے میں گرا کرتے ہیں رفعتِ ذکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا مرغِ فردوس پس از حمدِ خدا تیری ہی مدح و ثنا کرتے ہیں انگلیاں پائیں وہ پیاری پیاری جن سے دریائے کرم ہیں جاری جوش پر آتی ہے جب غم خواری تشنے سیراب ہوا کرتے ہیں ہاں یہیں کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہیں چاہتی ہے ہرنی داد اسی در پر شترانِ ناشاد گلۂ رنج و عنا کرتے ہیں آستیں رحمتِ عالم الٹے کمرِ پاک پہ دامن باندھے گرنے والوں کو چہِ دوزخ سے صاف الگ کھینچ لیا کرتے ہیں جب صبا آتی ہے طیبہ سے اِدھر کھلکھلا پڑتی ہیں کلیاں یکسر پھول جامہ سے نکل کر باہر رُخِ رنگیں کی ثنا کرتے ہیں تو ہے وہ بادشہِ کون و مکاں کہ مَلک ہفت فلک کے ہر آں تیرے مولیٰ سے شہِ عرش ایواں تیری دولت کی دعا کرتے ہیں جس کے جلوے سے اُحُد ہے تاباں معدنِ نور ہے اس کا داماں ہم بھی اس چاند پہ ہو کر قرباں دلِ سنگیں کی جِلا کرتے ہیں کیوں نہ زیبا ہو تجھے تاج وَری تیرے ہی دَم کی ہے سب جلوہ گری مَلک و جنّ و بشر حور و پری جان سب تجھ پہ فدا کرتے ہیں ٹوٹ پڑتی ہیں بلائیں جن پر جن کو ملتا نہیں کوئی یاور ہر طرف سے وہ پُر ارماں پھر کر اُن کے دامن میں چھپاکرتے ہیں لب پر آجاتا ہے جب نام جناب منھ میں گھل جاتا ہے شہدِ نایاب وَجْد میں ہوکے ہم اے جاں بے تاب اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں لب پہ کس منھ سے غمِ الفت لائیں کیا بلا دل ہے الم جس کا سنائیں ہم تو ان کے کفِ پا پر مٹ جائیں اُن کے در پر جو مٹا کرتے ہیں اپنے دل کا ہے انھیں سے آرام سونپے ہیں اپنے انھیں کو سب کام لو لگی ہے کہ اب اس در کے غلام چارۂ دردِ رؔضا کرتے ہیں (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں

    وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانیِ دل و جاں نہیں کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہ ہاں نہیں میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقر جو وہاں سے ہو یہیں آکے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں کرے مصطفیٰ کی اہانتیں کھلے بندوں اس پہ یہ جرأتیں کہ میں کیا نہیں ہوں محمدی! ارے ہاں نہیں تِرے آگےیوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے کوئی جانے منھ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں وہ شرف کہ قطع ہیں نسبتیں وہ کرم کہ سب سے قریب ہیں کوئی کہہ دو یاس و امید سے وہ کہیں نہیں وہ کہاں نہیں یہ نہیں کہ خُلد نہ ہو نکو وہ نِکوئی کی بھی ہے آبرو مگر اے مدینے کی آرزو جسے چاہے تو وہ سماں نہیں ہے انھیں کے نور سے سب عیاں ہے انھیں کے جلوے میں سب نہاں بنے صبح تابشِ مہر سے رہے پیشِ مہر یہ جاں نہیں وہی نورِ حق وہی ظلِّ رب ہے انھیں سے سب ہے انھیں کا سب نہیں ان کی مِلک میں آسماں کہ زمیں نہیں کہ زماں نہیں وہی لامکاں کے مکیں ہوئے سرِ عرش تخت نشیں ہوئے وہ نبی ہے جس کے ہیں یہ مکاں وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں سرِ عرش پر ہے تِری گزر دلِ فرش پر ہے تِری نظر ملکوت و مُلک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں تِرا قد تو نادرِ دہر ہے کوئی مثل ہو تو مثال دے نہیں گل کے پودوں میں ڈالیاں کہ چمن میں سرو چماں نہیں نہیں جس کے رنگ کا دوسرا نہ تو ہو کوئی نہ کبھی ہوا کہو اس کو گل کہے کیا بنی کہ گلوں کا ڈھیر کہاں نہیں کروں مدحِ اہلِ دُوَل رؔضا پڑے اس بلا میں مِری بلا میں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین پارۂ ناں نہیں (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں

    اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیے ہیں جس راہ چل گئے ہیں کوچے بسا دیے ہیں جب آ گئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں جلتے بھجا دیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا تم نے تو چلتے پھرتے مُردے جِلا دیے ہیں ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو جب یاد آ گئے ہیں سب غم بھلا دیے ہیں ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے اب تو غنی کے دَر پر بستر جما دیے ہیں اسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قدسیوں کے ہونے لگی سلامی پرچم جھکا دیے ہیں آنے دو یا ڈبو دو اب تو تمھاری جانب کشتی تمھیں پہ چھوڑی لنگر اٹھا دیے ہیں دولھا سے اتنا کہہ دو پیارے سواری روکو مشکل میں ہیں براتی پر خار بادیے ہیں اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ سرد ہوگا رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیے ہیں میرے کریم سے گر قطرہ کسی نے مانگا دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں مُلکِ سخن کی شاہی تم کو رؔضا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں (حدائقِ بخشش) #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

bottom of page