نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
1338 items found for ""
- عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے جانِ مُراد اب کدھر ہائے تِرا مکان ہے بزم ثنائے زلف میں میری عروسِ فکر کو ساری بہارِ ہشت خُلد چھوٹا سا عطردان ہے عرش پہ جاکے مرغِ عقل تھک کے گراغش آ گیا اور ابھی منزلوں پرے پہلا ہی آستان ہے عرش پہ تازہ چھیڑ چھاڑ فرش میں طرفہ دھوم دھام کان جدھر لگائیے تیری ہی داستان ہے اِک تِرے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی اِنس کا اُنس اُسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے گود میں عالمِ شباب حالِ شباب کچھ نہ پوچھ! گلبنِ باغِ نور کی اور ہی کچھ اٹھان ہے تجھ سا سیاہ کار کون اُن سا شفیع ہے کہاں پھر وہ تجھی کو بھول جائیں دل یہ تِرا گمان ہے پیشِ نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے شانِ خدا نہ ساتھ دے اُن کے خرام کا وہ باز سدرہ سے تاز میں جسے نرم سی اک اڑان ہے بارِ جلال اٹھا لیا گرچہ کلیجا شق ہوا یوں تو یہ ماہِ سبزہ رنگ نظروں میں دھان پان ہے خوف نہ رکھ رضؔا ذرا تو تو ہے عبدِ مصطفیٰ تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے
مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے تہنیت اے مجرمو! ذاتِ خدا غفّار ہے عرش سا فرشِ زمیں ہے فرشِ پا عرشِ بریں کیا نرالی طرز کی نامِ خُدا رفتار ہے چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدے کریں بَارَکَ اللہ مرجعِ عالَم یہی سرکار ہے جن کو سوئے آسماں پھیلا کے جل تھل بھر دیے صدقہ اُن ہاتھوں کا پیارے ہم کو بھی درکار ہے لب زلالِ چشمۂ کُن میں گندھے وقتِ خمیر مُردے زندہ کرنا اے جاں تم کو کیا دشوار ہے گورے گورے پاؤں چمکا دو خدا کے واسطے نور کا تڑکا ہو پیارے گور کی شب تار ہے تیرے ہی دامن پہ ہر عاصی کی پڑتی ہے نظر ایک جانِ بے خطا پر دو جہاں کا بار ہے جوشِ طوفاں بحرِ بے پایاں ہَوا ناساز گار نوح کے مولیٰ کرم کر لے تو بیڑا پار ہے رحمۃُ لّلعالمیں تیری دہائی دب گیا اب تو مولیٰ بے طرح سر پر گنہ کا بار ہے حیرتیں ہیں آئینہ دارِ وُفورِ وصفِ گُل اُن کے بلبل کی خموشی بھی لبِ اظہار ہے گونج گونج اٹھے ہیں نغماتِ رضؔا سے بوستاں کیوں نہ ہو کس پھول کی مدحت میں وا منقار ہے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- سَرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے
سَرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے باغِ خلیل کا گُلِ زیبا کہوں تجھے حرماں نصیب ہوں تجھے امّید گہ کہوں جانِ مراد و کانِ تمنّا کہوں تجھے گلزارِ قُدس کا گُلِ رنگیں ادا کہوں درمانِ دردِ بلبلِ شیدا کہوں تجھے صبحِ وطن پہ شامِ غریباں کو دوں شرف بے کس نواز گیسوؤں والا کہوں تجھے اللہ رے تیرے جسمِ منوّر کی تابشیں اے جانِ جاں میں جانِ تجلّا کہوں تجھے بے داغ لالہ یا قمرِ بے کلف کہوں بے خار گلبنِ چمن آرا کہوں تجھے مجرم ہوں اپنے عفو کا ساماں کروں شہا یعنی شفیع روزِ جزا کا کہوں تجھے اِس مردہ دل کو مژدہ حیاتِ ابد کا دوں تاب و توانِ جانِ مسیحا کہوں تجھے تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بَری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے کہہ لے گی سب کچھ اُن کے ثنا خواں کی خامشی چپ ہو رہا ہے کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے لیکن رضؔا نے ختمِ سخن اس پہ کر دیا خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے ہر طرف دیدۂ حیرت زدہ تکتا کیا ہے مانگ من مانتی منھ مانگی مرادیں لے گا نہ یہاں ’’نا‘‘ ہے نہ منگتا سے یہ کہنا ’’کیا ہے‘‘ پند کڑوی لگے ناصح سے ترش ہواے نفس زہرِ عصیاں میں ستمگر تجھے میٹھا کیا ہے ہم ہیں اُن کے وہ ہیں تیرے تو ہوئے ہم تیرے اس سے بڑھ کر تِری سمت اور وسیلہ کیا ہے ان کی امّت میں بنایا انھیں رحمت بھیجا یوں نہ فرما کہ تِرا رحم میں دعویٰ کیا ہے صدقہ پیارے کی حیا کا کہ نہ لے مجھ سے حساب بخش بے پوچھے لجائے کو لجانا کیا ہے زاہد اُن کا میں گنہ گار وہ میرے شافع اتنی نسبت مجھے کیا کم ہے تو سمجھا کیا ہے ق: بے بسی ہو جو مجھے پرسشِ اعمال کے وقت دوستو! کیا کہوں اُس وقت تمنّا کیا ہے کاش فریاد مِری سُن کے یہ فرمائیں حضور ہاں کوئی دیکھو یہ کیا شور ہے غوغا کیا ہے کون آفت زدہ ہے کس پہ بلا ٹوٹی ہے کس مصیبت میں گرفتار ہے صدمہ کیا ہے کس سے کہتا ہے کہ للہ خبر لیجے مِری کیوں ہے بے تاب یہ بے چینی کا رونا کیا ہے اس کی بے چینی سے ہے خاطرِ اقدس پہ ملال بے کسی کیسی ہے پوچھو کوئی گزرا کیا ہے یوں ملائک کریں معروض کہ اِک مجرم ہے اس سے پرسش ہے بتا تونے کیا کیا کیا ہے سامنا قہر کا ہے دفترِ اعمال ہیں پیش ڈر رہا ہے کہ خدا حکم سناتا کیا ہے آپ سے کرتا ہے فریاد کہ یا شاہِ رُسل بندہ بے کس ہے شہا رحم میں وقفہ کیا ہے اب کوئی دم میں گرفتارِ بلا ہوتا ہوں آپ آجائیں تو کیا خوف ہے کھٹکا کیا ہے سُن کے یہ عرض مِری بحر ِ کرم جوش میں آئے یوں ملائک کو ہو ارشاد ٹھہرنا کیا ہے کس کو تم موردِ آفات کیا چاہتے ہو! ہم بھی تو آ کے ذرا دیکھیں تماشا کیا ہے ان کی آواز پہ کر اُٹّھوں میں بے ساختہ شور اور تڑپ کر یہ کہوں اب مجھے پروا کیا ہے لو وہ آیا مِرا حامی مِرا غم خوارِ اُمَم! آ گئی جاں تنِ بے جاں میں یہ آنا کیا ہے پھر مجھے دامنِ اقدس میں چھپا لیں سَروَر اور فرمائیں ہٹو اس پہ تقاضا کیا ہے بندہ آزاد شدہ ہے یہ ہمارے در کا کیسا لیتے ہو حساب اس پہ تمھارا کیا ہے چھوڑ کر مجھ کو فرشتے کہیں محکوم ہیں ہم حکمِ والا کی نہ تعمیل ہو زہرہ کیا ہے یہ سماں دیکھ کے محشر میں اٹھے شور کہ واہ چشمِ بد دور ہو کیا شان ہے رتبہ کیا ہے صدقے اس رحم کے اس سایۂ دامن پہ نثار اپنے بندے کو مصیبت سے بچایا کیا ہے اے رضؔا! جانِ عَنادِل تِرے نغموں کے نثار بلبلِ باغِ مدینہ تِرا کہنا کیا ہے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- راہ پُر خار ہے کیا ہونا ہے
راہ پُر خار ہے کیا ہونا ہے پاؤں افگار ہے کیا ہونا ہے خشک ہے خون کہ دشمن ظالم سخت خوں خوار ہے کیا ہونا ہے ہم کو بدِ کر وہی کرنا جس سے دوست بیزار ہے کیا ہونا ہے تن کی اب کون خبر لے ہے ہے دل کا آزار ہے کیا ہونا ہے میٹھے شربت دے مسیحا جب بھی ضد ہے انکار ہے کیا ہونا ہے دل کہ تیمار ہمارا کرتا آپ بیمار ہے کیا ہونا ہے پَر کٹے تنگ قفس اور بلبل نو گرفتار ہے کیا ہونا ہے چھپ کے لوگوں سے کیے جس کے گناہ وہ خبر دار ہے کیا ہونا ہے ارے او مجرم بے پروا دیکھ سر پہ تلوار ہے کیا ہونا ہے تیرے بیمار کو میرے عیسیٰ غش لگاتار ہے کیا ہونا ہے نفسِ پُر زور کا وہ زور اور دل زیر ہے زار ہے کیا ہونا ہے کام زنداں کے کیے اور ہمیں شوقِ گلزار ہے کیا ہونا ہے ہائے رے نیند مسافر تیری کوچ تیار ہے کیا ہونا ہے دور جانا ہے رہا دن تھوڑا راہ دشوار ہے کیا ہونا ہے گھر بھی جانا ہے مسافر کہ نہیں مت پہ کیا مار ہے کیا ہونا ہے جان ہلکان ہوئی جاتی ہے بار سا بار ہے کیا ہونا ہے پار جانا ہے نہیں ملتی ناؤ زور پر دھار ہے کیا ہونا ہے راہ تو تیغ پر اور تلووں کو گلۂ خار ہے کیا ہونا ہے روشنی کی ہمیں عادت اور گھر تیرہ و تار ہے کیا ہونا ہے بیچ میں آگ کا دریا حائل قصد اس پار ہے کیا ہونا ہے اس کڑی دھوپ کو کیوں کر جھیلیں شعلہ زن نار ہے کیا ہونا ہے ہائے بگڑی تو کہاں آ کر ناؤ عین منجدھار ہے کیا ہونا ہے کل تو دیدار کا دن اور یہاں آنکھ بے کار ہے کیا ہونا ہے منھ دکھانے کا نہیں اور سحر عام دربار ہے کیا ہونا ہے ان کو رحم آئے تو آئے ورنہ وہ کڑی مار ہے کیا ہونا ہے لے وہ حاکم کے سپاہی آئے صبح اظہار ہے کیا ہونا ہے واں نہیں بات بنانے کی مجال چارہ اقرار ہے کیا ہونا ہے ساتھ والوں نے یہیں چھوڑ دیا بے کسی یار ہے کیا ہونا ہے آخری دید ہے آؤ مل لیں رنج بے کار ہے کیا ہونا ہے دل ہمیں تم سے لگانا ہی نہ تھا اب سفر بار ہے کیا ہونا ہے جانے والوں پہ یہ رونا کیسا بندہ ناچار ہے کیا ہونا ہے نزع میں دھیان نہ بٹ جائے کہیں یہ عبث پیار ہے کیا ہونا ہے اُس کا غم ہے کہ ہر اِک کی صورت گلے کا ہار ہے کیا ہونا ہے باتیں کچھ اور بھی تم سے کرتے پر کہاں وار ہے کیا ہونا ہے کیوں رضؔا کڑھتے ہو ہنستے اٹھو جب وہ غفّار ہے کیا ہونا ہے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- کیا مہکتے ہیں مہکنے والے
کیا مہکتے ہیں مہکنے والے بو پہ چلتے ہیں بھٹکنے والے جگمگا اٹھی مِری گور کی خاک تیرے قربان چمکنے والے مہِ بے داغ کے صدقے جاؤں یوں دمکتے ہیں دمکنے والے عرش تک پھیلی ہے تابِ عارض کیا جھلکتے ہیں جھلکنے والے گُل طیبہ کی ثنا گاتے ہیں نخل طوبیٰ پہ چہکنے والے عاصیو! تھام لو دامن اُن کا وہ نہیں ہاتھ جھٹکنے والے ابرِ رحمت کے سلامی رہنا پھلتے ہیں پودے لچکنے والے ارے یہ جلوہ گہِ جاناں ہے کچھ ادب بھی ہے پھڑکنے والے سنّیو! ان سے مدد مانگے جاؤ پڑے بکتے رہیں بکنے والے شمعِ یادِ رُخِ جاناں نہ بجھے خاک ہو جائیں بھڑکنے والے موت کہتی ہے کہ جلوہ ہے قریب اِک ذرا سو لیں بلکنے والے کوئی اُن تیز رووں سے کہہ دو کس کے ہو کر رہیں تکھنے والے دل سلگتا ہی بھلا ہے اے ضبط بجھ بھی جاتے ہیں دہکنے والے ہم بھی کمھلانے سے غافل تھے کبھی کیا ہنسا غنچے چٹکنے والے نخل سے چھٹ کے یہ کیا حال ہوا آہ او پتّے کھڑکنے والے جب گرے منھ سوئے مَے خانہ تھا ہوش میں ہیں یہ بہکنے والے دیکھ او زخمِ دل آپے کو سنبھال پھوٹ بہتے ہیں تپکنے والے مَے کہاں اور کہاں میں زاہد یوں بھی تو چھکتے ہیں چھکنے والے کفِ دریائے کرم میں ہیں رضؔا پانچ فوّارے چھلکنے والے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- آنکھیں رو رو کے سُجانے والے
آنکھیں رو رو کے سُجانے والے جانے والے نہیں آنے والے کوئی دن میں یہ سرا اوجڑ ہے ارے او چھاؤنی چھانے والے ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے ارے بد فال بری ہوتی ہے دیس کا جنگلا سنانے والے سن لیں اَعدا! میں بگڑنے کا نہیں وہ سلامت ہیں بنانے والے آنکھیں کچھ کہتی ہیں تجھ سے پیغام او درِ یار کے جانے والے پھر نہ کروٹ لی مدینے کی طرف ارے چل جھوٹے بہانے والے نفس! میں خاک ہوا تو نہ مٹا ہے مِری جان کے کھانے والے جیتے کیا دیکھ کے ہیں اے حورو! طیبہ سے خُلد میں آنے والے نیم جلوے میں دو عالم گلزار واہ وا رنگ جمانے والے حُسن تیرا سا نہ دیکھا نہ سُنا کہتے ہیں اگلے زمانے والے وہی سدھوم ان کی ہے مَا شَآءَ اللہ! مِٹ گئے آپ مٹانے والے لبِ سیراب کا صدقہ پانی اے لگی دل کی بجھانے والے ساتھ لے لو مجھے میں مجرم ہوں راہ میں پڑتے ہیں تھانے والے ہو گیا دَھک سے کلیجا میرا ہائے رخصت کی سنانے والے خلق تو کیا کہ ہیں خالق کو عزیز کچھ عجب بھاتے ہیں بھانے والے کشتۂ دشتِ حرم جنّت کی کھڑکیاں اپنے سِرہانے والے کیوں رضؔا آج گلی سونی ہے اٹھ مِرے دھوم مچانے والے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے مِرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے برستا نہیں دیکھ کر ابرِ رحمت بدوں پر بھی برسا دے برسانے والے مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے غریبوں، فقیروں کے ٹھہرانے والے تو زندہ ہے واللہ! تو زندہ ہے واللہ! مِرے چشمِ عالَم سے چھپ جانے والے میں مجرم ہوں آقا! مجھے ساتھ لے لو کہ رستے میں ہیں جا بہ جا تھانے والے حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے چل اٹھ جبہہ فرسا ہو ساقی کے در پر درِ جود اے میرے مستانے والے تِرا کھائیں تیرے غلاموں سے اُلجھیں ہیں منکر عجب کھانے غُرّانے والے رہےگا یوں ہی اُن کا چرچا رہے گا پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے اب آئی شفاعت کی ساعت اب آئی ذرا چین لے میرے گھبرانے والے رضؔا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا کہاں تم نے دیکھے ہیں چندرانے والے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے دل نکل جانے کی جا ہے آہ کن آنکھوں سے وہ ہم سے پیاسوں کے لئے دریا بہاتے جائیں گے کُشتگانِ گرمیِ محشر کو وہ جانِ مسیح آج دامن کی ہوا دے کر جِلاتے جائیں گے گُل کِھلے گا آج یہ اُن کی نسیمِ فیض سے خون روتے آئیں گے ہم مسکراتے جائیں گے ہاں چلو حسرت زدو سنتے ہیں وہ دن آج ہے تھی خبر جس کی کہ وہ جلوہ دکھاتے جائیں گے آج عیدِ عاشقاں ہے گر خدا چاہے کہ وہ ابروئے پیوستہ کا عالم دکھاتے جائیں گے کچھ خبر بھی ہے فقیرو! آج وہ دن ہے کہ وہ نعمتِ خلد اپنے صدقے میں لٹاتے جائیں گے خاک اُفتادو! بس اُن کے آنے ہی کی دیر ہے خود وہ گر کر سجدے میں تم کو اُٹھاتے جائیں گے وسعتیں دی ہیں خدا نے دامنِ محبوب کو جرم کُھلتے جائیں گے اور وہ چھپاتے جائیں گے لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے آنکھ کھولو غمزدو! دیکھو وہ گریاں آئے ہیں لوحِ دل سے نقشِ غم کو اب مٹاتے جائیں گے سوختہ جانوں پہ وہ پرجوش رحمت آئے ہیں آبِ کوثر سے لگی دل کی بجھاتے جائیں گے آفتاب اُن کا ہی چمکے گا جب اوروں کے چراغ صِر صِرِ جوشِ بَلا سے جھلملاتے جائیں گے پائے کوباں پل سے گزریں گے تِری آواز پر رَبِّ سَلِّمْ کی صَدا پر وَجد لاتے جائیں گے سرورِ دیں لیجے اپنے ناتوانوں کی خبر نفس و شیطاں، سیّدا! کب تک دباتےجائیں گے حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائشِ مولیٰ کی دھوم مِثل فارس نجد کے قلعےگراتے جائیں گے خاک ہوجائیں عَدُو جل کر مگر ہم تو رؔضا دم میں جب تک دم ہے ذکر اُن کا سناتےجائیں گے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- قافلے نے سوئے طیبہ کمر آرائی کی
قافلے نے سوئے طیبہ کمر آرائی کی مشکل آسان الٰہی مِری تنہائی کی لاج رکھ لی طَمَعِ عفو کے سودائی کی اے میں قرباں مِرے آقا بڑی آقائی کی فرش تا عرش سب آئینہ ضمائر حاضر بس قسم کھائیے اُمّی تِری دانائی کی شش جہت سمت مقابل شب و روز ایک ہی حال دھوم وَالنَّجْم میں ہے آپ کی بینائی کی پانسو (۵۰۰) سال کی راہ ایسی ہے جیسے دو گام آس ہم کو بھی لگی ہے تِری شنوائی کی چاند اشارے کا ہلا حکم کا باندھا سورج واہ کیا بات شہا! تیری توانائی کی تنگ ٹھہری ہے رؔضا جس کے لیے وسعتِ عرش بس جگہ دل میں ہے اس جلوۂ ہر جائی کی حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسول اللہ کی
عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسول اللہ کی دیکھنی ہے حشر میں عزّت رسول اللہ کی قبر میں لہرائیں گے تا حشر چشمے نور کے جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی کافروں پر تیغِ والا سے گری برقِ غضب اَبر آسا چھا گئی ہیبت رسول اللہ کی لَا وَرَبِّ الْعَرْش جس کو جو ملا اُن سے ملا بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی وہ جہنّم میں گیا جو اُن سے مستغنی ہوا ہے خلیل اللہ کو حاجت رسول اللہ کی سورج الٹے پاؤں پلٹے چاند اشارے سے ہو چاک اندھے نجدی دیکھ لے قدرت رسول اللہ کی تجھ سے اور جنّت سے کیا مطلب وہابی دور ہو ہم رسول اللہ کے جنّت رسول اللہ کی ذکر رو کے فضل کاٹے نقص کا جویاں رہے پھر کہے مردک کہ ہوں امّت رسول اللہ کی نجدی اُس نے تجھ کو مہلت دی کہ اِس عالم میں ہے کافر و مرتد پہ بھی رحمت رسول اللہ کی ہم بھکاری وہ کریم اُن کا خدا اُن سے فزوں اور ’’نا‘‘ کہنا نہیں عادت رسول اللہ کی اہلِ سنّت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی ٹوٹ جائیں گے گنہ گاروں کے فوراً قید و بند حشر کو کُھل جائے گی طاقت رسول اللہ کی یارب اک ساعت میں دھل جائیں سیہ کاروں کے جرم جوش میں آجائے اب رحمت رسول اللہ کی ہے گُلِ باغِ قُدُس رخسار زیبائے حضور! سروِ گلزارِ قِدم قامت رسول اللہ کی اے رؔضا! خود صاحبِ قرآں ہے مدّاحِ حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- اللہ اللہ کے نبی سے
اللہ اللہ کے نبی سے فریاد ہے نفس کی بدی سے دن بھر کھیلوں میں خاک اڑائی لاج آئی نہ ذرّوں کی ہنسی سے شب بھر سونے ہی سے غرض تھی تاروں نے ہزار دانت پیسے ایمان پہ مَوت بہتر او نفس تیری ناپاک زندگی سے او شہد نمائے زہر در جام گم جاؤں کدھر تِری بدی سے گہرے پیارے پرانے دل سوز گزرا میں تیری دوستی سے تجھ سے جو اٹھائے میں نے صدمے ایسے نہ ملے کبھی کسی سے اُف رے خود کام بے مروّت پڑتا ہے کام آدمی سے تونے ہی کیا خدا سے نادم تونے ہی کیا خجل نبی سے کیسے آقا کا حکم ٹالا ہم مر مٹے تیری خود سری سے آتی نہ تھی جب بدی بھی تجھ کو ہم جانتے ہیں تجھے جبھی سے حد کے ظالم سِتم کے کٹّر پتھر شرمائیں تیرے جی سے ہم خاک میں مل چکے ہیں کب کے نکلا نہ غبار تیرے جی سے ہے ظالم میں نباہوں تجھ سے اللہ بچائے اُس گھڑی سے جو تم کو نہ جانتا ہو حضرت چالیں چلیے اس اجنبی سے اللہ کے سامنے وہ گن تھے یاروں میں کیسے متّقی سے رہزن نے لوٹ لی کمائی فریاد ہے خضر ہاشمی سے اللہ کنوئیں میں خود گِرا ہوں اپنی نالش کروں تجھی سے ہیں پشت پناہ غوثِ اعظم کیوں ڈرتے ہو تم رؔضا کسی سے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش