نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
1338 items found for ""
- محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا
محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزّت کا نظر آتا ہے اِس کثرت میں کچھ انداز وحدت کا یہی ہے اصلِ عالم مادّہ ایجادِ خلقت کا یہاں وحدت میں برپا ہے عجب ہنگامہ کثرت کا گدا بھی منتظر ہے خلد میں نیکوں کی دعوت کا خدا دن خیر سے لائے سخی کے گھر ضیافت کا گنہ مغفور، دل روشن، خنک آنکھیں، جگر ٹھنڈا تَعَالَی اللہ ماہِ طیبہ عالم تیری طلعت کا نہ رکھی گُل کے جوشِ حسن نے گلشن میں جا باقی چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغِ رسالت کا بڑھا یہ سلسلہ رحمت کا دَورِ زلفِ والا میں تسلسل کالے کوسوں رہ گیا عصیاں کی ظلمت کا صفِ ماتم اٹھے، خالی ہو زنداں، ٹوٹیں زنجیریں گنہگارو! چلو مولیٰ نے دَر کھولا ہے جنّت کا سکھایا ہے یہ کس گستاخ نے آئینہ کو یا رب نظارہ روئے جاناں کا بہانہ کرکے حیرت کا اِدھر اُمّت کی حسرت پر اُدھر خالق کی رحمت پر نرالا طَور ہوگا گردشِ چشمِ شفاعت کا بڑھیں اِس درجہ موجیں کثرتِ افضالِ والا کی کنارہ مل گیا اس نہر سے دریائے وحدت کا خمِ زلفِ نبی ساجد ہے محرابِ دو ابرو میں کہ یا رب تو ہی والی ہے سیہ کارانِ امّت کا مدد اے جوششِ گریہ بہا دے کوہ اور صحرا نظر آجائے جلوہ بے حجاب اِس پاک تربت کا ہوئے کمخوابیِ ہجراں میں ساتوں پر دے کمخوابی تصوّر خوب باندھا آنکھوں نے استار تربت کا یقیں ہے وقتِ جلوہ لغزشیں پائے نگہ پائے ملے جوشِ صفائے جسم سے پا بوس حضرت کا یہاں چھڑکا نمک واں مرہمِ کافور ہاتھ آیا دلِ زخمی نمک پَروردہ ہے کس کی مَلاحت کا الٰہی! منتظر ہوں وہ خَرام ناز فرمائیں بچھا رکھا ہے فرش آنکھوں نے کمخوابِ بصارت کا نہ ہو آقا کو سجدہ آدم و یوسف کو سجدہ ہو مگر سدِّ ذرائع داب ہے اپنی شریعت کا زبانِ خار کِس کِس دَرد سے اُن کو سناتی ہے تڑپنا دشتِ طیبہ میں جگر افکار فرقت کا سِرھانے ان کے بسمل کے یہ بے تابی کا ماتم ہے شہِ کوثر تَرَحَّمْ تشنہ جاتا ہے زیارت کا جنھیں مَرقد میں تا حشر امّتی کہہ کر پکارو گے ہمیں بھی یاد کرلو اُن میں صدقہ اپنی رحمت کا وہ چمکیں بجلیاں یا رب! تجلّیہائے جاناں سے کہ چشمِ طُور کا سُرمہ ہو دل مشتاق رُوْیَت کا رؔضائے خستہ جوشِ بحرِ عصیاں سے نہ گھبرانا کبھی تو ہاتھ آجائے گا دامن اُن کی رحمت کا حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- لطف اُن کا عام ہو ہی جائے گا
لطف اُن کا عام ہو ہی جائے گا شاد ہر ناکام ہو ہی جائے گا جان دے دو وعدۂ دیدار پر نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا شاد ہے فردوس یعنی ایک دن قسمتِ خدّام ہو ہی جائے گا یاد رہ جائیں گی یہ بے باکیاں نفس تو تو رام ہو ہی جائے گا بے نشانوں کا نشاں مٹتا نہیں مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا یادِ گیسو ذکرِ حق ہے آہ کر دل میں پیدا لام ہو ہی جائے گا ایک دن آواز بدلیں گے یہ ساز چہچہا کہرام ہو ہی جائے گا سائلو! دامن سخی کا تھام لو کچھ نہ کچھ انعام ہو ہی جائے گا یادِ ابرو کر کے تڑپو بلبلو! ٹکڑے ٹکڑے دام ہو ہی جائے گا مفلسو! اُن کی گلی میں جا پڑو باغِ خلد اکرام ہو ہی جائے گا گر یوں ہی رحمت کی تاویلیں رہیں مدح ہر الزام ہو ہی جائے گا بادہ خواری کا سماں بندھنے تو دو شیخ دُرد آشام ہو ہی جائے گا غم تو ان کو بھول کر لپٹا ہے یوں جیسے اپنا کام ہو ہی جائے گا مِٹ کہ گر یوں ہی رہا قرضِ حیات جان کا نیلام ہو ہی جائے گا عاقلو! اُن کی نظر سیدھی رہے بَوروں کا بھی کام ہو ہی جائے گا اب تو لائی ہے شفاعت عَفْو پر بڑھتے بڑھتے عام ہو ہی جائے گا اے رؔضا ہر کام کا اِک وقت ہے دل کو بھی آرام ہو ہی جائے گا حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- تابِ مرآتِ سحر گردِ بیابانِ عرب
تابِ مرآتِ سحر گردِ بیابانِ عرب غازۂ روئے قمر دودِ چراغانِ عرب اللہ اللہ بہارِ چمنستانِ عرب پاک ہیں لَوثِ خزاں سے گُل و رَیحانِ عرب جوشِش ابر سے خونِ گلِ فردوس کرے چھیڑ دے رگ کو اگر خارِ بیابانِ عرب تشنۂ نہرِ جِناں ہر عربی و عجمی! لبِ ہر نہرِ جِناں تشنۂ نیسانِ عرب طوقِ غم آپ ہوائے پرِ قمری سے گرے اگر آزاد کرے سروِ خرامانِ عرب مہر میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے ڈالے اِک بوند شبِ دے میں جو بارانِ عرب عرش سے مژدۂ بلقیسِ شفاعت لایا طائرِ سدرہ نشیں مرغِ سلیمانِ عرب حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں سر کٹاتے ہیں تِرے نام پہ مردانِ عرب کوچے کوچے میں مہکتی ہے یہاں بوئے قمیص یوسفستاں ہے ہر اِک گوشۂ کنعانِ عرب بزمِ قدسی میں ہے یادِ لبِ جاں بخش حضور عالمِ نور میں ہے چشمۂ حیوانِ عرب پائے جبریل نے سرکار سے کیا کیا اَلقاب خسروِ خیلِ مَلک خادمِ سلطانِ عرب بلبل و نیلپر و کبک بنو پروانو! مہ و خورشید پہ ہنستے ہیں چراغانِ عرب حور سے کیا کہیں موسیٰ سے مگر عرض کریں کہ ہے خود حسنِ ازل طالبِ جانانِ عرب کرمِ نعت کے نزدیک تو کچھ دور نہیں کہ رضائے عجمی ہو سگِ حسّانِ عرب #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- انبیا کو بھی اجل آنی ہے
انبیا کو بھی اجل آنی ہے مگر ایسی کہ فقط آنی ہے پھر اُسی آن کے بعد اُن کی حیات مثل سابق و ہی جسمانی ہے روح تو سب کی ہے زندہ ان کا جسم پر نور بھی روحانی ہے اوروں کی روح ہو کتنی ہی لطیف اُن کے اجسام کی کب ثانی ہے پاؤں جس خاک پہ رکھ دیں وہ بھی روح ہے پاک ہے نورانی ہے اس کی ازواج کو جائز ہے نکاح اس کا ترکہ بٹے جو فانی ہے یہ ہیں حَیّ ابدی ان کو رضؔا صدق وعدہ کی قضا مانی ہے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- لحد میں عشقِ رُخ شہ کا داغ لے کے چلے
لحد میں عشقِ رُخ شہ کا داغ لے کے چلے اندھیری رات سُنی تھی چراغ لے کے چلے ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے جنان بنےگی محبّانِ چار یار کی قبر جو اپنے سینہ میں یہ چار باغ لے کے چلے گیے، زیارتِ در کی، صدر آہ واپس آئے نظر کے اشک پیچھے دل کا داغ لے کے چلے مدینہ جانِ جنان وجہاں ہے وہ سن لیں جنہیں جنون جناں سوئے زاغ لے کے چلے ترے سحاب سخن سے نہ نم کہ نم سے بھی کم بلیغ بہر بلاغت بلاغ لے کے چلے حضور طیبہ سے بھی کوئی کام بڑھ کر ہے کہ جھوٹےحیلۂ مکر و فراغ لے کے چلے تمہارے وصف جمال و کمال میں جبریل محال ہے کہ مجال و مساغ لے کے چلے گلہ نہیں ہے مُرید رشید شیطاں سے کہ اس کے وسعت علمی کا لاغ لے کے چلے ہر ایک اپنےبڑے کی بڑائی کرتا ہے ہر ایک مغجچہ مغ کا ایاغ لے کے چلے مگر خدا پہ جو دھبّہ وروغ کا تھوپا یہ کس لعیں کی غلامی کا داغ لے کے چلے وقوع کذب کے معنی دُرست اور قدوس ہیے کی پھوٹے عجب سبز باغ لے کے چلے جہاں میں کوئی بھی کافر سا کافر ایسا ہے کہ اپنے رب پہ سفاہت کا داغ لے کے چلے پڑی ہے اندھے کو عادت کہ شور بے ہی سے کھائے بیڑ ہاتھ نہ آئی تو زاغ لے کے چلے خبیث بہر خبیثہ خبیثہ بہر خبیث کہ ساتھ جنس کو بازو وکلاغ لے کے چلے جو دین کوؤں کو دے بیٹھے ان کو یکساں ہے کلاغ لے کے چلے یا الاغ لے کے چلے رضؔا کسی سگِ طیبہ کے پاؤں بھی چومے تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- بکار خویش حیرانم اغثنی یا رسول اللہ
بکار خویش حیرانم اغثنی یا رسول اللہ پریشانم پریشانم اغثنی یا رسول اللہ ندارم جز تو ملجائے ندانم جز تو ماوائے توئی خود سازو سا مانم اغثنی یا رسول اللہ شہا بیکس نوازی کن طبیبا چارہ سازی کن مریض دردِ عصیانم اغثنی یا رسول اللہ نرفتم راہ بینا یاں فتادم درچہِ عصیاں بیا اے حبل رحما نم اغثنی یا رسول اللہ گنہ بر سر بلا بارد دِلم دردِ ہوا دارد کہ داند جز تو در مانم اغثنی یا رسول اللہ گنہ بر سر بلا بارد دلم دردِ ہوا دارد کہ داند جز تو در مانم اغثنی یا رسول اللہ اگر رانی وگر خوانی غلامم انت سُلطانی دگر چیزے نمیدانم اغثنی یا رسول اللہ بکہف رحمتم پرور زقطمیرم منہ کم تر سگِ درگاہِ سلطانم اغثنی یا رسول اللہ گنہ درجانم آرتش زد قیامت شعلہ می خیزد مدد اے آب حیو انم اغثنی یا رسول اللہ چو مرگم نخل جاں سوزد بہارم راخزاں سوزد نہ ریزد برگ ایمانم اغثنی یا رسول اللہ چو محشر فتنہ انگیزد بلائے بے اماں خیزد بجویم از تو در مانم اغثنی یا رسول اللہ پدر رانفرتے آید پسر راوحشت افزاید توگیری زیر دامانم اغثنی یا رسول اللہ عزیزاں گشتہ دور ازمن ہمہ یاراں نفورا زمن دریں وحشت ترا خوانم اغثنی یا رسول اللہ گدائے آمد اے سلطان بامید کرم نالاں تہی داماں مگر دانم اغثنی یا رسول اللہ اگرمی رانیم از در بمن بنمادرے دیگر کجا نالم کِرا خوانم اغثنی یا رسول اللہ گرفتارم رہائی دِہ مسیحا مومیائی دِہ شکستم رنگ سامانم اغثنی یا رسول اللہ رضؔایت سائل بے پر توئی سلطان لَاتَنْہَرْ شہا بہرے ازیں خوانم اغثنی یا رسول اللہ حدائق ِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا
سر سوئے روضہ جھکا پھر تجھ کو کیا دل تھا ساجد نجدیا پھر تجھ کو کیا بیٹھتے اٹھتے مدد کے واسطے یارسول اللہ کہا پھر تجھ کو کیا یا غرض سے چھُٹ کے محض ذکر کو نام پاک اُن کا جپا پھر تجھ کو کیا بے خودی میں سجدۂ دریا طواف جو کیا اچھا کیا پھر تجھ کو کیا ان کو تملیک ملیک الملک سے مالکِ عالم کہا پھر تجھ کو کیا ان کے نام پاک پر دل جان و مال نجدیا سب تج دیا پھر تجھ کو کیا یٰعبادی کہہ کے ہم کو شاہ نے اپنا بندہ کرلیا پھر تجھ کو کیا دیو کے بندوں سے کب ہے یہ خطاب تو نہ اُں کا ہے نہ تھا پھر تجھ کو کیا لَایَعُوْ دُوْن آگے ہوگا بھی نہیں تو الگ ہے دائما پھر تجھ کو کیا دشتِ گردو پیش طیبہ کا ادب مکہ ساتھا یا سوا پھر تجھ کو کیا دیو تجھ سے خوش ہے پھر ہم کیا کریں ہم سے راضی ہےخُدا پھر تجھ کو کیا دیو کے بندوں سے ہم کو کیا غرض ہم ہیں عبد مصطفیٰ پھر تجھ کو کیا تیری دوزخ سے تو کچھ چھینا نہیں خلد میں پہنچا رضؔا پھر تجھ کو کیا حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- ذرّے جھڑ کر تیری پیزاروں کے
ذرّے جھڑ کر تیری پیزاروں کے تاجِ سر بنتے ہیں سیّاروں کے ہم سے چوروں پہ جو فرمائیں کرم خلعتِ زر بنیں پشتاروں کے میرے آقا کا وہ در ہے جس پر ماتھے گھِس جاتے ہیں سرداروں کے میرے عیسیٰ تِرے صدقے جاؤں طور بے طور ہیں بیماروں کے مجرمو! چشمِ تبسم رکھو پھول بن جاتے ہیں انگاروں کے تیرے ابرو کے تصدق پیارے بند کرّے ہیں گرفتاروں کے جان و دل تیرے قدموں پر وارے کیا نصیبے ہیں ترے یاروں کے صدق و عدل و کرم و ہمت میں چار سو شُہرے ہیں اِن چاروں کے بہر تسلیم علی میداں میں سرجھکے رہتے ہیں تلواروں کے کیسے آقاؤں کا بندا ہوں رضؔا بول بالے مِری سرکاروں کے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- ایمان ہے قالِ مصطفائی
ایمان ہے قالِ مصطفائی قرآن ہے حالِ مصطفائی اللہ کی سلطنت کا دولھا نقشِ تِمثالِ مصطفائی کُل سے بالا رسل سے اعلیٰ اجلال و جلال مصطفائی اصحاب نجومِ رہنما ہیں کشتی ہے آل مصطفائی اد بار سے تو مجھے بچالے پیارے اقبال مصطفائی مرسل مشتاقِ حق ہیں اور حق مشتاق وصال مصطفائی خواہان وصالِ کبریا ہیں جویان جمال مصطفائی محبوب و محب کی ملک ہے ایک کونین ہیں مال مصطفائی اللہ نہ چھوتے دست دل سے دامانِ خیال مصطفائی ہیں تیرے سپرد سب امیدیں اے جودو نوال مصطفائی روشن کر قبر بیکسوں کی اے شمع جمال مصطفائی اندھیرے ہے بے ترے مرا گھر اے شمع جمال مصطفائی مجھ کو شب غم ڈرا رہی ہے اے شمع جمال مصطفائی آنکھوں میں چمک کے دل میں اجا اے شمع جمال مصطفائی میری شب تار دن بنادے اے شمع جمال مصطفائی چمکا دے نصیب بد نصیباں اے شمع جمال مصطفائی قزاق ہیں سر پہ راہ گم ہے اے شمع جمال مصطفائی چھایا آنکھوں تلے اندھیرا اے شمع جمال مصطفائی دل سرد ہے اپنی لو لگادے اے شمع جمال مصطفائی گھنگھنور گھٹائیں غم کی چھائیں اے شمع جمال مصطفائی بھٹکا ہوں تو راستہ بتاجا اے شمع جمال مصطفائی فریاد دباتی ہے سیاہی اے شمع جمال مصطفائی میرے دل مردہ کو جلادے اے شمع جمال مصطفائی آنکھیں تری راہ تک رہی ہیں اے شمع جمال مصطفائی دکھ میں ہیں اندھیری رات والے اے شمع جمال مصطفائی تاریک ہے رات غمزدوں کی اے شمع جمال مصطفائی ہو دونوں جہاں میں منھ اجالا اے شمع جمال مصطفائی تاریکی گور سے بچانا اے شمع جمال مصطفائی پُر نور ہے تجھ سے بزمِ عالم اے شمع جمال مصطفائی ہم تیرہ دلوں پہ بھی کرم اے شمع جمال مصطفائی للہ اِدھر بھی کوئی پھیرا اے شمع جمال مصطفائی تقدیر چمک اٹھے رضؔا کی اے شمع جمال مصطفائی حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- نظر اِک چمن سے دو چار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے
نظر اِک چمن سے دو چار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے عجب اُس کے گل کی بہار ہے کہ بہار بلبلِ زار ہے نہ دلِ بشر ہی فگار ہے کہ مَلک بھی اس کا شکار ہے یہ جہاں کہ ہَژدہ ہزار ہےجسے دیکھو اس کا ہزار ہے نہیں سر کہ سجدہ کُناں نہ ہو نہ زباں کہ زمزمہ خواں نہ ہو نہ وہ دل کہ اس پہ تپاں نہ ہو نہ وہ سینہ جس کو قرار ہے وہ ہے بھینی بھینی وہاں مہک کہ بسا ہے عرش سے فرش تک وہ ہے پیاری پیاری وہاں چمک کہ وہاں کی شب بھی نہار ہے کوئی اور پھول کہاں کھلے نہ جگہ ہے جوششِ حُسن سے نہ بہار اور پہ رخ کرے کہ جھپک پلک کی تو خار ہے یہ سَمَن یہ سوسَن و یاسمن یہ بنفشہ سنبل و نَستَرن گل و سَرو و لالہ بھرا چمن وہی ایک جلوہ ہزار ہے یہ صبا سنک وہ کلی چٹک یہ زباں چہک لبِ جُو چھلک یہ مہک جھلک یہ چمک دمک سب اسی کے دم کی بہار ہے وہی جلوہ شہر بہ شہر ہے وہی اصلِ عالَم و دَہر ہے وہی بحر ہے وہی لہر ہے وہی پاٹ ہے وہی دھار ہے وہ نہ تھا تو باغ میں کچھ نہ تھا وہ نہ ہو تو باغ ہو سب فنا وہ ہے جان، جان سے ہے بقا وہی بُن ہے بن سے ہی بار ہے یہ ادب کہ بلبلِ بے نوا کبھی کُھل کے کر نہ سکے نوا نہ صبا کو تیز روش روا نہ چھلکتی نہروں کی دھار ہے بہ ادب جھکا لو سَرِ وِلا کہ میں نام لوں گل و باغ کا گلِ تر محمدِ مصطفیٰ چمن اُن کا پاک دِیار ہے وہی آنکھ اُن کا جو منھ تکے وہی لب کہ محو ہوں نعت کے وہی سر جو اُن کے لیے جھکے وہی دل جو اُن پہ نثار ہے یہ کسی کا حسن ہے جلوہ گر کہ تپاں ہیں خوبوں کے دل جگر نہیں چاک جَیبِ گل و سحر کہ قمر بھی سینہ فگار ہے وہی نذرِ شہ میں زرِ نکو جو ہو اُن کے عشق میں زرد رُو گُلِ خلد اس سے ہو رنگ جو یہ خزاں وہ تازہ بہار ہے جسے تیری صَفِّ نِعال سے ملے دو نوالے نَوال سے وہ بنا کہ اس کے اگال سے بھری سلطنت کا اُدھار ہے وہ اٹھیں چمک کے تجلیاں مٹا دیں سب کی تَعلیاں دل و جاں کو بخشیں تسلیاں تِرا نور بارِد و حار ہے رُسُل و مَلک پہ دُرود ہو وہی جانے اُن کے شمار کو مگر ایک ایسا دکھا تو دو جو شفیعِ روزِ شمار ہے نہ حجاب چرخ و مسیح پر نہ کلیم و طور نہاں مگر جو گیا ہے عرش سے بھی اُدھر وہ عرب کا ناقہ سوار ہے وہ تِری تَجلّیِ دل نشیں کہ جھلک رہے ہیں فلک زمیں تِرے صدقے میرے مہِ مبیں مِری رات کیوں ابھی تار ہے مِری ظلمتیں ہیں ستم مگر تِرا مہ نہ مہر کہ مہر گر اگر ایک چھینٹ پڑے ادھر شبِ داج ابھی تو نہار ہے گنہِ رضؔا کاحساب کیا وہ اگرچہ لاکھوں سے ہیں سوا مگر اے عَفُوّ تِرے عَفْو کا نہ حساب ہے نہ شمار ہے تِرے دینِ پاک کی وہ ضیا کہ چمک اٹھی رہِ اصطفا جو نہ مانے آپ سقر گیا کہیں نور ہے کہیں نار ہے کوئی جان بس کے مہک رہی کسی دل میں اس سے کھٹک رہی نہیں اس کے جلوے میں یک رہی کہیں پھول ہے کہیں خار ہے وہ جسے وہابیہ نے دیا ہے لقب شہید و ذبیح کا وہ شہیدِ لیلیِ نجد تھا وہ ذبیحِ تیغِ خِیار ہے یہ ہے دیں کی تقویت اُس کے گھر، یہ ہے مستقیم صراطِ شر جو شقی کے دل میں ہے گاؤ خر تو زباں پہ چوڑھا چمار ہے وہ حبیب پیارا تو عمر بھر کرے فیض و جُود ہی سر بہ سر ارے تجھ کو کھائے تپِ سقرِ تِرے دل میں کس سے بخار ہے وہ رضؔا کے نیزے کی مار ہے کہ عَدو کے سینے میں غار ہے کسے چارہ جوئی کا وار ہے کہ یہ وار وار سے پار ہے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- زمین و زماں تمھارے لیے مکین و مکاں تمھارے لیے
زمین و زماں تمھارے لیے مکین و مکاں تمھارے لیے چنیں و چناں تمھارے لیے بنے دو جہاں تمھارے لیے دہن میں زباں تمھارے لیے بدن میں ہے جاں تمھارے لیے ہم آئے یہاں تمھارے لیے اٹھیں بھی وہاں تمھارے لیے فرشتے خِدَم رسولِ حِشم تمامِ اُمَم غُلامِ کرم وُجود و عَدم حُدوث وقِدم جہاں میں عیاں تمھارے لیے کلیم و نجی، مسیح و صفی، خلیل و رضی، رسول و نبی عتیق و وصی، غنی و علی؛ ثنا کی زباں تمھارے لیے اِصالتِ کُل، اِمامتِ کُل، سِیادتِ کُل، اِمارتِ کُل حکومتِ کُل، وِلایتِ کُل؛ خدا کے یہاں تمھارے لیے تمھاری چمک، تمھاری دمک، تمھاری مہک زمین و فلک، سِماک و سمک میں سکّہ نشاں تمھارے لیے وہ کنزِ نہاں، یہ نورِ فَشاں، وہ کُنْ سے عیاں یہ بزمِ فکاں یہ ہر تن و جاں، یہ باغِ جناں، یہ سارا سماں تمھارے لیے ظہورِ نہاں، قیامِ جہاں، رکوعِ مہاں، سجودِ شہاں نیازیں یہاں، نمازیں وہاں، یہ کس لیے ہاں تمھارے لیے یہ شمس و قمر، یہ شام وسحر، یہ برگ و شجر ، یہ باغ و ثمر یہ تیغ و سپر، یہ تاج و کمر، یہ حکم رواں تمھارے لیے یہ فیض دیے وہ جود کیے کہ نام لیے زمانہ جیے جہاں نے لیے تمھارے دیے یہ اَکرمیاں تمھارے لیے سَحابِ کرم روانہ کیے کہ آبِ نِعَم زمانہ پیے جو رکھتے تھے ہم وہ چاک سیے یہ سترِ بداں تمھارے لیے ثنا کا نشاں وہ نور فشاں کہ مہروَشاں بآں ہمہ شاں بسایہ کَشاں مَواکِبِ شاں یہ نام و نشاں تمھارے لیے عطائے اَرَب جلائے کَرب فُیوضِ عجب بغیرِ طلب یہ رحمتِ رب ہے کس کے سبب بَربِّ جہاں تمھارے لیے ذُنوب فنا عُیوب ہبا قلوب صفا خطوب روا یہ خوب عطا کُروب زُوا پئے دل و جاں تمھارے لیے نہ جنّ و بشر کہ آٹھوں پہر ملائکہ در پہ بستہ کمر نہ جبہ و سر کہ قلب و جگر ہیں سجدہ کناں تمھارے لیے نہ روحِ امیں نہ عرشِ بریں نہ لوحِ مبیں کوئی بھی کہیں خبر ہی نہیں جو رمزیں کھلیں ازل کی نہاں تمھارے لیے جناں میں چمن، چمن میں سمن، سمن میں پھبن، پھبن میں دُلھن سزائے مِحَن پہ ایسے مِنَن یہ امن و اماں تمھارے لیے کمالِ مہاں جلالِ شہاں جمالِ حساں میں تم ہو عیاں کہ سارے جہاں میں روزِ فکاں ظل آئینہ ساں تمھارے لیے یہ طور کجا سپہر تو کیا کہ عرشِ عُلا بھی دور رہا جہت سے ورا وصال مِلا یہ رفعتِ شاں تمھارے لیے خلیل و نجی، مسیح و صفی سبھی سے کہی کہیں بھی بنی یہ بے خبری کہ خَلق پھری کہاں سے کہاں تمھارے لیے بَفَورِ صدا سماں یہ بندھا یہ سدرہ اٹھا وہ عرش جھکا صُفوفِ سما نے سجدہ کیا ہوئی جو اذاں تمھارے لیے یہ مرحمتیں کہ کچی متیں نہ چھوڑیں لَتیں نہ اپنی گتیں قصور کریں اور ان سے بھریں قصورِ جناں تمھارے لیے فنا بدرت بقا ببرت زِ ہر دو جہت بگردِ سَرت ہے مرکزیت تمھاری صفت کہ دونوں کماں تمھارے لیے اشارے سے چاند چیر دیا چھپے ہوئے خور کو پھیر لیا گئے ہوئے دن کو عصر کیا یہ تاب و تواں تمھارے لیے صباہ وہ چلے کہ باغ پھلے وہ پھول کھلے کہ دن ہوں بھلے لِوا کے تلے ثنا میں کھلے رضؔا کی زباں تمھارے لیے حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش
- مصطفیٰ خیرُ الوریٰ ہو
مصطفیٰ خیرُ الوریٰ ہو سَرورِ ہر دو سَرا ہو اپنے اچھوں کا تَصَدُّق ہم بدوں کو بھی نباہو کس کے پھر ہوکر رہیں ہم گر تمھیں ہم کو نہ چاہو بَد ہنسیں تم اُن کی خاطر رات بھر رو و کراہو بد کریں ہر دم بُرائی تم کہو اُن کا بھلا ہو ہم وہی ناشستہ رُو ہیں تم وہی بحرِ عطا ہو ہم وہی شایانِ رد ہیں تم وہی شانِ سخا ہو ہم وہی بے شرم و بد ہیں تم وہی کانِ حیا ہو ہم وہی ننگِ جفا ہیں تم وہی جانِ وفا ہو ہم وہی قابل سزا کے تم وہی رحمِ خدا ہو چرخ بدلے دہر بدلے تم بدلنے سے ورا ہو اب ہمیں ہوں سہو حاشا ایسی بھولوں سے جُدا ہو عمر بھر تو یاد رکھا وقت پر کیا بھولنا ہو وقتِ پیدائش نہ بھولے کَیْفَ نَیْسٰی کیوں قضا ہو یہ بھی مولیٰ عرض کر دوں بھول اگر جاؤ تو کیا ہو وہ ہو جو تم پر گراں ہے وہ ہو جو ہر گز نہ چاہو وہ ہو جس کا نام لیتے دشمنوں کا دل بُرا ہو وہ ہو جس کے رد کی خاطر رات دن وقفِ دُعا ہو مر مٹیں برباد بندے خانہ آباد آگ کا ہو شاد ہو ابلیسِ ملعوں غم کسے اِس قہر کا ہو تم کو ہو وَاللہ! تم کو جان و دل تم پر فدا ہو تم کو غم سے حق بچائے غم عَدُوّ کو جاں گَزا ہو تم سے غم کو کیا تعلّق بے کسوں کے غم زِدا ہو حق دُرودیں تم پہ بھیجے تم مُدام اُس کو سراہو وہ عطا دے تم عطا لو وہ وہی چاہے جو چاہو بر تو او پاشَد تو بر ما تا ابد یہ سلسلہ ہو کیوں رضؔا مشکل سے ڈریے جب نبی مشکل کُشا ہو حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش