top of page
Naat Academy Naat Lyrics Naat Channel-Naat-Lyrics-Islamic-Poetry-Naat-Education-Sufism.png

نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے

1338 items found for ""

  • ہم نے تقصیر کی عادت کر لی

    ہم نے تقصیر کی عادت کر لی آپ اپنے پہ قیامت کر لی میں چلا ہی تھا مجھے روک لیا مرے اﷲ نے رحمت کر لی ذکر شہ سن کے ہوئے بزم میں محو ہم نے جلوت میں بھی خلوت کر لی نارِ دوزخ سے بچایا مجھ کو مرے پیارے بڑی رحمت کر لی بال بیکا نہ ہوا پھر اُس کا آپ نے جس کی حمایت کر لی رکھ دیا سر قدمِ جاناں پر اپنے بچنے کی یہ صورت کر لی نعمتیں ہم کو کھلائیں اور آپ جو کی روٹی پہ قناعت کر لی اُس سے فردوس کی صورت پوچھو جس نے طیبہ کی زیارت کر لی شانِ رحمت کے تصدق جاؤں مجھ سے عاصی کی حمایت کر لی فاقہ مستوں کو شکم سیر کیا آپ فاقہ پہ قناعت کر لی اے حسنؔ کام کا کچھ کام کیا یا یوہیں ختم پہ رُخصت کر لی ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • کیا خداداد آپ کی اِمداد ہے

    کیا خداداد آپ کی اِمداد ہے اک نظر میں شاد ہر ناشاد ہے مصطفےٰ تو برسرِ اِمداد ہے عفو تو کہہ کیا ترا اِرشاد ہے بن پڑی ہے نفس کافر کیش کی کھیل بگڑا لو خبر فریاد ہے اس قدر ہم اُن کو بھولے ہائے ہائے ہر گھڑی جن کو ہماری یاد ہے نفسِ امارہ کے ہاتھوں اے حضور داد ہے بیداد ہے فریاد ہے پھر چلی بادِ مخالف لو خبر ناؤ پھر چکرا گئی فریاد ہے کھیل بگڑا ناؤ ٹوٹی میں چلا اے مرے والی بچا فریاد ہے رات اندھیری میں اکیلا یہ گھٹا اے قمر ہو جلوہ گر فریاد ہے عہد جو اُن سے کیا روزِ اَلست کیوں دلِ غافل تجھے کچھ یاد ہے میں ہوں میں ہوں اپنی اُمت کے لیے کیا ہی پیارا پیارا یہ اِرشاد ہے وہ شفاعت کو چلے ہیں پیشِ حق عاصیو تم کو مبارک باد ہے کون سے دل میں نہیں یادِ حبیب قلبِ مومن مصطفےٰ آباد ہے جس کو اُس دَر کی غلامی مل گئی وہ غمِ کونین سے آزاد ہے جن کے ہم بندے وہی ٹھہرے شفیع پھر دلِ بیتاب کیوں ناشاد ہے اُن کے دَر پر گر کے پھر اُٹھا نہ جائے جان و دل قربان کیا اُفتاد ہے یہ عبادت زاہدو بے حُبِّ دوست مفت کی محنت ہے سب برباد ہے ہم صفیروں سے ملیں کیوں کر حسنؔ سخت دل اور سنگدل صیاد ہے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہے

    نہیں وہ صدمہ یہ دل کو کس کا خیالِ رحمت تھپک رہا ہے کہ آج رُک رُک کے خونِ دل کچھ مری مژہ سے ٹپک رہا ہے لیا نہ ہو جس نے اُن کا صدقہ ملا نہ ہو جس کو اُن کا باڑا نہ کوئی ایسا بشر ہے باقی نہ کوئی ایسا ملک رہا ہے کیا ہے حق نے کریم تم کو اِدھر بھی للہ نگاہ کر لو کہ دیر سے بینوا تمہارا تمہارے ہاتھوں کو تک رہا ہے ہے کس کے گیسوے مشک بو کی شمیم عنبر فشانیوں پر کہ جاے نغمہ صفیر بلبل سے مشکِ اَذفر ٹپک رہا ہے یہ کس کے رُوے نکو کے جلوے زمانے کو کر رہے ہیں روشن یہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے حسنؔ عجب کیا جو اُن کے رنگِ ملیح کی تہ ہے پیرہن پر کہ َرنگ پُر نور مہر گردوں کئی فلک سے چمک رہا ہے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے

    جان سے تنگ ہیں قیدی غمِ تنہائی کے صدقے جاؤں میں تری انجمن آرائی کے بزم آرا ہوں اُجالے تری زیبائی کے کب سے مشتاق ہیں آئینے خود آرائی کے ہو غبارِ درِ محبوب کہ گردِ رہِ دوست جزو اعظم ہیں یہی سرمۂ بینائی کے خاک ہو جائے اگر تیری تمناؤں میں کیوں ملیں خاک میں اَرمان تمنائی کے وَرَفَعْنَالَکَ ذِکْرَکَ کے چمکتے خورشید لامکاں تک ہیں اُجالے تری زیبائی کے دلِ مشتاق میں اَرمانِ لقا آنکھیں بند قابلِ دید ہیں انداز تمنائی کے لبِ جاں بخش کی کیا بات ہے سبحان اﷲ تم نے زندہ کیے اِعجاز مسیحائی کے اپنے دامن میں چھپائیں وہ مرے عیبوں کو اے زہے بخت مری ذلّت و رُسوائی کے دیکھنے والے خدا کے ہیں خدا شاہد ہے دیکھنے والے ترے جلوۂ زیبائی کے جب غبارِ رہِ محبوب نے عزت بخشی آئینے صاف ہوئے عینکِ بینائی کے بار سر پر ہے نقاہت سے گرا جاتا ہوں صدقے جاؤں ترے بازو کی توانائی کے عالم الغیب نے ہر غیب سے آگاہ کیا صدقے اس شان کی بینائی و دانائی کے دیکھنے والے تم ہو رات کی تاریکی میں کان میں سمع کے اور آنکھ میں بینائی کے عیبی نطفے ہیں وہ بے علم جنم کے اندھے جن کو انکار ہیں اس علم و شناسائی کے اے حسنؔ کعبہ ہی افضل سہی اِس دَر سے مگر ہم تو خوگر ہیں یہاں ناصیہ فرسائی کے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے

    پردے جس وقت اُٹھیں جلوۂ زیبائی کے وہ نگہبان رہیں چشمِ تمنائی کے دُھوم ہے فرش سے تا عرش تری شوکت کی خطبے ہوتے ہیں جہانبانی و دارائی کے حُسن رنگینی و طلعت سے تمہارے جلوے گل و آئینہ بنے محفل و زیبائی کے ذرّۂ دشتِ مدینہ کی ضیا مہر کرے اچھی ساعت سے پھریں دن شبِ تنہائی کے پیار سے لے لیے آغوش میں سر رحمت نے پائے انعام ترے دَر کی جبیں سائی کے لاشِ احباب اِسی دَر پر پڑی رہنے دیں کچھ تو ارمان نکل جائیں جبیں سائی کے جلو گر ہو جو کبھی چشمِ تمنائی میں پردے آنکھوں کے ہوں پردے تری زیبائی کے خاکِ پامال ہماری بھی پڑی ہے سرِ راہ صدقے اے رُوحِ رواں تیری مسیحائی کے کیوں نہ وہ ٹوٹے دلوں کے کھنڈر آباد کریں کہ دکھاتے ہیں کمال انجمن آرائی کے زینتوں سے ہیں حسینانِ جہاں کی زینت زینتیں پاتی ہیں صدقے تری زیبائی کے نام آقا ہوا جو لب سے غلاموں کے بلند بالا بالا گئے غم آفتِ بالائی کے عرش پہ کعبہ و فردوس و دلِ مومن میں شمع افروز ہیں اِکے تری یکتائی کے ترے محتاج نے پایا ہے وہ شاہانہ مزاج اُس کی گُدڑی کو بھی پیوند ہوں دارائی کے اپنے ذرّوں کے سیہ خانوں کو روشن کر دو مہر ہو تم فلکِ انجمن آرائی کے پورے سرکار سے چھوٹے بڑے اَرمان ہو سب اے حسنؔ میرے مرے چھوٹے بڑے بھائی کے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • تم ہو حسرت نکالنے والے

    تم ہو حسرت نکالنے والے نامرادوں کے پالنے والے میرے دشمن کو غم ہو بگڑی کا آپ ہیں جب سنبھالنے والے تم سے منہ مانگی آس ملتی ہے اور ہوتے ہیں ٹالنے والے لبِ جاں بخش سے جِلا دل کو جان مردے میں ڈالنے والے دستِ اقدس بجھا دے پیاس مری میرے چشمے اُبالنے والے ہیں ترے آستاں کے خاک نشیں تخت پر خاک ڈالنے والے روزِ محشر بنا دے بات مری ڈھلی بگڑی سنبھالنے والے بھیک دے بھیک اپنے منگتا کو اے غریبوں کے پالنے والے ختم کر دی ہے اُن پہ موزونی واہ سانچے میں ڈھالنے والے اُن کا بچپن بھی ہے جہاں پرور کہ وہ جب بھی تھے پالنے والے پار کر ناؤ ہم غریبوں کی ڈوبتوں کو نکالنے والے خاکِ طیبہ میں بے نشاں ہو جا اَرے او نام اچھالنے والے کام کے ہوں کہ ہم نکمّے ہوں وہ سبھی کے ہیں پالنے والے زنگ سے پاک صاف کر دل کو اندھے شیشے اُجالنے والے خارِ غم کا حسنؔ کو کھٹکا ہے دل سے کانٹا نکالنے والے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • ﷲ ﷲ شہِ کونین جلالت تیری

    ﷲ ﷲ شہِ کونین جلالت تیری فرش کیا عرش پہ جاری ہے حکومت تیری جھولیاں کھول کے بے سمجھے نہیں دوڑ آئے ہمیں معلوم ہے دولت تری عادت تیری تو ہی ہے مُلکِ خدا مِلک خدا کا مالک راج تیرا ہے زمانے میں حکومت تیری تیرے انداز یہ کہتے ہیں کہ خالق کو ترے سب حسینوں میں پسند آئی ہے صورت تیری اُس نے حق دیکھ لیا جس نے اِدھر دیکھ لیا کہہ رہی ہے یہ چمکتی ہوئی طلعت تیری بزم محشر کا نہ کیوں جائے بلاوا سب کو کہ زمانے کو دکھانی ہے وجاہت تیری عالم رُوح پہ ہے عالم اجسام کو ناز چوکھٹے میں ہے عناصر کے جو صورت تیری جن کے سر میں ہے ہوا دشتِ نبی کی رضواں اُن کے قدموں سے لگی پھرتی ہے جنت تیری تو وہ محبوب ہے اے راحتِ جاں دل کیسے ہیزمِ خشک کو تڑپا گئی فرقت تیری مہ و خورشید سے دن رات ضیا پاتے ہیں مہ و خورشید کو چمکاتی ہے طلعت تیری گٹھریاں بندھ گئی پر ہاتھ ترا بند نہیں بھر گئے دل نہ بھری دینے سے نیت تیری موت آ جائے مگر آئے نہ دل کو آرام دم نکل جائے مگر نکلے نہ اُلفت تیری دیکھنے والے کہا کرتے ہیں اﷲ اﷲ یاد آتا ہے خدا دیکھ کے صورت تیری مجمعِ حشر میں گھبرائی ہوئی پھرتی ہے ڈھونڈنے نکلی ہے مجرم کو شفاعت تیری نہ ابھی عرصۂ محشر نہ حسابِ اُمت آج ہی سے ہے کمر بستہ حمایت تیری تو کچھ ایسا ہے کہ محشر کی مصیبت والے درد دُکھ بھول گئے دیکھ کے صورت تیری ٹوپیاں تھام کے گر عرشِ بریں کو دیکھیں اُونچے اُونچوں کو نظر آئے نہ رفعت تیری حُسن ہے جس کا نمک خوار وہ عالم تیرا جس کو اﷲ کرے پیار وہ صورت تیری دونوں عالم کے سب ارمان نکالے تو نے نکلی اِس شانِ کرم پر بھی نہ حسرت تیری چین پائیں گے تڑپتے ہوئے دل محشر میں غم کسے یاد رہے دیکھ کے صورت تیری ہم نے مانا کہ گناہوں کی نہیں حد لیکن تو ہے اُن کا تو حسنؔ تیری ہے جنت تیری ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے

    باغِ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے کیا مدینہ پہ فدا ہو کے بہار آئی ہے اُن کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے اُن کے اَبرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے ناخنوں میں ترے اِعجازِ مسیحائی ہے سر بالیں اُنھیں رحمت کی اَدا لائی ہے حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے جانِ گفتار تو رفتار ہوئی رُوحِ رواں دم قدم سے ترے اِعجازِ مسیحائی ہے جس کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال اے حسیں تیری اَدا اُس کو پسند آئی ہے تیرے جلوؤں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے سر سے پا تک تری صورت پہ تصدق ہے جمال اُس کو موزونیِ اَعضا یہ پسند آئی ہے تیرے قدموں کا تبرک یدِ بیضاے کلیم تیرے ہاتھوں کا دیا فضلِ مسیحائی ہے دردِ دل کس کو سناؤں میں تمہارے ہوتے بے کسوں کی اِسی سرکار میں سنوائی ہے آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں آپ کی خاکِ قدم سرمۂ بینائی ہے ناتوانی کا اَلم ہم ضعفا کو کیا ہو ہاتھ پکڑے ہوئے مولا کی توانائی ہے جان دی تو نے مسیحا و مسیحائی کو تو ہی تو جانِ مسیحا و مسیحائی ہے چشم بے خواب کے صدقے میں ہیں بیدار نصیب آپ جاگے تو ہمیں چین کی نیند آئی ہے باغِ فردوس کھلا فرش بچھا عرش سجا اِک ترے دم کی یہ سب انجمن آرائی ہے کھیت سر سبز ہوئے پھول کھلے میل دُھلے اور پھر فضل کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتا میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے نااُمیدو تمھیں مژدہ کہ خدا کی رحمت اُنھیں محشر میں تمہارے ہی لیے لائی ہے فرش سے عرش تک اک دُھوم ہے اﷲ اﷲ اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے اے حسنؔ حُسنِ جہاں تاب کے صدقے جاؤں ذرّے ذرّے سے عیاں جلوۂ زیبائی ہے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے

    سحر چمکی جمالِ فصلِ گل آرائشوں پر ہے نسیمِ روح پرور سے مشامِ جاں معطر ہے قریب طیبہ بخشے ہیں تصور نے مزے کیا کیا مرا دل ہے مدینہ میں مدینہ دل کے اندر ہے ملائک سر جہاں اپنا جھجکتے ڈرتے رکھتے ہیں قدم اُن کے گنہگاروں کا ایسی سر زمیں پر ہے ارے او سونے والے دِل ارے اوسونے والے دِل سحر ہے جاگ غافل دیکھ تو عالم منور ہے سہانی طرز کی طلعت نرالی رنگ کی نکہت نسیمِ صبح سے مہکا ہوا پُر نور منظر ہے تعالیٰ اﷲ یہ شادابی یہ رنگینی تعالیٰ اﷲ بہارِ ہشت جنت دشتِ طیبہ پر نچھاور ہے ہوائیں آ رہی ہیں کوچۂ پُر نورِ جاناں کی کھلی جاتی ہیں کلیاں تازگی دل کو میسر ہے منور چشمِ زائر ہے جمالِ عرشِ اعظم سے نظر میں سبز قُبّہ کی تجلی جلوہ گستر ہے یہ رفعت درگہِ عرش آستاں کے قرب سے پائی کہ ہر ہر سانس ہر ہر گام پر معراجِ دیگر ہے محرم کی نویں تاریخ بارہ منزلیں کر کے وہاں پہنچے وہ گھر دیکھا جو گھر اﷲ کا گھرہے نہ پوچھو ہم کہاں پہنچے اور اِن آنکھوں نے کیا دیکھا جہاں پہنچے وہاں پہنچے جو دیکھا دل کے اندر ہے ہزاروں بے نواؤں کے ہیں جمگھٹ آستانہ پر طلب دل میں صداے یا رسول اﷲ لب پر ہے لکھا ہے خامۂ رحمت نے دَر پر خط قدرت سے جسے یہ آستانہ مل گیا سب کچھ میسر ہے خدا ہے اس کا مالک یہ خدائی بھر کا مالک ہے خدا ہے اس کا مولیٰ یہ خدائی بھر کا سرور ہے زمانہ اس کے قابو میں زمانے والے قابو میں یہ ہر دفتر کا حاکم ہے یہ ہر حاکم کا افسر ہے عطا کے ساتھ ہے مختار رحمت کے خزانوں کا خدائی پر ہے قابو بس خدائی اس سے باہرہے کرم کے جوش ہیں بذل و نعم کے دَور دَورے ہیں عطاے با نوا ہر بے نوا سے شیر و شکر ہے کوئی لپٹا ہے فرطِ شوق میں روضے کی جالی سے کوئی گردن جھکائے رُعب سے با دیدۂ تر ہے کوئی مشغولِ عرض حال ہے یوں شادماں ہو کر کہ یہ سب سے بڑی سرکار ہے تقدیر یاور ہے کمینہ بندۂ دَر عرض کرتا ہے حضوری میں جو موروثی یہاں کا مدح گستر ہے ثنا گر ہے تری رحمت کے صدقے یہ تری رحمت کا صدقہ تھا کہ اِن ناپاک آنکھوں کو یہ نظارہ میسر ہے ذلیلوں کی تو کیا گنتی سلاطینِ زمانہ کو تری سرکار عالی ہے ترا دربار برتر ہے تری دولت تری ثروت تری شوکت جلالت کا نہ ہے کوئی زمیں پر اور نہ کوئی آسماں پر ہے مطاف و کعبہ کا عالم دکھایا تو نے طیبہ میں ترا گھر بیچ میں چاروں طرف اﷲ کا گھر ہے تجلی پر تری صدقے ہے مہر و ماہ کی تابش پسینے پر ترے قربان رُوحِ مشک و عنبر ہے غم و افسوس کا دافع اشارہ پیاری آنکھوں کا دل مایوس کی حامی نگاہِ بندہ پرور ہے جو سب اچھوں میں ہے اچھا جو ہر بہتر سے بہتر ہے ترے صدقے سے اچھا ہے ترے صدقے میں بہتر ہے رکھوں میں حاضری کی شرم ان اعمال پر کیونکر مرے امکان سے باہر مری قدرت سے باہر ہے اگر شانِ کرم کو لاج ہو میرے بُلانے کی تو میری حاضری دونوں جہاں میں میری یاور ہے مجھے کیا ہو گیا ہے کیوں میں ایسی باتیں کرتا ہوں یہاں بھی یاس و محرومی یہ کیوں کر ہو یہ کیوں کرہے بُلا کر اپنے کُتّے کو نہ دیں چمکار کر ٹکڑا پھر اس شانِ کرم پر فہم سے یہ بات باہر ہے تذبذب مغفرت میں کیوں رہے اِس دَر کے زائر کو کہ یہ درگاہِ والا رحمتِ خالص کا منظرہے مبارک ہو حسنؔ سب آرزوئیں ہو گئیں پوری اب اُن کے صدقے میں عیشِ ابد تجھ کو میسر ہے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا

    واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا فیض ہے یا شہِ تسنیم نرالا تیرا آپ پیاسوں کے تجسّس میں ہے دریا تیرا اَغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا اَصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا فرش والے تِری شوکت کا عُلو کیا جانیں خسروا! عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا آسماں خوان، زمیں خوان، زمانہ مہمان صاحبِ خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنوئیں کا پیاسا خود بجھا جائے کلیجا مِرا چھینٹا تیرا چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یاں اس کے خلاف تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا دل عبث خوف سے پتا سا اڑا جاتا ہے پلّہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکمّا تیرا تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا خوار و بیمار و خطاوار و گنہ گار ہوں میں رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا میری تقدیر بُری ہو تو بھلی کر دے کہ ہے محو و اِثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا تو جو چاہے تو ابھی میل مِرے دل کے دھلیں کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا کس کا منہ تکیے کہاں جائیے کس سے کہیے تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا تو نے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیّہ تیرا مَوت سنتا ہوں سِتم تلخ ہے زہرابۂ ناب کون لا دے مجھے تلووں کا غُسالہ تیرا دور کیا جانیے بد کار پہ کیسی گزرے تیرے ہی در پہ مَرے بے کس و تنہا تیرا تیرے صدقے مجھے اِک بوند بہت ہے تیری جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا حرم و طیبہ و بغداد جدھر کیجے نگاہ جوت پڑتی ہے تِری نور ہے چھنتا تیرا تیری سرکار میں لاتا ہے رؔضا اس کو شفیع جو مِرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شد پیدا جانا

    لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ مثلِ تو نہ شد پیدا جانا جگ راج کو تاج تو رے سر سو ہے تجھ کو شہِ دو سَرا جانا اَلْبَحْرُ عَلَا وَالْمَوْجُ طَغٰے من بے کس و طوفاں ہوشربا منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیا پار لگا جانا یَا شَمْسُ نَظَرْتِ اِلٰی لَیْلِیْ چو بطیبہ رسی عرضے بکنی توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی مِری شب نے نہ دن ہونا جانا لَکَ بَدْرٌ فِی الْوَجْہِ الْاَجْمَلْ خط ہالۂ مہ زلف ابرِ اجل تورے چندن چندر پرو کنڈل رحمت کی بھرن برسا جانا اَنَا فِیْ عَطَشٍ وَّسَخَاکَ اَتَمّ اے گیسوئے پاک اے ابرِ کرم برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند اِدھر بھی گرا جانا یَا قَافِلَتِیْ زِیْدِیْٓ اَجَلَکْ رحمے بر حسرتِ تشنہ لبک مورا جیرا لرجے درک درک طیبہ سے ابھی نہ سنا جانا وَاھًا لِّسُوَیْعَاتٍ ذَھَبَتْ آں عہدِ حضورِ بارگہت جب یاد آوت موہے کر نہ پرت دردا وہ مدینے کا جانا اَلْقَلْبُ شَحٍ وَّالْھَمُّ شُجُوْں دل زار چناں جاں زیر چنوں پت اپنی بپت میں کاسے کہوں مورا کون ہے تیرے سوا جانا اَلرُّوْحُ فِدَاکَ فَزِدْ حَرْقَا یک شعلہ دگر بر زن عشقا مورا تن من دھن سب پھونک دیا یہ جان بھی پیارے جلا جانا بس خامۂ خامِ نوائے رضاؔ نہ یہ طرز مِری نہ یہ رنگ مِرا ارشادِ اَحِبّا ناطق تھا ناچار اِس راہ پڑا جانا حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

  • غم ہوگئے بے شمار آقا

    غم ہوگئے بے شمار آقا بندہ تیرے نثار آقا بگڑا جاتا ہے کھیل میرا آقا آقا سنوار آقا منجدھار پہ آ کے ناؤ ٹوٹی دے ہاتھ کہ ہوں میں پار آقا ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میری لِلّٰہ یہ بوجھ اتار آقا ہلکا ہے اگر ہمارا پلّہ بھاری ہے تِرا وقار آقا مجبور ہیں ہم تو فکر کیا ہے تم کو تو ہے اختیار آقا میں دور ہوں تم تو ہو مِرے پاس سن لو میری پکار آقا مجھ سا کوئی غم زدہ نہ ہوگا تم سا نہیں غم گُسار آقا گرداب میں پڑ گئی ہے کشتی ڈوبا ڈوبا، اتار آقا تم وہ کہ کرم کو ناز تم سے میں وہ کہ بدی کو عار آقا پھر منھ نہ پڑے کبھی خزاں کا دے دے ایسی بہار آقا جس کی مرضی خدا نہ ٹالے میرا ہے وہ نام دار آقا ہے مُلکِ خدا پہ جس کا قبضہ میرا ہے وہ کام گار آقا سویا کیے نابکار بندے رویا کیے زار زار آقا کیا بھول ہے ان کے ہوتے کہلائیں دنیا کے یہ تاج دار آقا اُن کے ادنیٰ گدا پہ مٹ جائیں ایسے ایسے ہزار آقا بے ابرِ کرم کے میرے دھبّے لَا تَغْسِلُہَا الْبِحَار آقا اتنی رحمت رؔضا پہ کرلو لَا یَقْرُبُہُ الْبَوَار آقا حدائقِ بخشش #اعلیحضرتاماماحمدرضاخان #حدائقبخشش

bottom of page