نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
1338 items found for ""
- سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ
سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ کرم کا چشمۂ جاری ہے بارھویں تاریخ ہمیں تو جان سے پیاری ہے بارھویں تاریخ عدو کے دل کو کٹاری ہے بارھویں تاریخ اِسی نے موسمِ گل کو کیا ہے موسمِ گل بہارِ فصلِ بہاری ہے بارھویں تاریخ بنی ہے سُرمۂ چشمِ بصیرت و ایماں اُٹھی جو گردِ سواری ہے بارھویں تاریخ ہزار عید ہوں ایک ایک لحظہ پر قرباں خوشی دلوں پہ وہ طاری ہے بارھویں تاریخ فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے زمینِ خلد کی کیاری ہے بارھویں تاریخ تمام ہو گئی میلادِ انبیا کی خوشی ہمیشہ اب تری باری ہے بارھویں تاریخ دِلوں کے میل دُھلے گل کھلے ُسرور ملے عجیب چشمہ جاری ہے بارھویں تاریخ چڑھی ہے اَوج پہ تقدیر خاکساروں کی خدا نے جب سے اُتاری ہے بارھویں تاریخ خدا کے فضل سے ایمان میں ہیں ہم پورے کہ اپنی رُوح میں ساری ہے بارھویں تاریخ ولادتِ شہِ دیں ہر خوشی کی باعث ہے ہزار عید سے بھاری ہے بارھویں تاریخ ہمیشہ تو نے غلاموں کے دل کیے ٹھنڈے جلے جو تجھ سے وہ ناری ہے بارھویں تاریخ خوشی ہے اہلِ سنن میں مگر عدو کے یہاں فغان و شیون و زاری ہے بارھویں تاریخ جدھر گیا ، سنی آوازِ یَا رَسُولَ اللہ ہر اِک جگہ اُسے خواری ہے بارھویں تاریخ عدو ولادتِ شیطاں کے دن منائے خوشی کہ عید عید ہماری ہے بارھویں تاریخ حسنؔ ولادتِ سرکار سے ہوا روشن مرے خدا کو بھی پیاری ہے بارھویں تاریخ ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند
رنگ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند صحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو توُ پسند اپنا عزیز وہ ہے جسے تُو عزیز ہے ہم کو ہے وہ پسند جسے آئے تُو پسند مایوس ہو کے سب سے میں آیا ہوں تیرے پاس اے جان کر لے ٹوٹے ہوئے دل کو تو پسند ہیں خانہ زاد بندۂ احساں تو کیا عجب تیری وہ خُو ہے کرتے ہیں جس کو عدُو پسند کیوں کر نہ چاہیں تیری گلی میں ہوں مٹ کے خاک دنیا میں آج کس کو نہیں آبرو پسند ہے خاکسار پر کرمِ خاص کی نظر عاجز نواز ہے تیری خُو اے خوبرو پسند قُلْ کہہ کر اپنی بات بھی لب سے ترے سنی اﷲ کو ہے اِتنی تری گفتگو پسند حُورو فرشتہ جن و بشر سب نثار ہیں ہے دو جہاں میں قبضہ کیے چار سُو پسند اُن کے گناہگار کی اُمیدِ عفو کو پہلے کرے گی آیتِ لَا تَقْنَطُوْا پسند طیبہ میں سر جھکاتے ہیں خاکِ نیاز پر کونین کے بڑے سے بڑے آبرو پسند ہے خواہشِ وصالِ درِ یار اے حسنؔ آئے نہ کیوں اَثر کو مری آرزو پسند ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- ہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذ
ہو اگر مدحِ کفِ پا سے منور کاغذ عارضِ حور کی زینت ہو سراسر کاغذ صفتِ خارِ مدینہ میں کروں گل کاری دفترِ گل کا عنادِل سے منگا کر کاغذ عارضِ پاک کی تعریف ہو جس پرچے میں سو سیہ نامہ اُجالے وہ منور کاغذ شامِ طیبہ کی تجلّی کا کچھ اَحوال لکھوں دے بیاضِ سحر اک ایسا منور کاغذ یادِ محبوب میں کاغذ سے تو دل کم نہ رہے کہ جدا نقش سے ہوتا نہیں دَم بھر کاغذ ورقِ مہر اُسے خط غلامی لکھ دے ہو جو وصفِ رُخِ پُر نور سے انور کاغذ تیرے بندے ہیں طلبگار تری رحمت کے سن گناہوں کے نہ اے دَاورِ محشر کاغذ لَبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں ہو مجھے تارِ نفس ہر خَطِ مسطر کاغذ مدح رُخسار کے پھولوں میں بسا لوں جو حسنؔ حشر میں ہو مرے نامہ کا معطر کاغذ ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- مرحبا عزت و کمالِ حضور
مرحبا عزت و کمالِ حضور ہے جلالِ خدا جلالِ حضور اُن کے قدموں کی یاد میں مریے کیجیے دل کو پائمالِ حضور دشتِ ایمن ہے سینۂ مؤمن دل میں ہے جلوۂ خیالِ حضور آفرنیش کو ناز ہے جس پر ہے وہ انداز بے مثالِ حضور مَاہ کی جان مہر کا ایماں جلوۂ حُسنِ بے زوالِ حضور حُسنِ یوسف کرے زلیخائی خواب میں دیکھ کر جمالِ حضور وقفِ انجاح مقصدِ خدام ہر شب و روز و ماہ و سالِ حضور سکہ رائج ہے حکم جاری ہے دونوں عالم ہیں مُلک و مالِ حضور تابِ دیدار ہو کسے جو نہ ہو پردۂ غیب میں جمالِ حضور جو نہ آئی نظر نہ آئے نظر ہر نظر میں ہے وہ مثالِ حضور اُنھیں نقصان دے نہیں سکتا دشمن اپنا ہے بد سگالِ حضور دُرّۃ التاج فرقِ شاہی ہے ذرّۂ شوکتِ نعالِ حضور حال سے کشفِ رازِ قال نہ ہو قال سے کیا عیاں ہو حالِ حضور منزلِ رُشد کے نجوم اصحاب کشتیِ خیر و امنِ آلِ حضور ہے مسِ قلب کے لیے اکسیر اے حسنؔ خاکِ پائمالِ حضور ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر
سیر گلشن کون دیکھے دشتِ طیبہ چھوڑ کر سوے جنت کون جائے در تمہارا چھوڑ کر سر گزشتِ غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئے کس کے دَر پر جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر بے لقاے یار اُن کو چین آ جاتا اگر بار بار آتے نہ یوں جبریل سدرہ چھوڑ کر کون کہتا ہے دلِ بے مدعا ہے خوب چیز میں تو کوڑی کو نہ لوں اُن کی تمنا چھوڑ کر مر ہی جاؤں میں اگر اُس دَر سے جاؤں دو قدم کیا بچے بیمارِ غم قربِ مسیحا چھوڑ کر کس تمنا پر جئیں یا رب اَسیرانِ قفس آ چکی بادِ صبا باغِ مدینہ چھوڑ کر بخشوانا مجھ سے عاصی کا رَوا ہو گا کسے کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر خلد کیسا نفسِ سرکش جاؤں گا طیبہ کو میں بد چلن ہٹ کر کھڑا ہو مجھ سے رستہ چھوڑ کر ایسے جلوے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر حشر میں ایک ایک کا منہ تکتے پھرتے ہیں عدو آفتوں میں پھنس گئے اُن کا سہارا چھوڑ کر مرکے جیتے ہیں جو اُن کے دَر پہ جاتے ہیں حسنؔ جی کہ مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- جتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیز
جتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیز کونین میں کسی کو نہ ہو گا کوئی عزیز خاکِ مدینہ پر مجھے اﷲ موت دے وہ مردہ دل ہے جس کو نہ ہو زندگی عزیز کیوں جائیں ہم کہیں کہ غنی تم نے کر دیا اب تو یہ گھر پسند ، یہ دَر ، یہ گلی عزیز جو کچھ تری رِضا ہے خدا کی وہی خوشی جو کچھ تری خوشی ہے خدا کو وہی عزیز گو ہم نمک حرام نکمّے غلام ہیں قربان پھر بھی رکھتی ہے رحمت تری عزیز شانِ کرم کو اچھے بُرے سے غرض نہیں اُس کو سبھی پسند ہیں اُس کو سبھی عزیز منگتا کا ہاتھ اُٹھا تو مدینہ ہی کی طرف تیرا ہی دَر پسند، تری ہی گلی عزیز اُس دَر کی خاک پر مجھے مرنا پسند ہے تختِ شہی پہ کس کو نہیں زندگی عزیز کونین دے دیے ہیں ترے اِختیار میں اﷲ کو بھی کتنی ہے خاطر تری عزیز محشر میں دو جہاں کو خدا کی خوشی کی چاہ میرے حضور کی ہے خدا کو خوشی عزیز قرآن کھا رہا ہے اِسی خاک کی قسم ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز طیبہ کی خاک ہو کہ حیاتِ ابد ملے اے جاں بلب تجھے ہے اگر زندگی عزیز سنگِ ستم کے بعد دُعاے فلاح کی بندے تو بندے ہیں تمھیں ہیں مدعی عزیز دِل سے ذرا یہ کہہ دے کہ اُن کا غلام ہوں ہر دشمنِ خدا ہو خدا کو ابھی عزیز طیبہ کے ہوتے خلد بریں کیا کروں حسنؔ مجھ کو یہی پسند ہے ، مجھ کو یہی عزیز ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- ہوں جو یادِ رُخِ پُر نور میں مرغانِ قفس
ہوں جو یادِ رُخِ پُر نور میں مرغانِ قفس چمک اُٹھے چہِ یوسف کی طرح شانِ قفس کس بَلا میں ہیں گرفتارِ اسیرانِ قفس کل تھے مہمانِ چمن آج ہیں مہمانِ قفس حیف در چشمِ زدن صحبتِ یار آخر شد اب کہاں طیبہ وہی ہم وہی زندانِ قفس روے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد ہائے کیا قہر کیا اُلفتِ یارانِ قفس نوحہ گر کیوں نہ رہے مُرغِ خوش اِلحانِ چمن باغ سے دام ملا دام سے زِندانِ قفس پائیں صحراے مدینہ تو گلستاں مل جائے ہند ہے ہم کو قفس ہم ہیں اسیرانِ قفس زخمِ دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیم روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس قافلہ دیکھتے ہیں جب سوے طیبہ جاتے کیسی حسرت سے تڑپتے ہیں اسیرانِِ قفس تھا چمن ہی ہمیں زنداں کہ نہ تھا وہ گل تر قید پر قید ہوا اور یہ زِندانِ قفس دشتِ طیبہ میں ہمیں شکل وطن یاد آئی بد نصیبی سے ہوا باغ میں ارمانِ قفس اَب نہ آئیں گے اگر کھل گئی قسمت کی گرہ اب گرہ باندھ لیا ہم نے یہ پیمانِ قفس ہند کو کون مدینہ سے پلٹنا چاہے عیشِ گلزار بھلا دے جو نہ دورانِ قفس چہچہے کس گل خوبی کی ثنا میں ہیں حسنؔ نکہتِ خلد سے مہکا ہے جو زِندانِ قفس ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- خدا کی خلق میں سب انبیا خاص
خدا کی خلق میں سب انبیا خاص گروہِ انبیا میں مصطفےٰ خاص نرالا حُسنِ انداز و اَدا خاص تجھے خاصوں میں حق نے کر لیا خاص تری نعمت کے سائل خاص تا عام تری رحمت کے طالب عام تا خاص شریک اُس میں نہیں کوئی پیمبر خدا سے ہے تجھ کو واسطہ خاص گنہگارو! نہ ہو مایوسِ رحمت نہیں ہوتی کریموں کی عطا خاص گدا ہوں خاص رحمت سے ملے بھیک نہ میں خاص اور نہ میری اِلتجا خاص ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا تمھیں ہو مالکِ مُلکِ خدا خاص غریبوں بے نواؤں بے کسوں کو خدا نے در تمہارا کر دیا خاص جو کچھ پیدا ہوا دونوں جہاں میں تصدق ہے تمہاری ذات کا خاص تمہاری انجمن آرائیوں کو ہوا ہنگامۂ قَالُوْا بَلٰی خاص نبی ہم پایہ ہوں کیا تو نے پایا نبوت کی طرح ہر معجزہ خاص جو رکھتا ہے جمالِ مَنْ رَّاٰنِیْ اُسی منہ کی صفت ہے وَالضُّحٰی خاص نہ بھیجو اور دروازوں پر اِس کو حسنؔ ہے آپ کے در کا گدا خاص ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض
سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض یہ عرض ہے حضور بڑے بے نوا کی عرض اُن کے گدا کے دَر پہ ہے یوں بادشاہ کی عرض جیسے ہو بادشاہ کے دَر پہ گدا کی عرض عاجز نوازیوں پہ کرم ہے تُلا ہوا وہ دل لگا کے سنتے ہیں ہر بے نوا کی عرض قربان اُن کے نام کے بے اُن کے نام کے مقبول ہو نہ خاصِ جنابِ خدا کی عرض غم کی گھٹائیں چھائی ہیں مجھ تیرہ بخت پر اے مہر سن لے ذرّۂ بے دست و پا کی عرض اے بے کسوں کے حامی و یاور سوا ترے کس کو غرض ہے کون سنے مبتلا کی عرض اے کیمیاے دل میں ترے دَر کی خاک ہوں خاکِ دَر حضور سے ہے کیمیا کی عرض اُلجھن سے دُور نور سے معمور کر مجھے اے زُلفِ پاک ہے یہ اَسیرِ بلا کی عرض دُکھ میں رہے کوئی یہ گوارا نہیں اُنہیں مقبول کیوں نہ ہو دلِ درد آشنا کی عرض کیوں طول دوں حضور یہ دیں یہ عطا کریں خود جانتے ہیں آپ مرے مدعا کی عرض دَامن بھریں گے دولتِ فضلِ خدا سے ہم خالی کبھی گئی ہے حسنؔ مصطفےٰ کی عرض ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط
چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط رکھے خاکِ درِ دلدار سے ربط اُن کی نعمت کا طلبگار سے میل اُن کی رحمت کا گنہگار سے ربط دشتِ طیبہ کی جو دیکھ آئیں بہار ہو عنادِل کو نہ گلزار سے ربط یا خدا دل نہ ملے دُنیا سے نہ ہو آئینہ کو زنگار سے ربط نفس سے میل نہ کرنا اے دل قہر ہے ایسے ستم گار سے ربط دلِ نجدی میں ہو کیوں حُبِّ حضور ظلمتوں کو نہیں اَنوار سے ربط تلخیِ نزع سے اُس کو کیا کام ہو جسے لعل شکر بار سے ربط خاک طیبہ کی اگر مل جائے آپ صحت کرے بیمار سے ربط اُن کے دامانِ گہر بار کو ہے کاسۂ دوست طلبگار سے ربط کل ہے اجلاس کا دن اور ہمیں میل عملہ سے نہ دربار سے ربط عمر یوں اُن کی گلی میں گزرے ذرّہ ذرّہ سے بڑھے پیار سے ربط سرِ شوریدہ کو ہے دَر سے میل کمر خستہ کو دیوار سے ربط اے حسنؔ خیر ہے کیا کرتے ہو یار کو چھوڑ کر اَغیار سے ربط ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظ
خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظ عیبِ کوری سے رہے چشمِ بصیرت محفوظ دل میں روشن ہو اگر شمع وِلاے مولیٰ دُزدِ شیطا ں سے رہے دین کی دولت محفوظ یا خدا محو نظارہ ہوں یہاں تک آنکھیں شکل قرآں ہو مرے دل میں وہ صورت محفوظ سلسلہ زُلفِ مبارک سے ہے جس کے دل کو ہر بَلا سے رکھے اﷲ کی رحمت محفوظ تھی جو اُس ذات سے تکمیل فرامیں منظور رکھی خاتم کے لیے مہر نبوت محفوظ اے نگہبان مرے تجھ پہ صلوٰۃ اور سلام دو جہاں میں ترے بندے ہیں سلامت محفوظ واسطہ حفظِ الٰہی کا بچا رہزن سے رہے ایمانِ غریباں دمِ رحلت محفوظ شاہیِ کون و مکاں آپ کو دی خالق نے کنز قدرت میں اَزل سے تھی یہ دولت محفوظ تیرے قانون میں گنجائش تبدیل نہیں نسخ و ترمیم سے ہے تری شریعت محفوظ جسے آزاد کرے قامتِ شہ کا صدقہ رہے فتنوں سے وہ تا روزِ قیامت محفوظ اُس کو اَعدا کی عداوت سے ضرر کیا پہنچے جس کے دل میں ہو حسنؔ اُن کی محبت محفوظ ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع
مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع عروج و اَوج ہیں قربانِ بارگاہِ رفیع نہیں گدا ہی سرِ خوانِ بارگاہِ رفیع خلیل بھی تو ہیں مہمانِ بارگاہِ رفیع بنائے دونوں جہاں مجرئی اُسی دَر کے کیا خدا نے جو سامانِ بارگاہِ رفیع زمینِ عجز پہ سجدہ کرائیں شاہوں سے فلک جناب غلامانِ بارگاہِ رفیع ہے انتہاے علا ابتداے اَوج یہاں ورا خیال سے ہے شانِ بارگاہِ رفیع کمند رشتۂ عمر خضر پہنچ نہ سکے بلند اِتنا ہے ایوانِ بارگاہِ رفیع وہ کون ہے جو نہیں فیضیاب اِس دَر سے سبھی ہیں بندۂ احِسانِ بارگاہِ رفیع نوازے جاتے ہیں ہم سے نمک حرام غلام ہماری جان ہو قربانِ بارگاہِ رفیع مطیع نفس ہیں وہ سرکشانِ جن و بشر نہیں جو تابعِ فرمانِ بارگاہِ رفیع صلاے عام ہیں مہماں نواز ہیں سرکار کبھی اٹھا ہی نہیں خوانِ بارگاہِ رفیع جمالِ شمس و قمر کا سنگار ہے شب و روز فروغِ شمسۂ ایوانِ بارگاہِ رفیع ملائکہ ہیں فقط دابِ سلطنت کے لیے خدا ہے آپ نگہبانِ بارگاہِ رفیع حسنؔ جلالتِ شاہی سے کیوں جھجکتا ہے گدا نواز ہے سلطانِ بارگاہِ رفیع ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان