top of page
Naat Academy Naat Lyrics Naat Channel-Naat-Lyrics-Islamic-Poetry-Naat-Education-Sufism.png

نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے

1338 items found for ""

  • قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا

    قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا کعبہ کا بھی قبلہ خمِ اَبرو نظر آیا محشر میں کسی نے بھی مری بات نہ پوچھی حامی نظر آیا تو بس اِک تو نظر آیا پھر بندِ کشاکش میں گرفتار نہ دیکھے جب معجزۂ جنبشِ اَبرو نظر آیا اُس دل کے فدا جو ہے تری دید کا طالب اُن آنکھوں کے قربان جنھیں تو نظر آیا سلطان و گدا سب ہیں ترے دَر کے بھکاری ہر ہاتھ میں دروازے کا بازو نظر آیا سجدہ کو جھکا جائے براہیم میں کعبہ جب قبلۂ کونین کا اَبرو نظر آیا بازارِ قیامت میں جنھیں کوئی نہ پوچھے ایسوں کا خریدار ہمیں تو نظر آیا محشر میں گنہ گار کا پلّہ ہوا بھاری پلہ پہ جو وہ قربِ ترازو نظر آیا یا دیکھنے والا تھا ترا یا ترا جویا جو ہم کو خدا بِین و خدا جُو نظر آیا شل ہاتھ سلاطیں کے اُٹھے بہرِ گدائی دروازہ ترا قوتِ بازو نظر آیا یوسف سے حسیں اور تمناے نظارہ عالم میں نہ تم سا کوئی خوش رُو نظر آیا فریادِ غریباں سے ہے محشر میں وہ بے چین کوثر پہ تھا یا قربِ ترازو نظر آیا تکلیف اُٹھا کر بھی دعا مانگی عدو کی خوش خُلق نہ ایسا کوئی خوش خو نظر آیا ظاہر ہیں حسنؔ احمد مختار کے معنی کونین پہ سرکار کا قابو نظر آیا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سرور کا

    تصور لطف دیتا ہے دہانِ پاک سرور کا بھرا آتا ہے پانی میرے منہ میں حوضِ کوثر کا جو کچھ بھی وصف ہو اُن کے جمالِ ذرّہ پرور کا مرے دیوان کا مطلع ہو مطلع مہرِ محشر کا مجھے بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشید محشر کا لیے جاؤں گا چھوٹا سا کوئی ذرّہ ترے دَر کا جو اک گوشہ چمک جائے تمہارے ذرّۂ دَر کا ابھی منہ دیکھتا رہ جائے آئینہ سکندر کا اگر جلوہ نظر آئے کفِ پاے منور کا ذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشید محشر کا اگر دم بھر تصور کیجیے شانِ پیمبر کا زباں پہ شور ہو بے ساختہ اﷲ اکبر کا اُجالا طور کا دیکھیں جمالِ جاں فزا دیکھیں کلیم آ کر اُٹھا دیکھیں ذرا پردہ ترے دَر کا دو عالم میہماں، تو میزباں، خوانِ کرم جاری اِدھر بھی کوئی ٹکڑا میں بھی کتّا ہوں ترے دَر کا نہ گھر بیٹھے ملے جوہر صفا و خاکساری کے مریدِ ذرّۂ طیبہ ہے آئینہ سکندر کا اگر اُس خندۂ دنداں نما کا وصف موزوں ہو ابھی لہرا چلے بحرِ سخن سے چشمہ گوہر کا ترے دامن کا سایہ اور دامن کتنے پیارے ہیں وہ سایہ دشتِ محشر کا یہ حامی دیدۂ تر کا تمہارے کوچہ و مرقد کے زائر کو میسر ہے نظارہ باغِ جنت کا ، تماشا عرشِ اکبر کا گنہ گارانِ اُمت اُن کے دامن پر مچلتے ہوں الٰہی چاک ہو جس دم گریباں صبحِ محشر کا ملائک جن و اِنساں سب اِسی در کے سلامی ہیں دو عالم میں ہے اک شہرہ مرے محتاج پرور کا الٰہی تشنہ کامِ ہجر دیکھے دشتِ محشر میں برسنا ابرِ رحمت کا ، چھلکنا حوضِ کوثر کا زیارت میں کروں اور وہ شفاعت میری فرمائیں مجھے ہنگامۂ عیدین یا رب دن ہو محشر کا نصیب دوستاں اُن کی گلی میں گر سکونت ہو مجھے ہو مغفرت کا سلسلہ ہر تار بستر کا وہ گریہ اُسْتُنِ حَنَّانہ کا آنکھوں میں پھرتا ہے حضوری نے بڑھایا تھا جو پایہ اَوجِ منبر کا ہمیشہ رہروانِ طیبہ کے زیرِ قدم آئے الٰہی کچھ تو ہو اِعزاز میرے کاسۂ سر کا سہارا کچھ نہ کچھ رکھتا ہے ہر فردِ بشر اپنا کسی کو نیک کاموں کا حسنؔ کو اپنے یاوَر کا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • کہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کا

    کہوں کیا حال زاہد، گلشن طیبہ کی نزہت کا کہ ہے خلد بریں چھوٹا سا ٹکڑا میری جنت کا تعالیٰ اللہ شوکت تیرے نامِ پاک کی آقا کہ اب تک عرشِ اعلیٰ کو ہے سکتہ تیری ہیبت کا وکیل اپنا کیا ہے احمد مختار کو میں نے نہ کیوں کر پھر رہائی میری منشا ہو عدالت کا بلاتے ہیں اُسی کو جس کی بگڑی وہ بناتے ہیں کمر بندھنا دیارِ طیبہ کو کھلنا ہے قسمت کا کھلیں اسلام کی آنکھیں ہوا سارا جہاں روشن عرب کے چاند صدقے کیا ہی کہنا تیری طلعت کا نہ کر رُسواے محشر، واسطہ محبوب کا یا ربّ یہ مجرم دُور سے آیا ہے سن کر نام رحمت کا مرادیں مانگنے سے پہلے ملتی ہیں مدینہ میں ہجومِ جود نے روکا ہے بڑھنا دستِ حاجت کا شبِ اسریٰ ترے جلوؤں نے کچھ ایسا سماں باندھا کہ اب تک عرشِ اعظم منتظر ہے تیری رُخصت کا یہاں کے ڈوبتے دَم میں اُدھر جا کر اُبھرتے ہیں کنارا ایک ہے بحرِ ندامت بحرِ رحمت کا غنی ہے دل، بھرا ہے نعمت کونین سے دامن گدا ہوں میں فقیر آستانِ خود بدولت کا طوافِ روضۂ مولیٰ پہ ناواقف بگڑتے ہیں عقیدہ اَور ہی کچھ ہے اَدب دانِ محبت کا خزانِ غم سے رکھنا دُور مجھ کو اُس کے صدقے میں جو گل اے باغباں ہے عطر تیرے باغِ صنعت کا الٰہی بعدِ مردن پردہ ہاے حائل اُٹھ جائیں اُجالا میرے مرقد میں ہو اُن کی شمعِ تُربت کا سنا ہے روزِ محشر آپ ہی کا منہ تکیں گے سب یہاں پورا ہوا مطلب دلِ مشتاقِ رؤیت کا وجودِ پاک باعث خِلقتِ مخلوق کا ٹھہرا تمہاری شانِ وحدت سے ہوا اِظہار کثرت کا ہمیں بھی یاد رکھنا ساکنانِ کوچۂ جاناں سلامِ شوق پہنچے بے کسانِ دشتِ غربت کا حسنؔ سرکارِ طیبہ کا عجب دربارِ عالی ہے درِ دولت پہ اک میلہ لگا ہے اہلِ حاجت کا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا

    عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا بے ٹھکانوں کو ٹھکانا مل گیا فضلِ رب سے پھر کمی کس بات کی مل گیا سب کچھ جو طیبہ مل گیا کشفِ رازِ مَنْ رَّاٰنِی یوں ہوا تم ملے تو حق تعالیٰ مل گیا بے خودی ہے باعثِ کشفِ حجاب مل گیا ملنے کا رستہ مل گیا اُن کے دَر نے سب سے مستغنی کیا بے طلب بے خواہش اِتنا مل گیا ناخدائی کے لیے آئے حضور ڈوبتو نکلو سہارا مل گیا دونوں عالم سے مجھے کیوں کھو دیا نفسِ خود مطلب تجھے کیا مل گیا خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن مجھ کو صحراے مدینہ مل گیا آنکھیں پُرنم ہو گئیں سر جھک گیا جب ترا نقشِ کفِ پا مل گیا ہے محبت کس قدر نامِ خدا نامِ حق سے نامِ والا مل گیا اُن کے طالب نے جو چاہا پا لیا اُن کے سائل نے جو مانگا مل گیا تیرے دَر کے ٹکڑے ہیں اور میں غریب مجھ کو روزی کا ٹھکانا مل گیا اے حسنؔ فردوس میں جائیں جناب ہم کو صحراے مدینہ مل گیا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا

    آسماں گر ترے تلووں کا نظارہ کرتا روز اک چاند تصدق میں اُتارا کرتا طوفِ روضہ ہی پہ چکرائے تھے کچھ ناواقف میں تو آپے میں نہ تھا اور جو سجدہ کرتا صَرصرِ دشتِ مدینہ جو کرم فرماتی کیوں میں افسردگیِ بخت کی پرواہ کرتا چھپ گیا چاند نہ آئی ترے دیدار کی تاب اور اگر سامنے رہتا بھی تو سجدہ کرتا یہ وہی ہیں کہ گرِو آپ اور ان پر مچلو اُلٹی باتوں پہ کہو کون نہ سیدھا کرتا ہم سے ذرّوں کی تو تقدیر ہی چمکا جاتا مہر فرما کے وہ جس راہ سے نکلا کرتا دُھوم ذرّوں میں اناالشمس کی پڑ جاتی ہے جس طرف سے ہے گزر چاند ہمارا کرتا آہ کیا خوب تھا گر حاضرِ دَر ہوتا میں اُن کے سایہ کے تلے چین سے سویا کرتا شوق وآداب بہم گرمِ کشاکش رہتے عشقِ گم کردہ تواں عقل سے اُلجھا کرتا آنکھ اُٹھتی تو میں جھنجھلا کے پلک سی لیتا دِل بگڑ تا تو میں گھبرا کے سنبھالا کرتا بے خودانہ کبھی سجدہ میں سوے دَر گرِتا جانبِ قبلہ کبھی چونک کے پلٹا کرتا بام تک دل کو کبھی بالِ کبوتر دیتا خاک پر گر کے کبھی ہائے خدایا کرتا گاہ مرہم نہیِ زخمِ جگر میں رہتا گاہ نشتر زنیِ خونِ تمنا کرتا ہم رہِ مہر کبھی گردِ خطیرہ پھرتا سایہ کے ساتھ کبھی خاک پہ لوٹا کرتا صحبتِ داغِ جگر سے کبھی جی بہلاتا اُلفتِ دست و گریباں کا تماشا کرتا دلِ حیراں کو کبھی ذوقِ تپش پہ لاتا تپشِ دل کو کبھی حوصلہ فرسا کرتا کبھی خود اپنے تحیّر پہ میں حیراں رہتا کبھی خود اپنے سمجھنے کو نہ سمجھا کرتا کبھی کہتا کہ یہ کیا بزم ہے کیسی ہے بہار کبھی اندازِ تجاہل سے میں توبہ کرتا کبھی کہتا کہ یہ کیا جوشِ جنوں ہے ظالم کبھی پھر گر کے تڑپنے کی تمنا کرتا ستھری ستھری وہ فضا دیکھ کے میں غرقِ گناہ اپنی آنکھوں میں خود اُس بزم میں کھٹکا کرتا کبھی رَحمت کے تصور میں ہنسی آجاتی پاسِ آداب کبھی ہونٹوں کو بخیہ کرتا دل اگر رنجِ معاصی سے بگڑنے لگتا عفو کا ذکر سنا کر میں سنبھالا کرتا یہ مزے خوبیِ قسمت سے جو پائے ہوتے سخت دیوانہ تھا گر خلد کی پروا کرتا موت اُس دن کو جو پھر نام وطن کا لیتا خاک اُس سر پہ جو اُس در سے کنارا کرتا اے حسنؔ قصدِ مدینہ نہیں رونا ہے یہی اور میں آپ سے کس بات کا شکوہ کرتا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • جن و اِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیرا

    جن و اِنسان و ملک کو ہے بھروسا تیرا سرورا مرجعِ کل ہے درِ والا تیرا واہ اے عطرِ خدا ساز مہکنا تیرا خوب رو ملتے ہیں کپڑوں میں پسینہ تیرا دَہر میں آٹھ پہر بٹتا ہے باڑا تیرا وقف ہے مانگنے والوں پہ خزانہ تیرا لا مکاں میں نظر آتا ہے اُجالا تیرا دُور پہنچایا ترے حسن نے شہرہ تیرا جلوۂ یار اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا حسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا یہ نہیں ہے کہ فقط ہے یہ مدینہ تیرا تو ہے مختار، دو عالم پہ ہے قبضہ تیرا کیا کہے وصف کوئی دشتِ مدینہ تیرا پھول کی جانِ نزاکت میں ہے کانٹا تیرا کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پہ لوٹے تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا خسروِ کون و مکاں اور تواضع ایسی ہاتھ تکیہ ہے ترا، خاک بچھونا تیرا خوب رویانِ جہاں تجھ پہ فدا ہوتے ہیں وہ ہے اے ماہِ عرب حُسنِ دل آرا تیرا دشتِ پُر ہول میں گھیرا ہے درندوں نے مجھے اے مرے خضر اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا بادشاہانِ جہاں بہر گدائی آئیں دینے پر آئے اگر مانگنے والا تیرا دشمن و دوست کے منہ پر ہے کشادہ یکساں روے آئینہ ہے مولیٰ درِ والا تیرا پاؤں مجروح ہیں منزل ہے کڑی بوجھ بہت آہ گر ایسے میں پایا نہ سہارا تیرا نیک اچھے ہیں کہ اعمال ہیں اُن کے اچھے ہم بدوں کے لیے کافی ہے بھروسا تیرا آفتوں میں ہے گرفتار غلامِ عجمی اے عرب والے اِدھر بھی کوئی پھیرا تیرا اُونچے اُونچوں کو ترے سامنے ساجد پایا کس طرح سمجھے کوئی رُتبۂ اعلیٰ تیرا خارِ صحراے نبی پاؤں سے کیا کام تجھے آ مرِی جان مرِے دل میں ہے رستہ تیرا کیوں نہ ہو ناز مجھے اپنے مقدر پہ کہ ہوں سگ ترا، بندہ ترا، مانگنے والا تیرا اچھے اچھے ہیں ترے در کی گدائی کرتے اُونچے اُونچوں میں بٹا کرتا ہے صدقہ تیرا بھیک بے مانگے فقیروں کو جہاں ملتی ہو دونوں عالم میں وہ دروازہ ہے کس کا تیرا کیوں تمنا مری مایوس ہو اے ابرِ کرم سُوکھے دھانوں کا مددگار ہے چھینٹا تیرا ہائے پھر خندۂ بے جا مرے لب پر آیا ہائے پھر بھول گیا راتوں کا رونا تیرا حشر کی پیاس سے کیا خوف گنہ گاروں کو تشنہ کاموں کا خریدار ہے دریا تیرا سوزنِ گم شدہ ملتی ہے تبسم سے ترے شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا صدق نے تجھ میں یہاں تک تو جگہ پائی ہے کہہ نہیں سکتے اُلش کو بھی تو جھوٹا تیرا خاص بندوں کے تصدّق میں رہائی پائے آخر اس کام کا تو ہے یہ نکما تیرا بندِ غم کاٹ دیا کرتے ہیں تیرے اَبرو پھیر دیتا ہے بلاؤں کو اشارہ تیرا حشر کے روز ہنسائے گا خطاکاروں کو میرے غمخوارِ دل شب میں یہ رونا تیرا عملِ نیک کہاں نامۂ بدکاراں میں ہے غلاموں کو بھروسا مرے آقا تیرا بہر دیدار جھک آئے ہیں زمیں پر تارے واہ اے جلوۂ دل دار چمکنا تیرا اُونچی ہو کر نظر آتی ہے ہر اک شے چھوٹی جا کے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا اے مدینے کی ہوا دل مرا افسردہ ہے سُوکھی کلیوں کو کھلا جاتا ہے جھونکا تیرا میرے آقا تو ہیں وہ ابرِ کرم، سوزِ اَلم ایک چھینٹے کا بھی ہو گا نہ یہ دُہرا تیرا اب حسنؔ منقبتِ خواجۂ اجمیر سنا طبع پرُ جوش ہے رُکتا نہیں خامہ تیرا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • چھائے غم کے بادل کالے

    چھائے غم کے بادل کالے میری خبر اے بدرِ دُجیٰ لے گرتا ہوں میں لغزشِ پا سے آ اے ہاتھ پکڑنے والے زُلف کا صدقہ تشنہ لبوں پر برسا مہر و کرم کے جھالے خاک مری پامال ہو کب تک نیچے نیچے دامن والے پھرتا ہوں میں مارا مارا پیارے اپنے دَر پہ بُلا لے کام کیے بے سوچے سمجھے راہ چلا بے دیکھے بھالے ناری دے کر خط غلامی تجھ سے لیں جنت کے قبالے تو ترے احساں میرے یاور ہیں مرے مطلب تیرے حوالے تیرے صدقے تیرے قرباں میرے آس بندھانے والے بگڑی بات کو تو ہی بنائے ڈوبتی ناؤ کو تو ہی سنبھالے تم سے جو مانگا فوراً پایا تم نہیں کرتے ٹالے بالے وسعت خوانِ کرم کے تصدق دونوں عالم تم نے پالے دیکھیں جنہوں نے تیری آنکھیں وہ ہیں حق کے دیکھنے والے تیرے عارض گورے گورے شمس و قمر کے گھر کے اُجالے اَبر لطف و غلافِ کعبہ تیرے گیسو کالے کالے آفت میں ہے غلامِ ہندی تیری دُہائی مدینے والے تنہا میں اے حامیِ بے کس سینکڑوں ہیں دُکھ دینے والے تیرے لطف ہوں میرے یاور تیرا قہر عدو کو جا لے آج ہے پیشی میں ہوں مجرم زیر دامن مجھ کو چھپا لے روزِ حساب اور مجھ سا عاصی میری بگڑی بات بنا لے تورے بل بل جاؤں کھویا ندیا گہری نیّا ہالے گھِر گھِر آئے گم کے بدرا جیرا کانپت کملی والے رین اندھیری دُور نگریا توری دہائی جگ اُجیالے تن من دھن کی سدھ بدھ بسری موری کھبریا مورے پیا لے نیناں کے بلہاری جاوے درسن بھچّا جو منگتا لے وا کو سمندر پار ہو جا دو جا کو ڈراویں ندی نالے اپنے حسین و حسن کے حسن کو زہرِ کرب و بلا سے بچا لے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا

    معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا جب اِشارہ ہو گیا مطلب ہمارا ہو گیا ڈوبتوں کا یا نبی کہتے ہی بیڑا پار تھا غم کنارے ہو گئے پیدا کنارا ہو گیا تیری طلعت سے زمیں کے ذرّے مہ پارے بنے تیری ہیبت سے فلک کا مہ دوپارا ہو گیا اللہ اللہ محو حُسنِ روے جاناں کے نصیب بند کر لیں جس گھڑی آنکھیں نظارا ہو گیا یوں تو سب پیدا ہوئے ہیں آپ ہی کے واسطے قسمت اُس کی ہے جسے کہہ دو ہمارا ہو گیا تیرگی باطل کی چھائی تھی جہاں تاریک تھا اُٹھ گیا پردہ ترا حق آشکارا ہو گیا کیوں نہ دم دیں مرنے والے مرگِ عشقِ پاک پر جان دی اور زندگانی کا سہارا ہو گیا نام تیرا، ذکر تیرا، تو، ترا پیارا خیال ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا ذرّۂ کوے حبیب‘ اللہ رے تیرے نصیب پاؤں پڑ کر عرش کی آنکھوں کا تارا ہو گیا تیرے صانع سے کوئی پوچھے ترا حُسن و جمال خود بنایا اور بنا کر خود ہی پیارا ہو گیا ہم کمینوں کا اُنھیں آرام تھا اِتنا پسند غم خوشی سے دُکھ تہِ دل سے گوارا ہو گیا کیوں نہ ہو تم مالکِ مُلکِ خدا مِلک خدا سب تمہارا ہے خدا ہی جب تمہارا ہو گیا روزِ محشر کے اَلم کا دشمنوں کو خوف ہو دُکھ ہمارا آپ کو کس دن گوارا ہو گیا جو ازل میں تھی وہی طلعت وہی تنویر ہے آئینہ سے یہ ہوا جلوہ دوبارا ہو گیا تو نے ہی تو مصر میں یوسف کو یوسف کر دیا تو ہی تو یعقوب کی آنکھوں کا تارا ہو گیا ہم بھکاری کیا ہماری بھیک کس گنتی میں ہے تیرے دَر سے بادشاہوں کا گزارا ہو گیا اے حسنؔ قربان جاؤں اُس جمالِ پاک پر سینکڑوں پردوں میں رہ کر عالم آرا ہو گیا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں

    نہ کیوں آرائشیں کرتا خدا دُنیا کے ساماں میں تمھیں دُولھا بنا کر بھیجنا تھا بزمِ امکاں میں یہ رنگینی یہ شادابی کہاں گلزارِ رضواں میں ہزاروں جنتیں آ کر بسی ہیں کوے جاناں میں خزاں کا کس طرح ہو دخل جنت کے گلستاں میں بہاریں بس چکی ہیں جلوۂ رنگینِ جاناں میں تم آئے روشنی پھیلی ہُوا دن کھل گئی آنکھیں اندھیرا سا اندھیرا چھا رہا تھا بزمِ اِمکاں میں تھکا ماندہ وہ ہے جو پاؤں اپنے توڑ کر بیٹھا وہی پہنچا ہوا ٹھہرا جو پہنچا کوے جاناں میں تمہارا کلمہ پڑھتا اُٹھے تم پر صدقے ہونے کو جو پائے پاک سے ٹھوکر لگا دو جسمِ بے جاں میں عجب انداز سے محبوبِ حق نے جلوہ فرمایا سُرور آنکھوں میں آیا جان دل میں نور ایماں میں فداے خار ہاے دشتِ طیبہ پھول جنت کے یہ وہ کانٹے ہیں جن کو خود جگہ دیں گل رگِ جاں میں ہر اک کی آرزو ہے پہلے مجھ کو ذبح فرمائیں تماشا کر رہے ہیں مرنے والے عیدِ قرباں میں ظہورِ پاک سے پہلے بھی صدقے تھے نبی تم پر تمہارے نام ہی کی روشنی تھی بزمِ خوباں میں کلیم آسا نہ کیونکر غش ہو اُن کے دیکھنے والے نظر آتے ہیں جلوے طور کے رُخسارِ تاباں میں ہوا بدلی گھرے بادل کھلے گل بلبلیں چہکیں تم آئے یا بہارِ جاں فزا آئی گلستاں میں کسی کو زندگی اپنی نہ ہوتی اِس قدر میٹھی مگر دھوون تمہارے پاؤں کا ہے شیرۂ جاں میں اُسے قسمت نے اُس کے جیتے جی جنت میں پہنچایا جو دم لینے کو بیٹھا سایۂ دیوارِ جاناں میں کیا پروانوں کو بلبل نرالی شمع لائے تم گرے پڑتے تھے جو آتش پہ وہ پہنچے گلستاں میں نسیمِ طیبہ سے بھی شمع گل ہو جائے لیکن یوں کہ گلشن پھولیں جنت لہلہا اُٹھے چراغاں میں اگر دودِ چراغ بزمِ شہ چھو جائے کاجل سے شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں کرم فرمائے گر باغِ مدینہ کی ہوا کچھ بھی گل جنت نکل آئیں ابھی سروِ چراغاں میں چمن کیونکر نہ مہکیں بلبلیں کیونکر نہ عاشق ہوں تمہارا جلوۂ رنگیں بھرا پھولوں نے داماں میں اگر دودِ چراغِ بزم والا مَس کرے کچھ بھی شمیمِ مشک بس جائے گل شمعِ شبستاں میں یہاں کے سنگریزوں سے حسنؔ کیا لعل کو نسبت یہ اُن کی راہ گزر میں ہیں وہ پتھر ہے بدخشاں میں ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب

    جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب بھیک کو مشرق سے نکلا آفتاب جلوہ فرما ہو جو میرا آفتاب ذرّہ ذرّہ سے ہو پیدا آفتاب عارضِ پُر نور کا صاف آئینہ جلوۂ حق کا چمکتا آفتاب یہ تجلّی گاہِ ذاتِ بحت ہے زُلفِ انور ہے شب آسا آفتاب دیکھنے والوں کے دل ٹھنڈے کیے عارضِ انور ہے ٹھنڈا آفتاب ہے شبِ دیجور طیبہ نور سے ہم سیہ کاروں کا کالا آفتاب بخت چمکا دے اگر شانِ جمال ہو مری آنکھوں کا تارا آفتاب نور کے سانچے میں ڈھالا ہے تجھے کیوں ترے جلووں کا ڈھلتا آفتاب ناخدائی سے نکالا آپ نے چشمۂ مغرب سے ڈوبا آفتاب ذرّہ کی تابش ہے اُن کی راہ میں یا ہوا ہے گِر کے ٹھنڈا آفتاب گرمیوں پر ہے وہ حُسنِ بے زوال ڈھونڈتا پھرتا ہے سایہ آفتاب اُن کے دَر کے ذرّہ سے کہتا ہے مہر ہے تمہارے دَر کا ذرّہ آفتاب شامِ طیبہ کی تجلی دیکھ کر ہو تری تابش کا تڑکا آفتاب روے مولیٰ سے اگر اُٹھتا نقاب چرخ کھا کر غش میں گرتا آفتاب کہہ رہی ہے صبحِ مولد کی ضیا آج اندھیرے سے ہے نکلا آفتاب وہ اگر دیں نکہت و طلعت کی بھیک ذرّہ ذرّہ ہو مہکتا آفتاب تلوے اور تلوے کے جلوے پر نثار پیارا پیارا نور پیارا آفتاب اے خدا ہم ذرّوں کے بھی دن پھریں جلوہ فرما ہو ہمارا آفتاب اُن کے ذرّہ کے نہ سر چڑھ حشر میں دیکھ اب بھی ہے سویرا آفتاب جس سے گزرے اے حسنؔ وہ مہرِ حسن اُس گلی کا ہو اندھیرا آفتاب ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہو

    اے راحتِ جاں جو ترے قدموں سے لگا ہو کیوں خاک بسر صورتِ نقشِ کفِ پَا ہو ایسا نہ کوئی ہے نہ کوئی ہو نہ ہوا ہو سایہ بھی تو اک مثل ہے پھر کیوں نہ جدا ہو اﷲ کا محبوب بنے جو تمھیں چاہے اُس کا تو بیاں ہی نہیں کچھ تم جسے چاہو دل سب سے اُٹھا کر جو پڑا ہو ترے دَر پر اُفتادِ دو عالم سے تعلق اُسے کیا ہو اُس ہاتھ سے دل سوختہ جانوں کے ہرے کر جس سے رطبِ سوختہ کی نشوونما ہو ہر سانس سے نکلے گل فردوس کی خوشبو گر عکس فگن دل میں وہ نقشِ کفِ پَا ہو اُس دَر کی طرف اس لیے میزاب کا منہ ہے وہ قبلۂ کونین ہے یہ قبلہ نما ہو بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت مِٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو یہ میری سمجھ میں کبھی آ ہی نہیں سکتا ایمان مجھے پھیرنے کو تو نے دیا ہو اُس گھر سے عیاں نورِ الٰہی ہو ہمیشہ تم جس میں گھڑی بھر کے لیے جلوہ نما ہو مقبول ہیں اَبرو کے اشارہ سے دعائیں کب تیر کماندارِ نبوت کا خطا ہو ہو سلسلہ اُلفت کا جسے زُلفِ نبی سے اُلجھے نہ کوئی کام نہ پابندِ بَلا ہو شکر ایک کرم کا بھی اَدا ہو نہیں سکتا دل اُن پہ فدا جانِ حسنؔ اُن پہ فدا ہو ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاث

    جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاث ہوتے ہیں کچھ اور ساماں الغیاث درد مندوں کو دوا ملتی نہیں اے دواے درد منداں الغیاث جاں سے جاتے ہیں بے چارے غریب چارہ فرماے غریباں الغیاث حَد سے گزریں درد کی بے دردیاں درد سے بے حد ہوں نالاں الغیاث بے قراری چین لیتی ہی نہیں اَے قرارِ بے قراراں الغیاث حسرتیں دل میں بہت بے چین ہیں گھر ہوا جاتا ہے زنداں الغیاث خاک ہے پامال میری کُو بہ کُو اے ہواے کوے جاناں الغیاث المدد اے زُلفِ سرور المدد ہوں بلاؤں میں پریشاں الغیاث دلِ کی اُلجھن دُور کر گیسوے پاک اے کرم کے سنبلستان الغیاث اے سرِ پُر نور اے سرِ ّخدا ہوں سراسیمہ پریشاں الغیاث غمزدوں کی شام ہے تاریک رات اے جبیں اے ماہِ تاباں الغیاث اَبروے شہ کاٹ دے زنجیرِ غم تیرے صدقے تیرے قرباں الغیاث دل کے ہر پہلو میں غم کی پھانس ہے میں فدا مژگانِ جاناں الغیاث چشمِ رحمت آ گیا آنکھوں میں دم دیکھ حالِ خستہ حالاں الغیاث مردمک اے مہر نورِ ذاتِ بحت ہیں سیہ بختی کے ساماں الغیاث تیر غم کے دل میں چھد کر رہ گئے اے نگاہِ مہر جاناں الغیاث اے کرم کی کان اے گوشِ حضور سُن لے فریادِ غریباں الغیاث عَارضِ رنگیں خزاں کو دُور کر اے جناں آرا گلستاں الغیاث بینی پُر نور حالِ ما بہ بیں ناک میں دم ہے مری جاں الغیاث جاں بلب ہوں جاں بلب پر رحم کر اے لب اے عیساے دوراں الغیاث اے تبسم غنچہ ہاے دل کی جاں کھل چلیں مُرجھائی کلیاں الغیاث اے دہن اے چشمۂ آبِ حیات مر مٹے دے آبِ حیواں الغیاث دُرِّ مقصد کے لیے ہوں غرقِ غم گوہرِ شادابِ دنداں الغیاث اے زبانِ پاک کچھ کہہ دے کہ ہو رد بلاے بے زباناں الغیاث اے کلام اے راحتِ جانِ کلیم کلمہ گو ہے غم سے نالاں الغیاث کامِ شہ اے کام بخشِ کامِ دل ہوں میں ناکامی سے گریاں الغیاث چاہِ غم میں ہوں گرفتارِ اَلم چاہِ یوسف اے زنخداں الغیاث ریشِ اطہر سنبلِ گلزارِ خلد ریشِ غم سے ہوں پریشاں الغیاث اے گلو اے صبح جنت شمع نور تیِرہ ہے شامِ غریباں الغیاث غم سے ہوں ہمدوش اے دوش المدد دوش پر ہے بارِ عصیاں الغیاث اے بغل اے صبحِ کافورِ بہشت مہر بر شام غریباں الغیاث غنچۂ گل عطر دانِ عطر خلد بوے غم سے ہوں پریشاں الغیاث بازوے شہ دست گیری کر مری اے توانِ ناتواناں الغیاث دستِ اقدس اے مرے نیسانِ جود غم کے ہاتھوں سے ہوں گریاں الغیاث اے کفِ دست اے یدِ بیضا کی جاں تیرہ دل ہوں نور افشاں الغیاث ہم سیہ ناموں کو اے تحریر دست تو ہو دستاویز غفراں الغیاث پھر بہائیں اُنگلیاں اَنہارِ فیض پیاس سے ہونٹوں پہ ہے جاں الغیاث بہرِ حق اے ناخن اے عقدہ کشا مشکلیں ہو جائیں آساں الغیاث سینۂ پُر نور صدقہ نور کا بے ضیا سینہ ہے ویراں الغیاث قلبِ انور تجھ کو سب کی فکر ہے کر دے بے فکری کے ساماں الغیاث اے جگر تجھ کو غلاموں کا ہے درد میرے دُکھ کا بھی ہو درماں الغیاث اے شکم بھر پیٹ صدقہ نور کا پیٹ بھر اے کانِ احساں الغیاث پشتِ والا میری پُشتی پر ہو تو رُوبرو ہیں غم کے ساماں الغیاث تیرے صدقے اے کمر بستہ کمر ٹوٹی کمروں کا ہو درماں الغیاث مُہر پشتِ پاک میں تجھ پر فدا دے دے آزادی کا فرماں الغیاث پاے انور اے سَرفرازی کی جاں میں شکستہ پا ہوں جاناں الغیاث نقشِ پا اے نو گل گلزارِ خلد ہو یہ اُجڑا بَن گلستاں الغیاث اے سراپا اے سراپا لطفِ حق ہوں سراپا جرم و عصیاں الغیاث اے عمامہ دَورِ گردش دُور کر گرِد پھر پھر کر ہوں قرباں الغیاث نیچے نیچے دامنوں والی عبا خوار ہے خاکِ غریباں الغیاث پڑ گئی شامِ اَلم میرے گلے جلوۂ صبحِ گریباں الغیاث کھول مشکل کی گرہ بندِ قبا بندِ غم میں ہوں پریشاں الغیاث آستیں نقدِ عطا در آستیں بے نوا ہیں اَشک ریزاں الغیاث چاک اے چاکِ جگر کے بخیہ کر دل ہے غم سے چاک جاناں الغیاث عیب کھلتے ہیں گدا کے روزِ حشر دامنِ سلطانِ خوباں الغیاث دور دامن دور دورہ ہے تیرا دُور کر دُوری کا دوراں الغیاث ہوں فسردہ خاطر اے گلگوں قبا دل کھلا دیں تیری کلیاں الغیاث دل ہے ٹکڑے ٹکڑے پیوندِ لباس اے پناہِ خستہ حالاں الغیاث ہے پھٹے حالوں مرا رختِ عمل اے لباسِ پاک جاناں الغیاث نعل شہ عزت ہے میری تیرے ہاتھ اے وقارِ تاجِ شاہاں الغیاث اے شراکِ نعلِ پاکِ مصطفےٰ زیرِ نشتر ہے رگِ جاں الغیاث شانۂ شہ دل ہے غم سے چاک چاک اے انیسِ سینہ چاکاں الغیاث سُرمہ اے چشم وچراغِ کوہِ طور ہے سیہ شام غریباں الغیاث ٹوٹتا ہے دم میں ڈورا سانس کا ریشۂ مسواکِ جاناں الغیاث آئینہ اے منزلِ انوارِ قدس تیرہ بختی سے ہوں حیراں الغیاث سخت دشمن ہے حسنؔ کی تاک میں المدد محبوبِ یزداں الغیاث ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

bottom of page