top of page
Naat Academy Naat Lyrics Naat Channel-Naat-Lyrics-Islamic-Poetry-Naat-Education-Sufism.png

نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے

1338 items found for ""

  • دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو

    دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو آستانے پہ ترے سر ہو اَجل آئی ہو اَور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو خاک پامال غریباں کو نہ کیوں زندہ کرے جس کے دامن کی ہوا بادِ مسیحائی ہو اُس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت خاکِ طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو تاج والوں کی یہ خواہش ہے کہ اُن کے دَر پر ہم کو حاصل شرفِ ناصیہ فرسائی ہو اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رُسوائی ہو کیوں کریں بزمِ شبستانِ جناں کی خواہش جلوۂ یار جو شمع شبِ تنہائی ہو خلعتِ مغفرت اُس کے لیے رحمت لائے جس نے خاکِ درِ شہ جاے کفن پائی ہو یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے ایسے یکتا کے لیے ایسی ہی یکتائی ہو ذکر خدّام نہیں مجھ کو بتا دیں دشمن کوئی نعمت بھی کسی اور سے گر پائی ہو جب اُٹھے دستِ اَجل سے مری ہستی کا حجاب کاش اِس پردہ کے اندر تری زیبائی ہو دیکھیں جاں بخشیِ لب کو تو کہیں خضر و مسیح کیوں مرے کوئی اگر ایسی مسیحائی ہو کبھی ایسا نہ ہوا اُن کے کرم کے صدقے ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو بند جب خوابِ اجل سے ہوں حسنؔ کی آنکھیں اِس کی نظروں میں ترا جلوۂ زیبائی ہو ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

    جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم باز آئے ہندِ بد اختر سے ہم مار ڈالے بے قراری شوق کی خوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہی اب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیں ہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیع ڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفراز دل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھ پھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم گور کی شب تار ہے پر خوف کیا لَو لگائے ہیں رُخِ انور سے ہم دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں جب لپٹ کر روئے اُن کے دَر سے ہم کیا بندھا ہم کو خد اجانے خیال آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم جانے والے چل دیئے کب کے حسنؔ پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرف

    رحمت نہ کس طرح ہو گنہگار کی طرف رحمٰن خود ہے میرے طرفدار کی طرف جانِ جناں ہے دشتِ مدینہ تری بہار بُلبل نہ جائے گی کبھی گلزار کی طرف انکار کا وقوع تو کیا ہو کریم سے مائل ہوا نہ دل کبھی اِنکار کی طرف جنت بھی لینے آئے تو چھوڑیں نہ یہ گلی منہ پھیر بیٹھیں ہم تری دیوار کی طرف منہ اُس کا دیکھتی ہیں بہاریں بہشت کی جس کی نگاہ ہے ترے رُخسار کی طرف جاں بخشیاں مسیح کو حیرت میں ڈالتیں چُپ بیٹھے دیکھتے تری رفتار کی طرف محشر میں آفتاب اُدھر گرم اور اِدھر آنکھیں لگی ہیں دامنِ دلدار کی طرف پھیلا ہوا ہے ہاتھ ترے دَر کے سامنے گردن جھکی ہوئی تری دیوار کی طرف گو بے شمار جرم ہوں گو بے عدد گناہ کچھ غم نہیں جو تم ہو گنہگار کی طرف یوں مجھ کو موت آئے تو کیا پوچھنا مرا میں خاک پر نگاہ دَرِ یار کی طرف کعبے کے صدقے دل کی تمنا مگر یہ ہے مرنے کے وقت منہ ہو دَرِ یار کی طرف دے جاتے ہیں مراد جہاں مانگیے وہاں منہ ہونا چاہیے درِ سرکار کی طرف روکے گی حشر میں جو مجھے پا شکستگی دوڑیں گے ہاتھ دامنِ دلدار کی طرف آہیں دلِ اسیر سے لب تک نہ آئی تھیں اور آپ دوڑے آئے گرفتار کی طرف دیکھی جو بے کسی تو انہیں رحم آ گیا گھبرا کے ہو گئے وہ گنہگار کی طرف بٹتی ہے بھیک دوڑتے پھرتے ہیں بے نوا دَر کی طرف کبھی کبھی دیوار کی طرف عالم کے دل تو بھر گئے دولت سے کیا عجب گھر دوڑنے لگیں درِ سرکار کی طرف آنکھیں جو بند ہوں تو مقدر کھلے حسنؔ جلوے خود آئیں طالبِ دیدار کی طرف ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • جنابِ مصطفےٰ ہوں جس سے نا خوش

    جنابِ مصطفےٰ ہوں جس سے نا خوش نہیں ممکن ہو کہ اُس سے خدا خوش شہِ کونین نے جب صدقہ بانٹا زمانے بھر کو دَم میں کر دیا خوش سلاطیں مانگتے ہیں بھیک اُس سے یہ اپنے گھر سے ہے اُن کا گدا خوش پسندِ حقِ تعالیٰ تیری ہر بات ترے انداز خوش تیری ادا خوش مٹیں سب ظاہر و باطن کے امراض مدینہ کی ہے یہ آب و ہوا خوش فَتَرْضٰی کی محبت کے تقاضے کہ جس سے آپ خوش اُس سے خدا خوش ہزاروں جرم کرتا ہوں شب و روز خوشا قسمت نہیں وہ پھر بھی نا خوش الٰہی دے مرے دل کو غمِ عشق نشاطِ دَہر سے ہو جاؤں ناخوش نہیں جاتیں کبھی دشت نبی سے کچھ ایسی ہے بہاروں کو فضا خوش مدینہ کی اگر سرحد نظر آئے دلِ ناشاد ہو بے اِنتہا خوش نہ لے آرام دم بھر بے غمِ عشق دلِ مضطر میں خوش میرا خدا خوش نہ تھا ممکن کہ ایسی معصیت پر گنہگاروں سے ہو جاتا خدا خوش تمہاری روتی آنکھوں نے ہنسایا تمہارے غمزدہ دل نے کیا خوش الٰہی دُھوپ ہو اُن کی گلی کی مرے سر کو نہیں ظِلّ ہما خوش حسنؔ نعت و چنیں شیریں بیانی تو خوش باشی کہ کر دی وقتِ ما خوش ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح

    دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح ہر ذرّہ کی چمک سے عیاں ہیں ہزار صبح منہ دھو کے جوے شِیر میں آئے ہزار صبح شامِ حرم کی پائے نہ ہر گز بہار صبح ﷲ اپنے جلوۂ عارض کی بھیک دے کر دے سیاہ بخت کی شب ہاے تار صبح روشن ہے اُن کے جَلوۂ رنگیں کی تابشیں بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح رکھتی ہے شامِ طیبہ کچھ ایسی تجلیاں سو جان سے ہو جس کی اَدا پر نثار صبح نسبت نہیں سحر کو گریبانِ پاک سے جوشِ فروغ سے ہے یہاں تار تار صبح آتے ہیں پاسبانِ درِ شہ فلک سے روز ستر ہزار شام تو ستر ہزار صبح اے ذرّۂ مدینہ خدارا نگاہِ مہر تڑکے سے دیکھتی ہے ترا انتظار صبح زُلفِ حضور و عارضِ پُر نور پر نثار کیا نور بار شام ہے کیا جلوہ بار صبح نورِ ولادت مہِ بطحا کا فیض ہے رہتی ہے جنتوں میں جو لیل و نہار صبح ہر ذرّۂ حَرم سے نمایاں ہزار مہر ہر مہر سے طلوع کناں بے شمار صبح گیسو کے بعد یاد ہو رُخسارِ پاک کی ہو مُشک بار شام کی کافور بار صبح کیا نورِ دل کو نجدیِ تیرہ دروں سے کام تا حشر شام سے نہ ملے زینہار صبح حُسنِ شباب ذرّۂ طیبہ کچھ اور ہے کیا کورِ باطن آئینہ کیا شیر خوار صبح بس چل سکے تو شام سے پہلے سفر کرے طیبہ کی حاضری کے لیے بے قرار صبح مایوس کیوں ہو خاک نشیں حُسنِ یار سے آخر ضیاے ذرّہ کی ہے ذمَّہ دار صبح کیا دشتِ پاکِ طیبہ سے آئی ہے اے حسنؔ لائی جو اپنی جیب میں نقدِ بہار صبح ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • پرُ نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت

    پرُ نور ہے زمانہ صبح شبِ ولادت پرَدہ اُٹھا ہے کس کا صبح شبِ ولادت جلوہ ہے حق کا جلوہ صبح شبِ ولادت سایہ خدا کا سایہ صبح شبِ ولادت فصلِ بہار آئی شکلِ نگار آئی گلزار ہے زمانہ صبح شبِ ولادت پھولوں سے باغ مہکے شاخوں پہ مُرغ چہکے عہدِ بہار آیا صبح شبِ ولادت پژ مُردہ حسرتوں کے سب کھیت لہلہائے جاری ہوا وہ دریا صبح شبِ ولادت گل ہے چراغِ صرَصَر گل سے چمن معطر آیا کچھ ایسا جھونکا صبح شبِ ولادت قطرہ میں لاکھ دریا گل میں ہزار گلشن نشوونما ہے کیا کیا صبح شبِ ولادت جنت کے ہر مکاں کی آئینہ بندیاں ہیں آراستہ ہے دنیا صبح شب ولادت دل جگمگا رہے ہیں قسمت چمک اُٹھی ہے پھیلا نیا اُجالا صبح شبِ ولادت چِٹکے ہوئے دِلوں کے مدّت کے میل چھوٹے اَبرِ کرم وہ برسا صبح شب ولادت بلبل کا آشیانہ چھایا گیا گلوں سے قسمت نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت اَرض و سما سے منگتا دوڑے ہیں بھیک لینے بانٹے گا کون باڑا صبح شبِ ولادت انوار کی ضیائیں پھیلی ہیں شام ہی سے رکھتی ہے مہر کیسا صبح شبِ ولادت مکہ میں شام کے گھر روشن ہیں ہر نگہ پر چمکا ہے وہ اُجالا صبح شب ولادت شوکت کا دبدبہ ہے ہیبت کا زلزلہ ہے شق ہے مکانِ کِسریٰ صبح شبِ ولادت خطبہ ہوا زمیں پر سکہ پڑا فلک پر پایا جہاں نے آقا صبح شبِ ولادت آئی نئی حکومت سکہ نیا چلے گا عالم نے رنگ بدلا صبح شبِ ولادت رُوح الامیں نے گاڑا کعبہ کی چھت پہ جھنڈا تا عرش اُڑا پھریرا صبح شبِ ولادت دونوں جہاں کی شاہی ناکتخدا دُولہن تھی پایا دُولہن نے دُولہا صبح شبِ ولادت پڑھتے ہیں عرش والے سنتے ہیں فرش والے سلطانِ نو کا خطبہ صبح شبِ ولادت چاندی ہے مفلسوں کی باندی ہے خوش نصیبی آیا کرم کا داتا صبح شبِ ولادت عالم کے دفتروں میں ترمیم ہو رہی ہے بدلا ہے رنگِ دنیا صبح شبِ ولادت ظلمت کے سب رجسٹر حرفِ غلط ہوئے ہیں کاٹا گیا سیاہا صبح شبِ ولادت ملکِ ازل کا سرور سب سروروں کا اَفسر تختِ اَبد پہ بیٹھا صبح شبِ ولادت سُوکھا پڑا ہے ساوا دریا ہوا سماوا ہے خشک و تر پہ قبضہ صبح شبِ ولادت نوابیاں سدھاریں جاری ہیں شاہی آئیں کچا ہوا علاقہ صبح شبِ ولادت دن پھر گئے ہمارے سوتے نصیب جاگے خورشید ہی وہ چمکا صبح شبِ ولادت قربان اے دوشنبے تجھ پر ہزار جمعے وہ فضل تو نے پایا صبح شبِ ولادت پیارے ربیع الاوّل تیری جھلک کے صدقے چمکا دیا نصیبہ صبح شبِ ولادت وہ مہر مہر فرما وہ ماہِ عالم آرا تاروں کی چھاؤں آیا صبح شبِ ولادت نوشہ بناؤ اُن کو دولھا بناؤ اُن کو ہے عرش تک یہ شُہرہ صبح شب ولادت شادی رچی ہوئی ہے بجتے ہیں شادیانے دُولھا بنا وہ دُولھا صبح شبِ ولادت محروم رہ نہ جائیں دن رات برکتوں سے اس واسطے وہ آیا صبح شبِ ولادت عرشِ عظیم جھومے کعبہ زمین چُومے آتا ہے عرش والا صبح شبِ ولادت ہشیار ہوں بھکاری نزدیک ہے سواری یہ کہہ رہا ہے ڈنکا صبح شبِ ولادت بندوں کو عیشِ شادی اَعدا کو نامرادی کڑکیت کا ہے کڑکا صبح شبِ ولادت تارے ڈھلک کر آئے کاسے کٹورے لائے یعنی بٹے گا صدقہ صبح شبِ ولادت آمد کا شور سن کر گھر آئے ہیں بھکاری گھیرے کھڑے ہیں رستہ صبح شبِ ولادت ہر جان منتظر ہے ہر دیدہ رہ نگر ہے غوغا ہے مرحبا کا صبح شبِ ولادت جبریل سر جھکائے قدسی پرّے جمائے ہیں سرو قد ستادہ صبح شبِ ولادت کس داب کس ادب سے کس جوش کس طرب سے پڑھتے ہے اُن کا کلمہ صبح شبِ ولادت ہاں دین والو اُٹھو تعظیم والوں اُٹھو آیا تمہارا مولیٰ صبح شبِ ولادت اُٹھو حضور آئے شاہِ غیور آئے سلطانِ دین و دنیا صبح شبِ ولادت اُٹھو ملک اُٹھے ہیں عرش و فلک اُٹھے ہیں کرتے ہیں اُن کو سجدہ صبح شبِ ولادت آؤ فقیرو آؤ منہ مانگی آس پاؤ بابِ کریم ہے وا صبح شبِ ولادت سُوکھی زبانوں آؤ اے جلتی جانوں آؤ لہرا رہا ہے دریا صبح شبِ ولادت مُرجھائی کلیوں آؤ کمھلائے پھولوں آؤ برسا کرم کا جھالا صبح شبِ ولادت تیری چمک دمک سے عالم جھلک رہاہے میرے بھی بخت چمکا صبح شب ولادت تاریک رات غم کی لائی بلا سِتم کی صدقہ تجلّیوں کا صبح شبِ ولادت لایا ہے شِیر تیرا نورِ خدا کا جلوہ دل کر دے دودھ دھویا صبح شبِ ولادت بانٹا ہے دو جہاں میں تو نے ضیا کا باڑا دے دے حسنؔ کا حصہ صبح شبِ ولادت ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا

    واہ کیا مرتبہ ہوا تیرا تو خدا کا خدا ہوا تیرا تاج والے ہوں اِس میں یا محتاج سب نے پایا دیا ہوا تیرا ہاتھ خالی کوئی پھرا نہ پھرے ہے خزانہ بھرا ہوا تیرا آج سنتے ہیں سننے والے کل دیکھ لیں گے کہا ہوا تیرا اِسے تو جانے یا خدا جانے پیش حق رُتبہ کیا ہوا تیرا گھرہیں سب بند دَرہیں سب تیغ ایک دَر ہے کھلا ہوا تیرا کام توہین سے ہے نجدی کو تو ہوا یا خدا ہوا تیرا تاجداروں کا تاجدار بنا بن گیا جو گدا ہوا تیرا اور میں کیا لکھوں خدا کی حمد حمد اُسے وہ خدا ہوا تیرا جو ترا ہو گیا خدا کا ہوا جو خدا کا ہوا ہوا تیرا حوصلے کیوں گھٹیں غریبوں کے ہے اِرادہ بڑھا ہوا تیرا ذات بھی تیری انتخاب ہوئی نام بھی مصطفیٰ ہوا تیرا جسے تو نے دیا خدا نے دیا دَین رب کا دیا ہوا تیرا ایک عالم خدا کا طالب ہے اور طالب خدا ہوا تیرا بزمِ اِمکاں ترے نصیب کھلے کہ وہ دُولھا بنا ہوا تیرا میری طاعت سے میرے جرم فزوں لطف سب سے بڑھا ہوا تیرا خوفِ وزنِ عمل کسے ہو کہ ہے دل مدد پر تُلا ہوا تیرا کام بگڑے ہوئے بنا دینا کام کس کا ہوا ہوا تیرا ہر اَدا دل نشیں بنی تیری ہر سخن جاں فزا ہوا تیرا آشکارا کمالِ شانِ حضور پھر بھی جلوہ چھپا ہوا تیرا پَردہ دَارِ اَدا ہزار حجاب پھر بھی پردہ اُٹھا ہوا تیرا بزمِ دنیا میں بزمِ محشر میں نام کس کا ہوا ہوا تیرا مَنْ رّاٰنِیْ فَقَدْ رَا اَلْحَقَّ حُسن یہ حق نما ہوا تیرا بارِ عصیاں سروں سے پھینکے گا پیش حق سر جھکا ہوا تیرا یمِ جودِ حضور پیاسا ہوں یم گھٹا سے بڑھا ہوا تیرا وصلِ وحدت پھر اُس پہ یہ خلوت تجھ سے سایہ جدا ہوا تیرا صنعِ خالق کے جتنے خاکے ہیں رنگ سب میں بھرا ہوا تیرا ارضِ طیبہ قُدومِ والا سے ذرّہ ذرّہ سما ہوا تیرا اے جناں میرے گل کے صدقے میں تختہ تختہ بسا ہوا تیرا اے فلک مہر حق کے باڑے سے کاسہ کاسہ بھرا ہوا تیرا اے چمن بھیک ہے تبسم کی غنچہ غنچہ کھِلا ہوا تیرا ایسی شوکت کے تاجدار کہاں تخت تختِ خدا ہوا تیرا اِس جلالت کے شہر یار کہاں مِلک مُلکِ خدا ہوا تیرا اِس وجاہت کے بادشاہ کہاں حکم حکمِ خدا ہوا تیرا خلق کہتی ہے لامکاں جس کو شہ نشیں ہے سجا ہوا تیرا زیست وہ ہے کہ حُسنِ یار رہے دل میں عالم بسا ہوا تیرا موت وہ ہے کہ ذکرِ دوست رہے لب پہ نقشہ جما ہوا تیرا ہوں زمیں والے یا فلک والے سب کو صدقہ عطا ہوا تیرا ہر گھڑی گھر سے بھیک کی تقسیم رات دن دَر کھلا ہوا تیرا نہ کوئی دو سَرا میں تجھ سا ہے نہ کوئی دُوسرا ہوا تیرا سوکھے گھاٹوں مرا اُتار ہو کیوں کہ ہے دریا چڑھا ہوا تیرا سوکھے دھانوں کی بھی خبر لے لے کہ ہے بادل گھرا ہوا تیرا مجھ سے کیا لے سکے عدو ایماں اور وہ بھی دیا ہوا تیرا لے خبر ہم تباہ کاروں کی قافلہ ہے لٹا ہوا تیرا مجھے وہ درد دے خدا کہ رہے ہاتھ دل پہ دَھرا ہوا تیرا تیرے سر کو ترا خدا جانے تاجِ سر نقشِ پا ہوا تیرا بگڑی باتوں کی فکر کر نہ حسنؔ کام سب ہے بنا ہوا تیرا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • دشمن ہے گلے کا ہار آقا

    دشمن ہے گلے کا ہار آقا لُٹتی ہے مری بہار آقا تم دل کے لیے قرار آقا تم راحتِ جانِ زار آقا تم عرش کے تاجدار مولیٰ تم فرش کے با وقار آقا دامن دامن ہوائے دامن گلشن گلشن بہار آقا بندے ہیں گنہگار بندے آقا ہیں کرم شعار آقا اِس شان کے ہم نے کیا کسی نے دیکھے نہیں زینہار آقا بندوں کا اَلم نے دل دُکھایا اَور ہو گئے بے قرار آقا آرام سے سوئیں ہم کمینے جاگا کریں با وقار آقا ایسا تو کہیں سنا نہ دیکھا بندوں کا اُٹھائیں بار آقا جن کی کوئی بات تک نہ پوچھے اُن پر تمھیں آئے پیار آقا پاکیزہ دلوں کی زینت ایمان ایمان کے تم سنگار آقا صدقہ جو بٹے کہیں سلاطیں ہم بھی ہیں اُمیدوار آقا چکرا گئی ناؤ بے کسوں کی! آنا مرے غمگسار آقا اﷲ نے تم کو دے دیا ہے ہر چیز کا اختیار آقا ہے خاک پہ نقشِ پا تمہارا آئینہ بے غبار آقا عالم میں ہیں سب بنی کے ساتھی بگڑی کے تمھیں ہو یار آقا سرکار کے تاجدار بندے سرکار ہیں تاجدار آقا دے بھیک اگر جمالِ رنگیں جنت ہو مرا مزار آقا آنکھوں کے کھنڈر بھی اب بسا دو دل کا تو ہوا وقار آقا ایماں کی تاک میں ہے دشمن آؤ دمِ احتضار آقا ہو شمعِ شبِ سیاہ بختاں تیرا رُخِ نور بار آقا تُو رحمتِ بے حساب کو دیکھ جُرموں کا نہ لے شمار آقا دیدار کی بھیک کب بٹے گی منگتا ہے اُمیدار آقا بندوں کی ہنسی خوشی میں گزرے اِس غم میں ہوں اشکبار آقا آتی ہے مدد بَلا سے پہلے کرتے نہیں انتظار آقا سایہ میں تمہارے دونوں عالم تم سایۂ کردگار آقا جب فوجِ اَلم کرے چڑھائی ہو اَوجِ کرم حصار آقا ہر ملکِ خدا کے سچے مالک ہر ملک کے شہر یار آقا مانا کہ میں ہوں ذلیل بندہ آقا تُو ہے با وقار آقا ٹوٹے ہوئے دل کو دو سہارا اَب غم کی نہیں سہار آقا ملتی ہے تمھیں سے داد دل کی سنتے ہو تمھیں پکار آقا تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا اﷲ کرے وقار آقا اﷲ کے لاکھوں کارخانے سب کا تمھیں اختیار آقا کیا بات تمہارے نقشِ پا کی ہے تاجِ سرِ وقار آقا خود بھیک دو خود کہو بھلا ہو اِس دَین کے میں نثار آقا وہ شکل ہے واہ وا تمہاری اﷲ کو آئے پیار آقا جو مجھ سے مجھے چھپائے رکھے وہ جلوہ کر آشکار آقا جو کہتے ہیں بے زباں تمہارے گونگوں کی سنو پکار آقا وہ دیکھ لے کربلا میں جس نے دیکھے نہ ہو جاں نثار آقا آرام سے شش جہت میں گزرے غم دل سے نہ ہو دو چار آقا ہو جانِ حسنؔ نثار تجھ پر ہو جاؤں ترے نثار آقا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • اگر قسِمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتا

    اگر قسِمت سے میں اُن کی گلی میں خاک ہو جاتا غمِ کونین کا سارا بکھیڑا پاک ہو جاتا جو اے گل جامۂ ہستی تری پوشاک ہو جاتا تو خارِ نیستی سے کیوں اُلجھ کر چاک ہو جاتا جو وہ اَبرِ کرم پھر آبروے خاک ہو جاتا تو اُس کے دو ہی چھینٹوں میں زمانہ پاک ہو جاتا ہواے دامنِ رنگیں جو ویرانے میں آ جاتی لباسِ گل میں ظاہر ہر خس و خاشاک ہو جاتا لبِ جاں بخش کی قربت حیاتِ جاوداں دیتی اگر ڈورا نفس کا ریشۂ مسواک ہو جاتا ہوا دل سوختوں کو چاہیے تھی اُن کے دامن کی الٰہی صبحِ محشر کا گریباں چاک ہو جاتا اگر دو بوند پانی چشمۂ رحمت سے مل جاتا مری ناپاکیوں کے میل دُھلتے پاک ہو جاتا اگر پیوند ملبوسِ پیمبر کے نظر آتے ترا اے حُلّۂ شاہی کلیجہ چاک ہو جاتا جو وہ گل سُونگھ لیتا پھول مرجھایا ہوا بلبل بہارِ تازگی میں سب چمن کی ناک ہو جاتا چمک جاتا مقدر جب دُرِ دنداں کی طلعت سے نہ کیوں رشتہ گہر کا ریشۂ مسواک ہو جاتا عدو کی آنکھ بھی محشر میں حسرت سے نہ منہ تکتی اگر تیرا کرم کچھ اے نگاہِ پاک ہو جاتا بہارِ تازہ رہتیں کیوں خزاں میں دَھجیاں اُڑتیں لباسِ گل جو اُن کی ملگجی پوشاک ہو جاتا کماندارِ نبوت قادِر اندازی میں یکتا ہیں دو عالم کیوں نہ اُن کا بستۂ فتراک ہو جاتا نہ ہوتی شاق گر دَر کی جدائی تیرے ذرّہ کو قمر اِک اَور بھی روشن سرِ اَفلاک ہو جاتا تری رحمت کے قبضہ میں ہے پیارے قلبِ ماہیت مرے حق میں نہ کیوں زہر گنہ تریاک ہوجاتا خدا تارِ رَگِ جاں کی اگر عزت بڑھا دیتا شراکِ نعلِ پاکِ سیدِ لولاک ہو جاتا تجلی گاہِ جاناں تک اجالے سے پہنچ جاتے جو تو اے تَوسنِ عمرِ رواں چالاک ہو جاتا اگر تیری بھرن اے ابرِ رحمت کچھ کرم کرتی ہمارا چشمۂ ہستی اُبل کر پاک ہو جاتا حسنؔ اہلِ نظر عزت سے آنکھوں میں جگہ دیتے اگر یہ مُشتِ خاک اُن کی گلی کی خاک ہو جاتا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • یہ اکرام ہے مصطفےٰ پر خدا کا

    یہ اکرام ہے مصطفےٰ پر خدا کا کہ سب کچھ خدا کا ہوا مصطفےٰ کا یہ بیٹھا ہے سکہ تمہاری عطا کا کبھی ہاتھ اُٹھنے نہ پایا گدا کا چمکتا ہوا چاند ثور و حرا کا اُجالا ہوا بُرجِ عرشِ خدا کا لحد میں عمل ہو نہ دیوِ بلا کا جو تعویذ میں نقش ہو نقشِ پا کا جو بندہ خدا کا وہ بندہ تمہارا جو بندہ تمہارا وہ بندہ خدا کا مرے گیسوؤں والے میں تیرے صدقے کہ سر پر ہجومِ بَلا ہے بَلا کا ترے زیرِ پا مسندِ ملکِ یزداں ترے فرق پر تاجِ مُلکِ خدا کا سہارا دیا جب مرے ناخدا نے ہوئی ناؤ سیدھی پھرا رُخ ہوا کا کیا ایسا قادر قضا و قدر نے کہ قدرت میں ہے پھیر دینا قضا کا اگر زیرِ دیوارِ سرکارِ بیٹھوں مرے سر پہ سایہ ہو فضل خدا کا ادب سے لیا تاجِ شاہی نے سر پر یہ پایا ہے سرکار کے نقشِ پا کا خدا کرنا ہوتا جو تحتِ مشیّت خدا ہو کر آتا یہ بندہ خدا کا اَذاں کیا جہاں دیکھو ایمان والو پسِ ذکرِ حق ذکر ہے مصطفیٰ کا کہ پہلے زباں حمد سے پاک ہو لے تو پھر نام لے وہ حبیبِ خدا کا یہ ہے تیرے ایماے اَبرو کا صدقہ ہدف ہے اَثر اپنے تیرِ دُعا کا ترا نام لے کر جو مانگے وہ پائے ترا نام لیوا ہے پیارا خدا کا نہ کیوں کر ہو اُس ہاتھ میں سب خدائی کہ یہ ہاتھ تو ہاتھ ہے کبریا کا جو صحراے طیبہ کا صدقہ نہ ملتا کھلاتا ہی تو پھول جھونکا صبا کا عجب کیا نہیں گر سراپا کا سایہ سراپا سراپا ہے سایہ خدا کا خدا مدح خواں ہے خدا مدح خواں ہے مرے مصطفےٰ کا مرے مصطفےٰ کا خدا کا وہ طالب خدا اُس کا طالب خدا اُس کا پیارا وہ پیارا خدا کا جہاں ہاتھ پھیلا دے منگتا بھکاری وہی در ہے داتا کی دولت سرا کا ترے رُتبہ میں جس نے چون و چرا کی نہ سمجھا وہ بدبخت رُتبہ خدا کا ترے پاؤں نے سر بلندی وہ پائی بنا تاجِ سر عرش ربِّ عُلا کا کسی کے جگر میں تو سر پر کسی کے عجب مرتبہ ہے ترے نقشِ پا کا ترا دردِ الفت جو دل کی دوا ہو وہ بے درد ہے نام لے جو دوا کا ترے بابِ عالی کے قربان جاؤں یہ ہے دوسرا نام عرشِ خدا کا چلے آؤ مجھ جاں بلب کے سِرھانے کہ سب دیکھ لیں پھر کے جانا قضا کا بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضا سے بھلا ہو الٰہی جنابِ رضا کا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا

    تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا ہمارا بگڑا ہوا کام بن گیا ہو گا گناہگار پہ جب لطف آپ کا ہو گا کیا بغیر کیا ، بے کیا کیا ہو گا خدا کا لطف ہوا ہو گا دستگیر ضرور جو گرتے گرتے ترا نام لے لیا ہو گا دکھائی جائے گی محشر میں شانِ محبوبی کہ آپ ہی کی خوشی آپ کا کہا ہو گا خداے پاک کی چاہیں گے اگلے پچھلے خوشی خداے پاک خوشی اُن کی چاہتا ہو گا کسی کے پاوں کی بیڑی یہ کاٹتے ہوں گے کوئی اسیرِغم اُن کو پکارتا ہو گا کسی طرف سے صدا آئے گی حضور آؤ نہیں تو دَم میں غریبوں کا فیصلہ ہو گا کسی کے پلّہ پہ یہ ہوں گے وقتِ وزنِ عمل کوئی اُمید سے منہ اُن کا تک رہا ہو گا کوئی کہے گا دہائی ہے یَا رَسُوْلَ اﷲ تو کوئی تھام کے دامن مچل گیا ہو گا کسی کو لے کے چلیں گے فرشتے سوے جحیم وہ اُن کا راستہ پھِر پھِر کے دیکھتا ہو گا شکستہ پا ہوں مرے حال کی خبر کردو کوئی کسی سے یہ رو رو کے کہہ رہا ہو گا خدا کے واسطے جلد اُن سے عرضِ حال کرو کسے خبر ہے کہ دَم بھر میں ہائے کیا ہو گیا پکڑ کے ہاتھ کوئی حالِ دل سنائے گا تو رو کے قدموں سے کوئی لپٹ گیا ہو گا زبان سُوکھی دِکھا کر کوئی لبِ کوثر جنابِ پاک کے قدموں پہ گر گیا ہو گا نشانِ خسروِ دیں دُور کے غلاموں کو لِواے حمد کا پرچم بتا رہا ہو گا کوئی قریبِ ترازو کوئی لبِ کوثر کوئی صراط پر اُن کو پکارتا ہو گا یہ بے قرار کرے گی صدا غریبوں کی مقدس آنکھوں سے تار ا شک کا بندھا ہو گا وہ پاک دل کہ نہیں جس کو اپنا اندیشہ ہجومِ فکر و تردد میں گھر گیا ہو گا ہزار جان فدا نرم نرم پاؤں سے پکار سن کے اَسیروں کی دوڑتا ہو گا عزیز بچہ کو ماں جس طرح تلاش کرے خدا گواہ یہی حال آپ کا ہو گا خدائی بھر اِنھیں ہاتھوں کو دیکھتی ہو گی زمانہ بھر اِنھیں قدموں پہ لوٹتا ہو گا بنی ہے دَم پہ دُہائی ہے تاج والے کی یہ غل، یہ شور، یہ ہنگامہ، جابجا ہو گا مقام فاصلوں ہر کام مختلف اِتنے وہ دن ظہورِ کمالِ حضور کا ہو گا کہیں گے اور نبی اِذھَبُوْاِلٰی غَیرِی مرے حضور کے لب پر اَ نَا لھَا ہو گا دُعاے اُمتِ بدکار وردِ لب ہو گی خدا کے سامنے سجدہ میں سر جھکا ہو گا غلام اُن کی عنایت سے چین میں ہو نگے عدو حضور کا آفت میں مبتلا ہو گا میں اُن کے دَر کا بھکاری ہوں فضل مولیٰ سے حسنؔ فقیر کا جنت میں بسترا ہو گا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

  • ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا

    ایسا تجھے خالق نے طرح دار بنایا یوسف کو ترا طالبِ دیدار بنایا طلعت سے زمانے کو پُر انوار بنایا نکہت سے گلی کوچوں کو گلزار بنایا دیواروں کو آئینہ بناتے ہیں وہ جلوے آئینوں کو جن جلوؤں نے دیوار بنایا وہ جنس کیا جس نے جسے کوئی نہ پوچھے اُس نے ہی مرا تجھ کو خریدار بنایا اے نظم رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع تو نے ہی اُسے مطلعِ انوار بنایا کونین بنائے گئے سرکار کی خاطر کونین کی خاطر تمہیں سرکار بنایا کنجی تمھیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے محبوب کیا مالک و مختار بنایا اﷲ کی رحمت ہے کہ ایسے کی یہ قسمت عاصی کا تمہیں حامی وغم خوار بنایا آئینۂ ذاتِ احدیٰ آپ ہی ٹھہرے وہ حسن دیا ایسا طرح دار بنایا انوارِ تجلیّٰ سے وہ کچھ حیرتیں چھائیں سب آئینوں کو پشت بدیوار بنایا عالم کے سلاطین بھکاری ہیں بھکاری سرکار بنایا تمھیں سرکار بنایا گلزار کو آئینہ کیا منہ کی چمک نے آئینہ کو رُخسار نے گل زار بنایا یہ لذتِ پا بوس کہ پتھر نے جگر میں نقشِ قدمِ سید ابرار بنایا خدّام تو بندے ہیں ترے حسنِ خلق نے پیارے تجھے بد خواہ کا غم خوار بنایا بے پردہ وہ جب خاک نشینوں میں نکل آئے ہر ذرّہ کو خورشیدِ پُر انوار بنایا اے ماہِ عرب مہرِ عجم میں ترے صدقے ظلمت نے مرے دن کو شبِ تار بنایا ﷲ کرم میرے بھی ویرانۂ دل پر صحرا کو ترے حسن نے گلزار بنایا اﷲ تعالیٰ بھی ہوا اُس کا طرف دار سرکار تمھیں جس نے طرفدار بنایا گلزارِ جناں تیرے لیے حق نے بنائے اپنے لیے تیرا گل رُخسار بنایا بے یار و مددگار جنہیں کوئی نہ پوچھے ایسوں کا تجھے یار و مددگار بنایا ہر بات بد اعمالیوں سے میں نے بگاڑی اَور تم نے مری بگڑی کو ہر بار بنایا ان کے دُرِّ دنداں کا وہ صدقہ تھا کہ جس نے ہر قطرۂ نیساں دُرِ شہوار بنایا اُس جلوۂ رنگیں کا تصدق تھا کہ جس نے فردوس کے ہر تختہ کو گلزار بنایا اُس رُوحِ مجسم کے تبرک نے مسیحا جاں بخش تمھیں یوں دمِ گفتار بنایا اُس چہرۂ پُر نور کی وہ بھیک تھی جس نے مہر و مہ و انجم کو پُر انوار بنایا اُن ہاتھوں کاجلوہ تھا یہ اے حضرتِ موسیٰ جس نے یدِبیضا کو ضیا بار بنایا اُن کے لبِ رنگیں کی نچھاور تھی وہ جس نے پتھر میں حسنؔ لعلِ پُر اَنوار بنایا ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان

bottom of page