نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
1338 items found for ""
- وصف کیا لکھے کوئی اس مہبط انوار کا
مخزنِ انوار وصف کیا لکھے کوئی اس مہبط انوار کا مہرومہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رخسا رکا عرش اعظم پر پھریرا ہے شہ ابرار کا بجتا ہے کونین میں ڈنکا مرے سرکار کا دو جہاں میں بٹتا ہے باڑہ اس سرکار کا دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی دربار کا جاری ہے آٹھوں پہر لنگر سخی دربار کا فیض پر ہر دم ہے دریا احمد مختار کا روضۂ والائے طیبہ مخزن انوار ہے کیا کہوں عالم میں تجھ سے جلوہ گاہِ یارکا دل ہے کس کا جان کس کی سب کے مالک ہیں وہی دونوں عالم پر ہے قبضہ احمد مختار کا کیا کرے سونے کا کشتہ، کشتہ تیر عشق کا دید کا پیاسا کرے کیا شربت دینار کا فق ہو چہرہ مہر و مہ کا ایسے منہ کے سامنے جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا لات ماری تم نے دنیا پر اگر تم چاہتے سلسلہ سونے کا ہوتا سلسلہ کہسار کا میں تری رحمت کے قرباں اے مرے امن واماں کوئی بھی پر ساں نہیں ہے مجھ سے بد کردار کا ہیں معاصی حد سے باہر پھر بھی زاہد غم نہیں رحمت عالم کی امت بندہ ہوں غفار کا تو ہے رحمت باب رحمت تیرا دروازہ ہوا سایۂ فضل خدا سایہ تیری دیوار کا کعبہ و اقصٰی و عرش و خلد ہیں نوؔری مگر ہے نرا لا سب سے عالم جلوہ گاہ یار کا سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- گناہ گاروں کا روزِ محشر شفیع خَیْرُالْاَنَام ہوگا
گناہ گاروں کا روزِ محشر شفیع خَیْرُالْاَنَام ہوگا دُلھن شفاعت بنے گی دُلھا نبی عَلَیْہِ السَّلَام ہوگا کبھی تو چمکے گا نجمِ قسمت ہلال ماہِ تمام ہوگا کبھی تو ذرّے پہ مہر ہوگی وہ مہر ادھر خوش خَرام ہوگا پڑا ہوں میں ان کی رہ گزر میں پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا دل و جگر فرشِ رہ بنیں گے یہ دیدہ مشقِ خرام ہوگا وہی ہے شافع وہی مشفّع اسی شفاعت سے کام ہوگا ہماری بگڑی بنے گی اس دن وہی مَدارُالْمَھَامْ ہوگا اُنھیں کا مُنھ سب تکیں گے اس دن جو وہ کریں گے وہ کام ہوگا دہائی سب ان کی دیتے ہوں گے اُنھیں کا ہر لب پہ نام ہوگا ’’اَنَا لَھَا‘‘ کہہ کے عاصیوں کو وہ لیں گے آغوشِ مرحمت میں عزیز، اکلوتا جیسے ماں کو، انھیں ہر اک یوں غلام ہوگا اُدھر وہ گرتوں کو تھام لیں گے اُدھر(وہ) پیاسوں کو جام دیں گے صِراط و میزان و حوضِ کوثر یہیں وہ عالی مقام ہوگا کہیں وہ جلتے بجھاتے ہوں گے کہیں وہ روتے ہنساتے ہوں گے وہ پائے نازک پہ دوڑنا اور بعید ہر اک مقام ہوگا ہوئی جو مجرم کو بازیابی تو خوفِ عصیاں سے دھج یہ ہوگی خمیدہ سر، آبدیدہ آنکھیں، لرزتا ہندی غلام ہوگا حضورِ مُرشِد کھڑا رہوں گا کھڑے ہی رہنے سے کام ہوگا نگاہِ لطف و کرم اٹھے گی تو جھک کے میرا سلام ہوگا خدا کی مرضی ہے اُن کی مرضی، ہے اُن کی مرضی خدا کی مرضی اُنھیں کی مرضی پہ ہو رہاں ہے، اُنھیں کی مرضی پہ کام ہوگا جدھر خدا ہے اُدھر نبی ہے، جدھر نبی ہے اُدھر خدا ہے خدائی بھر سب اُدھر پھرے گی جدھر وہ عالی مقام ہوگا اِسی تمنّا میں دم پڑا ہے، یہی سہارا ہے زندگی کا بُلا لو مجھ کو مدینے سرور! نہیں تو جینا حرام ہوگا حضورِ روضہ ہوا جو حاضر تو اپنی سج دھج یہ ہوگی، حاؔمد! خمیدہ سر، آنکھ بند، لب پر مِرے دُرود و سلام ہوگا بیاض پاک #بیاضپاک #مولاناحامدرضاخان
- محمد مصطفیٰ نورِ خدا نامِ خدا تم ہو
محمد مصطفیٰ نورِ خدا نامِ خدا تم ہو شَہِ خَیْرُالْوَریٰ شانِ خدا صَلِّ عَلٰی تم ہو شکیبِ دل قرارِ جاں محمد مصطفی تم ہو طبیبِ دردِ دل تم ہو مِرے دل کی دوا تم ہو غریبوں درد مندوں کی دوا تم ہو دعا تم ہو فقیروں بے نواؤں کی صدا تم ہو نِدا تم ہو حبیبِ کبریا تم ہو اِمَامُ الْاَنْبِیَآء تم ہو محمد مصطفیٰ تم ہو محمد مجتبیٰ تم ہو ہمارے ملجا و ماوا ہمارا آسرا تم ہو ٹھکانہ بے ٹھکانوں کا شَہِ ہر دوسرا تم ہو غریبوں کی مدد بے بس کا بس رُوْحِیْ فِدَا تم ہو سہارا بے سہاروں کا ہمارا آسرا تم ہو نہ کوئی ماہ وَش تم سا نہ کوئی مہ جبیں تم سا حسینوں میں ہو تم ایسے کہ محبوبِ خدا تم ہو میں صدقے انبیا کے یوں تو محبوب ہیں، لیکن جو سب پیاروں سے پیارا ہے وہ محبوبِ خدا تم ہو حسینوں میں تمھیں تم ہو نبیوں میں تمھیں تم ہو کہ محبوبِ خدا تم ہو نَبِیُّ الْاَنْبِیَآء تم ہو تمھارے حُسنِ رنگیں کی جھلک ہے سب حسینوں میں بہاروں کی بہاروں میں بہارِ جاں فزا تم ہو زمیں میں ہے چمک کس کی فلک پر ہے جھلک کس کی مہ (و) خورشید، سیّاروں، ستاروں کی ضیا تم ہو وہ لاثانی ہو تم آقا نہیں ثانی کوئی جس کا اگر ہے دوسرا کوئی تو اپنا دوسرا تم ہو ھُوَالْاَوَّل ھُوَالْاٰخِر ھُوَالظَّاھِر ھُوَالْبَاطِن بِکُلِّ شَیْء عَلِیْم لوحِ محفوظِ خدا تم ہو نہ ہو سکتے ہیں دو اوّل، نہ ہو سکتے ہیں دو آخر تم اوّل اور آخر، ابتداء تم انتہا تم ہو خدا کہتے نہیں بنتی جدا کہتے نہیں بنتی خدا پر اِس کو چھوڑا ہے وہی جانے کہ کیا تم ہو اَنَا مِنْ حَامِد و حَامِد رضَا مِنِّی کے جلووں سے بِحَمْدِ اللہ رضا حامد ہیں اور حاؔمد رضا تم ہو بیاض پاک #بیاضپاک #مولاناحامدرضاخان
- جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک
جو ہو سر کو رَسائی اُن کے دَر تک تو پہنچے تاجِ عزت اپنے سر تک وہ جب تشریف لائے گھرسے در تک بھکاری کا بھرا ہے دَر سے گھر تک دُہائی ناخداے بے کساں کی ٔکہ سلاکبِ اَلم پہنچا کمر تک الٰہی دل کو دے وہ سوزِ اُلفت پُھنکے سنہک جلن پہنچے جگر تک نہ ہو جب تک تمہارا نام شامل دعائںے جا نہںا سکتںے اَثر تک گزر کی راہ نکلی رہ گزر مںق ابھی پہنچے نہ تھے ہم اُن کے دَر تک خدا یوں اُن کی اُلفت مںں گما دے نہ پاؤں پھر کبھی اپنی خبر تک بجائے چشم خود اُٹھتا نہ ہو آڑ جمالِ یار سے ترنی نظر تک تری نعمت کے بُھوکے اہلِ دولت تری رحمت کا پاھسا ابر تک نہ ہو گا دو قدم کا فاصلہ بھی الٰہ آباد سے احمد نگر تک تمہارے حسن کے باڑے کے صدقے نمک خوار ملاحت ہے قمر تک شبِ معراج تھے جلوے پہ جلوے شبستانِ دنیٰ سے اُن کے گھر تک بلائے جان ہے اب ویرانیِ دل چلے آؤ کبھی اس اُجڑے گھر تک نہ کھول آنکھںل نگاہِ شوقِ ناقص بہت پردے ہںن حسنِ جلوہ گر تک جہنم مںد دھکں ان نجدیوں کو حسنؔ جھوٹوں کو یوں پہنچائںن گھر تک ذوق نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق
ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق ترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق رہے نہ عفو مںچ پھر ایک ذرّہ شک باقی جو اُن کی خاکِ قدم ہو قبور کی رونق نہ فرش کا یہ تجمل نہ عرش کا یہ جمال فقط ہے نور و ظہورِ حضور کی رونق تمہارے نور سے روشن ہوئے زمنی و فلک ییہ جمال ہے نزدیک و دُور کی رونق زبانِ حال سے کہتے ہںد نقشِ پا اُن کے ہمںن ہںے چہرۂ غلمان و حور کی رونق ترے نثار ترا ایک جلوۂ رنگںح بہارِ جنت و حور و قصور کی رونق ضاا زمنو و فلک کی ہے جس تجلّی سے الٰہی ہو وہ دلِ ناصبور کی رونق ییٰ فروغ تو زیبِ صفا و زینت ہے ییٰ ہے حسن تجلّی و نور کی رونق حضور ترتہ و تاریک ہے یہ پتھر دل تجلّیوں سے ہوئی کوہِ طور کی رونق سجی ہے جن سے شبستانِ عالمِ امکاں وہی ہں مجلسِ روزِ نشور کی رونق کریں دلوںکومنورسراج(۱)کے جلوے فروغِ بزمِ عوارف ہو نور (۲) کی رونق دعا خدا سے غمِ عشقِ مصطفےٰ کی ہے حسنؔ یہ غم ہے نشاط و سُرور کی رونق ۱۔ سراج العوارف مصنفہ حضرت پر و مرشد برحق رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ۲۔ تخلص حضرت سد نا شاہ ابوالحسنر احمد نوری مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۔ ذوق نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری
وہ اُٹھی دیکھ لو گردِ سواری عیاں ہونے لگے انوارِ باری نقیبوں کی صدائیں آ رہی ہیں کسی کی جان کو تڑپا رہی ہیں مؤدب ہاتھ باندھے آگے آگے چلے آتے ہیں کہتے آگے آگے فدا جن کے شرف پر سب نبی ہیں یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ یہی ہیں یہی والی ہیں سارے بیکسوں کے یہی فریاد رس ہیں بے بسوں کے یہی ٹوٹے دلوں کو جوڑتے ہیں یہی بند اَلم کو توڑتے ہیں اَسیروں کے یہی عقدہ کشا ہیں غریبوں کے یہی حاجت روا ہیں یہی ہیں بے کلوں کی جان کی کل انہیں سے ٹیک ہے ایمان کی کل شکیب بے قراراں ہے انہیں سے قرارِ دل فگاراں ہے انہیں سے اِنہیں سے ٹھیک ہے سامانِ عالم اِنہیں پر ہے تصدق جانِ عالم یہی مظلوم کی سنتے ہیں فریاد یہی کرتے ہیں ہر ناشاد کو شاد انہیں کی ذات ہے سب کا سہارا انہیں کے دَر سے ہے سب کا گزارا انہیں پر دونوں عالم مر رہے ہیں انہیں پر جان صدقے کر رہے ہیں انہیں سے کرتی ہیں فریاد چڑیاں انہیں سے چاہتی ہیں داد چڑیاں انہیں کو پیڑ سجدے کر رہے ہیں انہیں کے پاؤں پر سر دھر رہے ہیں انہیں کی کرتے ہیں اَشجار تعظیم انہیں کو کرتے ہیں اَحجار تسلیم انہیں کو یاد سب کرتے ہیں غم میں یہی دکھ درد کھو دیتے ہیں دم میں یہی کرتے ہیں ہر مشکل میں اِمداد یہی سنتے ہیں ہر بے کس کی فریاد انہیں ہر دم خیالِ عاصیاں ہے انہیں پر آج بارِ دو جہاں ہے کسے قدرت نہیں معلوم اِن کی مچی ہے دو جہاں میں دُھوم اِن کی سہارا ہیں یہی ٹوٹے دلوں کا یہی مرہم ہیں غم کے گھائلوں کا یہی ہیں جو عطا فرمائیں دولت کریں خود جَو کی روٹی پر قناعت فزوں رُتبہ ہے صبح و شام اِن کا محمد مصطفی ہے نام اِن کا مزین سر پہ ہے تاجِ شفاعت عیاںہے جس سے معراجِ شفاعت بدن میں وہ عباے نور آگیں کہ جس کی ہر اَدا میں لاکھ تزئیں کہوں کیا حال نیچے دامنوں کا جھکا ہے رحمتِ باری کا پلّہ یہی دامن تو ہیں اے جانِ مضطر مچل جائیں گے ہم محشر میں جن پر سواری میں ہجومِ عاشقاں ہے کوئی چپ ہے کوئی محو فُغاں ہے کوئی دامن سے لپٹا رو رہا ہے کوئی ہر گام محو اِلتجا ہے کوئی کہتا ہے حق کی شان ہیں یہ کوئی کہتا ہے میری جان ہیں یہ یہ کہتا ہے کوئی بیمارِ فرقت ترقی پر ہے اب آزارِ فرقت ادھر بھی اِک نظر او تاج والے کوئی کب تک دلِ مضطر سنبھالے ز مہجوری بر آمد جانِ عالم ترحم یا نبی اللہ ترحم نہ آخر رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْنِی ز محروماں چرا فارغ نشینی بدہ دستے زپا اُفتادگاں را بکن دلداریِ دلدادگاں را بہت نزدیک آ پہنچا وہ پیارا فدا ہے جان و دل جس پر ہمارا اُٹھیں تعظیم کو یارانِ محفل ہوا جلوہ نما وہ جانِ محفل خبر تھی جن کے آنے کی وہ آئے جو زینت ہیں زمانے کی وہ آئے فقیرو جھولیاں اپنی سنبھالو بڑھو سب حسرتیں دل کی نکالو پکڑ لو اِن کا دامن بے نواؤ مرا ذمہ ہے جو مانگو وہ پاؤ مجھے اِقرار کی عادت ہے معلوم نہیں پھرتا ہے سائل اِن کا محروم کرو تو سامنے پھیلا کے دامن یہ سب کچھ دیں گے خالی پا کے دامن حسنؔ ہاں مانگ لے جو مانگنا ہو بیاں کر آپ سے جو مدعا ہو مرے آقا مرے سردار ہو تم مرے مالک مرے مختار ہو تم تصدق تم پر اپنی جان کر دوں ملیں تو دو جہاں قربان کر دوں تمہیں افضل کیا سب سے خدا نے دیا تاجِ شفاعت کبریا نے تمہیں سے لو لگائے بیٹھے ہیں ہم تمہارے در پہ آئے بیٹھے ہیں ہم تمہارا نام ہم کو حرزِ جاں ہے یہی تو داروے دردِ نہاں ہے بلا لیجے مدینے میں خدارا نہیں اب ہند میں اپنا گزارا تمہارا دَر ہو اور سر ہو ہمارا اسی کوچے میں ہو بستر ہمارا قضا آئے تو آئے اِس گلی میں رہے باقی نہ حسرت کوئی جی میں نہ ہو گور و کفن ہم کو میسر پڑا یوں ہی رہے لاشہ زمیں پر سگانِ کوچۂ پُر نور آئیں مرے پیارے مرے منظور آئیں مرے مُردے پہ ہوں آ کر فراہم غذا اپنی کریں سب مل کے باہم ہمیشہ تم پہ ہو رحمت خدا کی دعا مقبول ہو مجھ سے گدا کی ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- کرے چارہ سازی زیارت کسی کی
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی چمک کر یہ کہتی ہے طلعت کسی کی کہ دیدارِ حق ہے زیارت کسی کی نہ رہتی جو پردوں میں صورت کسی کی نہ ہوتی کسی کو زیارت کسی کی عجب پیاری پیاری ہے صورت کسی کی ہمیں کیا خدا کو ہے اُلفت کسی کی ابھی پار ہوں ڈوبنے والے بیڑے سہارا لگا دے جو رحمت کسی کی کسی کو کسی سے ہوئی ہے نہ ہو گی خدا کو ہے جتنی محبت کسی کی دمِ حشر عاصی مزے لے رہے ہیں شفاعت کسی کی ہے رحمت کسی کی رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی ترا قبضہ کونین و مافیہا سب پر ہوئی ہے نہ ہو یوں حکومت کسی کی خدا کا دیا ہے ترے پاس سب کچھ ترے ہوتے کیا ہم کو حاجت کسی کی زمانہ کی دولت نہیں پاس پھر بھی زمانہ میں بٹتی ہے دولت کسی کی نہ پہنچیں کبھی عقلِ کل کے فرشتے خدا جانتا ہے حقیقت کسی کی ہمارا بھروسہ ہمارا سہارا شفاعت کسی کی حمایت کسی کی قمر اِک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا زمانے پہ روشن ہے طاقت کسی کی ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی مصیبت زدو شاد ہو تم کہ اُن سے نہیں دیکھی جاتی مصیبت کسی کی نہ پہنچیں گے جب تک گنہگار اُن کے نہ جائے گی جنت میں اُمت کسی کی ہم ایسے گنہگار ہیں زہد والو ہماری مدد پر ہے رحمت کسی کی مدینہ کا جنگل ہو اور ہم ہوں زاہد نہیں چاہیے ہم کو جنت کسی کی ہزاروں ہوں خورشید محشر تو کیا غم یہاں سایہ گستر ہے رحمت کسی کی بھرے جائیں گے خلد میں اہلِ عصیاں نہ جائے گی خالی شفاعت کسی کی وہی سب کا مالک اُنہیں کا ہے سب کچھ نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی رَفِعْنَا لَکَ ذَکرَکَ پر تصدق سب اُونچوں سے اُونچی ہے رفعت کسی کی اُترنے لگے مَا رَمَیْتَ یَدُ اﷲ چڑھی ایسی زوروں پہ طاقت کسی کی گدا خوش ہوں خَیرٌ لَّک کی صد ا ہے کہ دن دُونی بڑھتی ہے دولت کسی کی فتَرْضیٰ نے ڈالی ہیں باہیں گلے میں کہ ہو جائے راضی طبیعت کسی کی خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رُخصت زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے
مرادیں مل رہی ہیں شاد شاد اُن کا سوالی ہے لبوں پر اِلتجا ہے ہاتھ میں روضے کی جالی ہے تری صورت تری سیرت زمانے سے نرالی ہے تری ہر ہر اَدا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے بشر ہو یا مَلک جو ہے ترے دَر کا سوالی ہے تری سرکار والا ہے ترا دربار عالی ہے وہ جگ داتا ہو تم سنسار باڑے کا سوالی ہے دَیا کرنا کہ اس منگتا نے بھی گُدڑی بچھا لی ہے منور دل نہیں فیضِ قدومِ شہ سے روضہ ہے مشبکِ سینۂ عاشق نہیں روضہ کی جالی ہے تمہارا قامتِ یکتا ہے اِکّا بزمِ وحدت کا تمہاری ذاتِ بے ہمتا مثالِ بے مثالی ہے فروغِ اخترِ بدر آفتابِ جلوۂ عارض ضیاے طالعِ بدر اُن کا اَبروے ہلالی ہے وہ ہیں اﷲ والے جو تجھے والی کہیں اپنا کہ تو اﷲ والا ہے ترا اﷲ والی ہے سہارے نے ترے گیسو کے پھیرا ہے بلاؤں کو اِشارے نے ترے ابرو کے آئی موت ٹالی ہے نگہ نے تیر زحمت کے دلِ اُمت سے کھینچے ہیں مژہ نے پھانس حسرت کی کلیجہ سے نکالی ہے فقیرو بے نواؤ اپنی اپنی جھولیاں بھر لو کہ باڑا بٹ رہا ہے فیض پر سرکارِ عالی ہے تجھی کو خلعتِ یکتائیِ عالم ملا حق سے ترے ہی جسم پہ موزوں قباے بے مثالی ہے نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے نکالی ہے تو آنے والوں کی حسرت نکالی ہے بڑھے کیونکر نہ پھر شکل ہلال اسلام کی رونق ہلالِ آسمانِ دیں تری تیغِ ہلالی ہے فقط اتنا سبب ہے اِنعقادِ بزمِ محشر کا کہ ُان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی ہے خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے اُتر سکتی نہیں تصویر بھی حسنِ سراپا کی کچھ اس درجہ ترقی پر تمہاری بے مثالی ہے نہیں محشر میں جس کو دسترس آقا کے دامن تک بھرے بازار میں اِس بے نوا کا ہاتھ خالی ہے نہ کیوں ہو اِتحادِ منزلت مکہ مدینہ میں وہ بستی ہے نبی والی تو یہ اﷲ والی ہے شرف مکہ کی بستی کو ملا طیبہ کی بستی سے نبی والی ہی کے صدقے میں وہ اﷲ والی ہے وہی والی وہی آقا وہی وارث وہی مولیٰ میں اُن کے صدقے جاؤں اور میرا کون والی ہے پکار اے جانِ عیسیٰ سن لو اپنے خستہ حالوں کی مرض نے درد مندوں کی غضب میں جان ڈالی ہے مرادوں سے تمہیں دامن بھرو گے نامرادوں کے غریبوں بیکسوں کا اور پیارے کون والی ہے ہمیشہ تم کرم کرتے ہو بگڑے حال والوں پر بگڑ کر میری حالت نے مری بگڑی بنا لی ہے تمہارے دَر تمہارے آستاں سے میں کہاں جاؤں نہ کوئی مجھ سا بیکس ہے نہ تم سا کوئی والی ہے حسنؔ کا درد دُکھ موقوف فرما کر بحالی دو تمہارے ہاتھ میں دنیا کی موقوفی بحالی ہے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- نہ مایوس ہو میرے دُکھ درد والے
نہ مایوس ہو میرے دُکھ درد والے درِ شہ پہ آ ہر مرض کی دوا لے جو بیمار غم لے رہا ہو سنبھالے وہ چاہے تو دَم بھر میں اس کو سنبھالے نہ کر اس طرح اے دلِ زار نالے وہ ہیں سب کی فریاد کے سننے والے کوئی دم میں اب ڈوبتا ہے سفینہ خدارا خبر میری اے ناخدا لے سفر کر خیالِ رُخِ شہ میں اے جاں مسافر نکل جا اُجالے اُجالے تہی دست و سوداے بازارِ محشر مری لاج رکھ لے مرے تاج والے زہے شوکتِ آستانِ معلّٰی یہاں سر جھکاتے ہیں سب تاج والے سوا تیرے اے ناخداے غریباں وہ ہے کون جو ڈوبتوں کو نکالے یہی عرض کرتے ہیں شیرانِ عالم کہ تو اپنے کتوں کا کتا بنا لے جسے اپنی مشکل ہو آسان کرنی فقیرانِ طیبہ سے آ کر دعا لے خدا کا کرم دستگیری کو آئے ترا نام لے لیں اگر گرنے والے دَرِ شہ پر اے دل مرادیں ملیں گی یہاں بیٹھ کر ہاتھ سب سے اُٹھا لے گھرا ہوں میں عصیاں کی تاریکیوں میں خبر میری اے میرے بدرالدجیٰ لے فقیروں کو ملتا ہے بے مانگے سب کچھ یہاں جانتے ہی نہیں ٹالے بالے لگائے ہیں پیوند کپڑوں میں اپنے اُڑھائے فقیروں کو تم نے دوشالے مٹا کفر کو ، دین چمکا دے اپنا بنیں مسجدیں ٹوٹ جائیں شوالے جو پیش صنم سر جھکاتے تھے اپنے بنے تیری رحمت سے اﷲ والے نگاہِ ز چشم کرم بر حسنؔ کن بکویت رسید ست آشفتہ حالے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے
آپ کے دَر کی عجب توقیر ہے جو یہاں کی خاک ہے اِکسیر ہے کام جو اُن سے ہوا پورا ہوا اُن کی جو تدبیر ہے تقدیر ہے جس سے باتیں کیں اُنھیں کا ہو گیا واہ کیا تقریرِ پُر تاثیر ہے جو لگائے آنکھ میں محبوب ہو خاکِ طیبہ سرمۂ تسخیر ہے صدرِ اقدس ہے خزینہ راز کا سینہ کی تحریر میں تحریر ہے ذرّہ ذرّہ سے ہے طالع نورِ شاہ آفتابِ حُسن عالم گیر ہے لطف کی بارش ہے سب شاداب ہیں اَبرِ جودِ شاہِ عالم گیر ہے مجرمو اُن کے قدموں پر لوٹ جاؤ بس رِہائی کی یہی تدبیر ہے یا نبی مشکل کشائی کیجیے بندۂ در بے دل و دل گیر ہے وہ سراپا لطف ہیں شانِ خدا وہ سراپا نور کی تصویر ہے کان ہیں کانِ کرم جانِ کرم آنکھ ہے یا چشمۂ تنویر ہے جانے والے چل دیئے ہم رہ گئے اپنی اپنی اے حسنؔ تقدیر ہے ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو
تم ذاتِ خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو ﷲ کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو یہ کیوں کہوں مجھ کو یہ عطا ہو یہ عطا ہو وہ دو کہ ہمیشہ مرے گھر بھر کا بھلا ہو جس بات میں مشہورِ جہاں ہے لبِ عیسیٰ اے جانِ جہاں وہ تری ٹھوکر سے اَدا ہو ٹوٹے ہوئے دم جوش پہ طوفانِ معاصی دامن نہ ملے اُن کا تو کیا جانیے کیا ہو یوں جھک کے ملے ہم سے کمینوں سے وہ جس کو ﷲ نے اپنے ہی لیے خاص کیا ہو مِٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی جب خاک اُڑے میری مدینہ کی ہوا ہو منگتا تو ہیں منگتا کوئی شاہوں میں دکھا دے جس کو مرے سرکار سے ٹکڑا نہ ملا ہو قدرت نے اَزل میں یہ لکھا اُن کی جبیں پر جو اِن کی رِضا ہو وہی خالق کی رِضا ہو ہر وقت کرم بندہ نوازی پہ تُلا ہے کچھ کام نہیں اِس سے بُرا ہو کہ بھلا ہو سو جاں سے گنہگار کا ہو رختِ عمل چاک پردہ نہ کھلے گر ترے دامن سے بندھا ہو اَبرار نکوکار خدا کے ہیں خدا کے اُن کا ہے وہ اُن کا ہے جو بد ہو جو بُرا ہو اَے نفس اُنھیں رَنج دیا اپنی بدی سے کیا قہر کیا تو نے ارے تیرا بُرا ہو ﷲ یونہی عمر گزر جائے گدا کی سر خم ہو دَرِ پاک پر اور ہاتھ اُٹھا ہو شاباش حسنؔ اور چمکتی سی غزل پڑھ دل کھول کر آئینۂ ایماں کی جِلا ہو ذوقِ نعت #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان
- دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے
دمِ اضطراب مجھ کو جو خیالِ یار آئے مرے دل میں چین آئے تو اسے قرار آئے تری وحشتوں سے اے دل مجھے کیوں نہ عار آئے تو اُنھیں سے دُور بھاگے جنھیں تجھ پہ پیار آئے مرے دل کو دردِ اُلفت وہ سکون دے الٰہی مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے مجھے نزع چین بخشے مجھے موت زندگی دے وہ اگر مرے سرھانے دمِ احتضار آئے سببِ وفورِ رحمت میری بے زبانیاں ہیں نہ فغاں کے ڈھنگ جانوں نہ مجھے پکار آئے کھلیں پھول اِس پھبن کے کھلیں بخت اِس چمن کے مرے گل پہ صدقے ہو کے جو کبھی بہار آئے نہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھا وہ بنے خدا کا پیارا تمھیں جس پہ پیار آئے مجھے کیا اَلم ہو غم کا مجھے کیا ہو غم اَلم کا کہ علاج غم اَلم کا میرے غمگسار آئے جو امیر و بادشا ہیں اِسی دَر کے سب گدا ہیں تمھیں شہر یار آئے تمھیں تاجدار آئے جو چمن بنائے بَن کو جو جِناں کرے چمن کو مرے باغ میں الٰہی کبھی وہ بہار آئے یہ کریم ہیں وہ سرور کہ لکھا ہوا ہے دَر پر جسے لینے ہوں دو عالم وہ اُمیدوار آئے ترے صدقے جائے شاہا یہ ترا ذلیل منگتا ترے دَر پہ بھیک لینے سبھی شہر یار آئے چمک اُٹھے خاکِ تیرہ بنے مہر ذرّہ ذرّہ مرے چاند کی سواری جو سر مزار آئے نہ رُک اے ذلیل و رُسوا درِ شہریار پر آ کہ یہ وہ نہیں ہیں حاشا جنھیں تجھ سے عار آئے تری رحمتوں سے کم ہیں مرے جرم اس سے زائد نہ مجھے حساب آئے نہ مجھے شمار آئے گل خلد لے کے زاہد تمھیں خارِ طیبہ دے دوں مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے بنے ذرّہ ذرّہ گلشن تو ہو خار خار گلبن جو ہمارے اُجڑے بَن میں کبھی وہ نگار آئے ترے صدقے تیرا صدقہ ہے وہ شاندار صدقہ وہ وقار لے کے جائے جو ذلیل و خوار آئے ترے دَر کے ہیں بھکاری ملے خیر دم قدم کی ترا نام سن کے داتا ہم اُمیدوار آئے حسنؔ اُن کا نام لے کر تو پکار دیکھ غم میں کہ یہ وہ نہیں جو غافل پسِ اِنتظار آئے #ذوقنعت #مولاناحسنرضاخان