نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
1338 items found for ""
- حقیقت آپ کی حق جانتا ہے
حقیقت آپ کی حق جانتا ہے وہ وہم و فہم سے آقا ورا ہے کچھ ایسا آپ کو حق نے کیا ہے کہ خود وہ آپ کا طالب ہوا ہے بلند اتنا تجھے حق نے کیا ہے کہ عرش حق بھی تیرے زیر پا ہے جو اوروں کے علو کی انتہا ہے وہ سرکاری علو کی ابتدا ہے خدا کی ذات تک تو ہی رسا ہے کسی کا بھی یہ عالی مرتبہ ہے نہ ہے تم سا نہ کوئی ہوگا آگے نہ اے آقا کوئی تم سا ہوا ہو ملائک میں رسل میں انبیا میں کوئی عرش علا تک بھی گیا ہے تعالی اللہ تیری شان عالی جلالت شان کی کیا انتہا ہے نکالی زورق خورشید ڈوبی اشارے سے قمر ٹکڑے کیا ہے تمہیں ہو دوسرا میں سب سے بالا بس اک اللہ ہی تم سے سوا ہے تری صورت سے ہے حق آشکارا خدا بھاتی تری ہر ہر ادا ہے نہیں ہو سکتا تجھ سے کوئی باہر کہ تو ہی مبتدا و منتہا ہے تو ہے نور خدا پھر سایہ کیسا کہیں بھی نور کا سایہ پڑا ہے تو ہے ظل خدا واللہ باللہ کہیں سائے کا بھی سایہ پڑا ہے زمیں پر تیرا سایہ کیسے پڑتا ترا منسوب ارفع دائما ہے خدا کا فضل اعظم آپ پر ہے سکھا سب کچھ تمہیں حق نے دیا ہے نہ منت تم پہ استادوں کی رکھی تمہارا امی ہونا معجزا ہے ہتیلی کی طرح پیش نظر ہے ہوا جو ہوگا جو کچھ ہو رہا ہے نہ کوئی راز ہو پوشیدہ تم سے نہ کوئی راز پوشیدہ رہا ہے چھپا تم سے رہے کیونکر کوئی راز خدا بھی تو نہیں تم سے چھپا ہے مسلط غیب پر تو کیوں نہ ہوتا نبی و مجتبیٰ و مرتضٰی ہے تری مرضی رضائے حق ہے مولیٰ رضائے حق تری مرضی شہا ہے گزر تیرا ہوا ہے جس گلی سے تری خوشبو سے ہر ذرہ بسا ہے درودیں تم پہ حق کی ہوں ہمیشہ ہماری حق سے ہر دم یہ دعا ہے درود اس پر ہو جس پر حق درودیں بہر لحظہ بہ ہر دم بھیجتا ہے سلام اس پر جو ہے مطلوب رب کا سلام اس پر جو محبوب خدا ہے سلام اس پر یہ بحر و بر ہیں جس کے سلام اس پر جو شاہ دوسرا ہے جس آقا کے ملائک ہیں سلامی جو شاہ کرسی و عرش علا ہے خدا کی سلطنت کا جو ہے دولہا سلام اس پر جو رحمت کا بنا ہے جسے سنگ و شجر تسلیمیں کرتے سلام اس پر جو ایسا بادشا ہے سلام اس پر جو اول ہے رسل کا سلام اس پر جو ختم الانبیا ہے سلام اول کا اول پر ہمیشہ سلام باقی ہو جب تک بقا ہے سلام آخر کا آخر پر ہو دائم نہ بس عالم ہی تک جس کو فنا ہے سلام ظاہر و باطن ہو اس پر جو ظاہر ہو کے باطن ہو گیا ہے سلام اے جان رحمت کان نعمت سلام اے کہ وہ سان حق نما ہے رہے جلوہ تمہارا دل کے اندر مرے پیارے یہ دل کا مدعا ہے رہے پیش نظر وہ روئے انور ترستی آنکھوں کی یہ التجا ہے شراب دید سے دل شاد کیجے ہمارے درد کی یہ ہی دوا ہے یہیں ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ یہیں شاہ و گدا سب کا ٹھیا ہے دم آخر تو آجا جان عیسیٰ ہیں ساقط نبضیں گھنگر بولتا ہے دم آخر چلے آؤ خدا را دکھا دو مرنے والا جی رہا ہے ترے قدموں میں جس کو موت آئے حیات جاوداں اس کی قضا ہے ہٹا دیجے رخ انور سے گیسو اندھیرا قبر کا کالی بلا ہے دکھا دیجے شہا پر نور چہرہ صفت میں جس کی والشمس اور ضحیٰ ہے سنگھا دیجے ہمیں وہ زلف مشکیں صفت میں جس کی والیل سجیٰ ہے ترے قربان اے زلف معنبر ہمارے سر ہجوم بد بلا ہے مرے سر سے بلائیں دور فرما بلاؤں میں یہ بندہ مبتلا ہے نحیف و ناتواں سرکار ہم ہیں بہت صبر آزما یہ ابتلا ہے پریشاں ہوں پریشانی کرو دور بلاؤں میں یہ بندہ مبتلا ہے نہ کیجے دور اپنے در سے ہم کو پڑا رہنے دو جو در پر پڑا ہے شہید کربلا کا صدقہ دے دے تو شاہا دافع کرب و بلا ہے پریشاں ہوں پریشانی کرو دور پریشاں سا پریشاں دل میرا پریشانی وطن کی یاد کر کے پریشاں دل ابھی سے ہو رہا ہے پریشانی ہے گونا گوں وطن میں پریشاں ان کو فرمادو تو کیا ہے یہاں کیوں کر نہ دل آرام پائے جہاں آرام جان و دل مرا ہے میں گھر جاؤں تو ان میں گِھر نہ جاؤں یہاں بس یہ تفکر ہو رہا ہے رموز مصلحت سرکار جانیں اگر واپس ہی فرمانا بھلا ہے مگر اتنی گزارش کی اجازت یہ بندہ دست بستہ چاہتا ہے ہمیں پھر اپنے قدموں میں بلانا یہی مولیٰ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پھر سرکار کے قدموں میں لائے یہیں پر مرنے جینے میں مزا ہے قیامت ہے قیامت ہے قیامت جدھر دیکھو ادھر محشر بپا ہے زمیں تانبے کی ہے سورج سروں پر تپش سے بھیجا سر میں کھولتا ہے ذرا سا بھی نہیں سایہ کہیں پر عرق اتنا بہا دریا بہا ہے زبانیں سوکھی ہیں کانٹے جمے ہیں عطش سے حال ابتر ہو رہا ہے کلیجے منہ کو آئے دم گھٹے ہیں الٹ کر دل گلے میں آرہا ہے سراپا کوئی تو غرقِ عرق ہے کسی کے منہ تک آکر رہ گیا ہے تڑپتا ہے کوئی بے چین ہوکر کوئی گر کر زمیں پر لوٹتا ہے مثال ماہی بے آب کوئی کوئی جل کر کباب سوختہ ہے عجب ہی کس مپرسی کا ہے عالم جسے دیکھو بھڑکتا بھاگتا ہے زن و شو میں نہیں باقی تعارف نہ بھائی بھائی کو پہچانتا ہے نہ کوئی آج حامی ہے نہ یاور کہیں کس سے کہ ایسا ماجرا ہے برے احوال ہیں اس روز اف اف بہت اہوال بہ کا سامنا ہے کوئی ہانپے کوئی کانپے کرا ہے کوئی روتا کوئی چلا رہا ہے ہے دار و گیر کا ہنگامہ برپا بہت سخت آفتوں کا سامنا ہے رسل بھی نفسی نفسی کہہ رہے ہیں حمایت کا کسے اب آسرا ہے بندھے گی آس اپنی بعد ہریاس اسی سے جو ہمارا آسرا ہے اسی کے پاس سب پہنچیں گے آخر وہ جس کا نام نامی مصطفےٰ ہے شفاعت کا اسی کے سر ہے سہرا وہی اس بزم کا دولہا بنا ہے چلو اے عاصیو! کیوں کڑھ رہے ہو وہ محبوب خدا جلوہ نما ہے ملول اے غمزدو تم کس لئے ہو وہ پیارا مصطفےٰ جب غمزُدا ہے سنیں گے سننے والے اِذْھَبُوْا کے زبان پاک پر اِنِّیْ لَھَا ہے مظالم کرلیں جتنے ہوویں ظالم نہ کر غم نوریؔ کہ اپنا بھی خدا ہے سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے
پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے مریض عشق کی لائی دوا مدینے سے سنو تو غور سے آئی صدا مدینے سے قریں ہے رحمت و فضل خدا مدینے سے ملے ہمارے بھی دل کو جلا مدینے سے کہ مہر و ماہ نے پائی ضیا مدینے سے تمہاری ایک جھلک نے کیا اسے دلکش فروغ حسن نے پایا شہا مدینے سے تمام شاہ و گدا پل رہے ہیں اس در سے ملی جہان کو روزی سدا مدینے سے جو آیا لے کے گیا کون لوٹا خالی ہاتھ بتادے کوئی سنا ہو جو ’’لا‘‘ مدینے سے بتادے کوئی کسی اور سے بھی کچھ پایا جسے ملا جو ملا وہ ملا مدینے سے وہ آیا خلد میں جو آگیا مدینے میں گیا وہ خلد سے جو چل دیا مدینے سے نہ چین پائے گا یہ غم زدہ کسی صورت مریض غم کو ملے گی شفاعت مدینے سے لگاؤ دل کو نہ دنیا میں ہر کسی شے سے تعلق اپنا ہو کعبے سے یا مدینے سے گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نور کیوں ہو نوا سے پہلے ملے بے نوا مدینے سے چمن کے پھول کھلے مردہ دل بھی جی اٹھے نسیم خلد سے آئی ہے یا مدینے سے کرے گی مردوں کو زندہ یہ تشنوں کو سیراب وہ دیکھوں اٹھی کرم کی گھٹا مدینے سے مدینہ چشمۂ آب حیات ہے یارو چلو ہمیشہ کی لے لو بقا مدینے سے فضائے خلد کے قرباں مگر وہ بات کہاں مل آئیں حضرت رضواں ذرا مدینے سے ہمارے دل کو تو بھایا ہے طیبہ ہی زاہد تمہیں ہے مکہ تو ہوگا سوا مدینے سے چلے جو طیبہ سے مسلم تو خلد میں پہنچے کہ سیدھا خلد کا ہے راستہ مدینے سے تم ایک آن میں آئے گئے تمہارے لئے دوگام بھی نہیں عرش علا مدینے سے تمہارے قدموں پہ سر صدقے جاں فدا ہو جائے نہ لائے پھر مجھے میرا خدا مدینے سے ترے حبیب کا پیارا چمن کیا برباد الہٰی! نکلے یہ نجدی بلا مدینے سے ترے نصیب کا نورؔی ملے گا تجھ کو بھی لے آئے حصہ یہ شاہ و گدا مدینے سے سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- کرم جو آپ کا اے سید ابرار ہو جائے
کرم جو آپ کا اے سید ابرار ہو جائے تو ہر بدکار بندہ دم میں نیکو کار ہو جائے جو مومن دیکھے تم کو محرم اسرار ہو جائے جو کافر دیکھ لے تم کو تو وہ دیندار ہو جائے جو سر رکھ دے تمہارے قدموں پہ سردار ہو جائے جو تم سے سر کوئی پھیرے ذلیل و خوار ہو جائے جو ہو جائے تمہارا اس پہ حق کا پیار ہو جائے بنے اللہ والا وہ جو تیرا یار ہو جائے اگر آئے وہ جان نور میرے خانۂ دل میں مہ و خاور مرا گھر مطلع انوار ہو جائے غم و رنج و الم اور سب بلاؤں کا مداوا ہو اگر وہ گیسوؤں والا مرا دلدار ہو جائے عنایت سے مرے سر پر اگر وہ کفش پا رکھ دیں یہ بندہ تاجداروں کا بھی تو سردار ہو جائے تلاطم کیسا ہی کچھ ہے مگر اے نا خدائے من اشارہ آپ فرما دیں تو بیڑا پار ہو جائے جو ڈوبا چاہتا ہے وہ تو ڈوبا ہوا بیڑا اشارہ آپ کا پائے تو مولیٰ پار ہو جائے تمہارے فیض سے لاٹھی مثال شمع روشن ہو جو تم لکڑی کو چاہو تیز تر تلوار ہو جائے گنہ کتنے ہی اور کیسے ہی ہیں پر رحمت عالم شفاعت آپ فرمائیں تو بیڑا پار ہو جائے بھرم رہ جائے محشر میں نہ پلہ ہلکا ہو اپنا الہٰی! میرے پلے پر مرا غم خوار ہو جائے اشارہ پائے تو ڈوبا ہوا سورج بر آمد ہو اٹھے انگلی تو مہ دو بلکہ دو دو چار ہو جائے ترا تصدیق کرنے والا ہے اللہ کا مومن ترا منکر وہ جس کو حق سے ہی انکار ہو جائے مرے ساقی مے باقی پلادے ایک عالم کو جو باقی اور پیاسا ہے ترا میخوار ہو جائے تمہارے حکم کا باندھا ہوا سورج پھرے الٹا جو تم چاہو کہ شب دن ہوا بھی سرکار ہو جائے قوافی اور مضامیں اچھے اچھے ہیں ابھی باقی مگر بس بھی کرو نورؔی نہ پڑھنا بار ہو جائے سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو شمع رسالت ہے عالم ترا پروانہ تو ماہ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ جو ساقئ کوثر کے چہرے سے نقاب اٹھے ہر دل بنے میخانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ دل اپنا چمک اٹھے ایمان کی طلعت سے کر آنکھیں بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ سرشار مجھے کر دے اک جام لبالب سے تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ تم آئے چھٹی بازی رونق ہوئی پھر تازی کعبہ ہوا پھر کعبہ کر ڈالا تھا بت خانہ مست مے الفت ہے مدہوش محبت ہے فرزانہ ہے دیوانہ دیوانہ ہے فرزانہ میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے ہے ٹوٹا ہوا دل ہی مولیٰ ترا کاشانہ کیوں زلف معنبر سے کوچے نہ مہک اٹھیں ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا تری شانہ اس در کی حضور ہی عصیاں کی دوا ٹھہری ہے زہر معاصی کا طیبہ ہی شفا خانہ ہر پھول میں بو تیری ہر شمع میں ضو تیری بلبل ہے ترا بلبل پروانہ ہے پروانہ پیتے ہیں ترے درکا کھاتے ہیں ترے درکا پانی ہے ترا پانی دانہ ہے ترا دانہ ہر آرزو بر آئے سب حسرتیں پوری ہوں وہ کان ذرا دھر کر سن لیں مرا افسانہ سنگ درجاناں پر کرتا ہوں جبیں سائی سجدہ نہ سمجھ نجدی سر دیتا ہوں نذرانہ گر پڑ کے یہاں پہنچا مر مر کے اسے پایا چھوٹے نہ الہٰی اب سنگ در جانانہ سنگ در جاناں ہے ٹھو کر نہ لگے اس کو لے ہوش پکڑ اب تو اے بغزش مستانہ وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ اے کاش وہ سن لیتے مجھ سے مرا افسانہ اے مفلسو! نادارو! جنت کے خریداروں! کچھ لائے ہو بیعانہ کیا دیتے ہو بیعانہ کچھ نیک عمل بھی ہیں یا یوں ہی امل ہی ہے دنیا کی بھی ہر شے کا تم لیتے ہو بیعانہ کچھ اس سے نہیں مطلب ہے دوست کہ دشمن ہے ان کو تو کرم کرنا اپنا ہو کہ بیگانہ حب صنم دنیا سے پاک کر اپنا دل اللہ کے گھر کو بھی ظالم کیا بت خانہ تھے پاؤں میں بے خود کے چھالے تو چلا سر سے ہشیار ہے دیوانہ ہشیار ہے دیوانہ آنکھوں میں مری تو آ اور دل میں مرے بس جا دل شاد مجھے فرما اے جلوۂ جانانہ آباد اسے فرما ویراں ہے دل نورؔی جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ سرکار کے جلووں سے روشن ہے دل نورؔی تا حشر رہے روشن نوریؔ کا یہ کاشانہ سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو
کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو خدا تو کہہ نہیں سکتے مگر شان خدا تم ہو نبیوں میں ہو تم ایسے نبی الانبیا تم ہو حسینوں میں تم ایسے ہو کہ محبوب خدا تم ہو تمہارا حسن ایسا ہے کہ محبوب خدا تم ہو مہ کامل کرے کسب ضیا وہ مہ لقا تم ہو علو مرتبت پیارے تمہارا سب پہ روشن ہے مکین لامکاں تم ہو شہ عرش علا تم ہو تمہاری حمد فرمائی خدا نے اپنے قرآں میں محمد اور ممجد، مصطفےٰ و مجتبیٰ تم ہو جو سب سے پچھلا ہو پھر اس کا پچھلا ہو نہیں سکتا کہ وہ پچھلا نہیں اگلا ہو اس سے ورا تم ہو تمہیں سے فتح فرمائی تمہیں پر ختم فرمائی رسل کی ابتدا تم ہو نبی کی انتہا تم ہو خدا نے ذات کا اپنی تمہیں مظہر بنایا ہے جو حق کو دیکھنا چاہیں تو اس کے آئینہ تم ہو تمہیں باطن تمہیں ظاہر تمہیں اول تمہیں آخر نہاں بھی ہو عیاں بھی مبتدا و منتہا تم ہو منور کر دیا ہے آپ کے جلوؤں نے عالم کو مہ و خورشید کو بخشی ضیا نور خدا تم ہو مٹادی کفر کی ظلمت تمہارے روئے روشن نے سویرا شرک کا تم نے کیا شمس الضحیٰ تم ہو جہاں تاریک تھا سارا اندھیرا ہی اندھیرا تھا تم آئے ظلمتیں تم سے مٹیں بدرالدجیٰ تم ہو مرا منہ کیا کہ میں مدح و ستائش میں زباں کھولوں مرے آقا تم ایسے کہ ممدوح خدا تم ہو رفعنا سے تمہاری رفعت بالا ہوئی ظاہر کہ محبوبان رب میں سب سے عالی مرتبہ تم ہو علو رتبۂ سرکار عالی سب پہ روشن ہے مکین لامکاں تم ہو شہ عرش علا تم ہو شب معراج سے اے سید کل ہو گیا ظاہر رسل ہیں مقتدی سارے امام الانبیا تم ہو نہ ہوتے تم نہ ہوتے وہ کہ اصل جملہ تم ہی ہو خبر تھے وہ تمہاری میرے مولیٰ مبتدا تم ہو تمہارے چاہنے والے کو کچھ ایسی محبت ہے ادھر ہوجائے وہ مولیٰ جدھر صدرالوریٰ تم ہو تمہارے چاہنے والے اسے محبوب ہیں سارے کچھ اس انداز کے پیارے حبیب کبریا تم ہو تمہارے بعد پیدا ہو نبی کوئی نہیں ممکن نبوت ختم ہے تم پر کہ ختم الانبیا تم ہو یہ کیا میں نے کیا کیوں ڈھونڈ ڈالا عرصۂ محشر ہمیں معلوم تھا پیارے ہمارا مدعا تم ہو مگر ایسا نہ کیوں ہوتا کہ محشر میں یہ کھلنا تھا شفیع مجرماں پیش خدا تنہا شہا تم ہو گرفتار بلا حاضر ہوئے ہیں ٹوٹے دل لے کر کہ ہر بے کل کی کل ٹوٹے دلوں کا آسرا تم ہو خبر لیجے خدارا میرے مولیٰ مجھ سے بے کس کی کہ ہر بے کس کے کس بے بس کے بس روحی فدا تم ہو مسلط کردیا تم کو خدا نے اپنے غیبوں پر نبی مجتبیٰ تم ہو رسول مرتضیٰ تم ہو چمک جائے دل نورؔی تمہارے پاک جلوؤں سے مٹادو ظلمتیں دل کی مرے نور الہدیٰ تم ہو سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- کیا کہوں کیسے ہیں پیارے تیرے پیارے گیسو
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے تیرے پیارے گیسو دونوں عارض ہیں ضحیٰ لیل کے پارے گیسو دست قدرت نے ترے آپ سنوارے گیسو حور سو ناز سے کیوں ان پہ نہ وارے گیسو خاک طیبہ سے اگر کوئ نکھارے گیسو سنبل خلد تو کیا حور بھی ہارے گیسو سنبل طیبہ کو دیکھے جو سنوارے گیسو سنبل خلد کے رضواں بھی نثارے گیسو کس لئے عنبر سارا نہ ہوں سارے گیسو گیسو کس کے ہیں یہ پیارے ہیں تمہارے گیسو ہوں نہ کیوں رحمت حق، حق میں ہمارے گیسو گیسو اے جان کرم ہیں یہ تمہارے گیسو یہ گھٹا جھوم کے کعبہ کی فضا پر آئی اڑ کے یا ابرو پہ چھائے ہیں تمہارے گیسو ماہ تاباں پہ ہیں رحمت کی گھٹائیں چھائیں روئے پر نور پہ یا چھائے تمہارے گیسو سر بسجدہ ہوئے محراب خم ابرو میں کعبۂ جاں کے جو آئے ہیں کنارے گیسو نیر حشر ہے سر پر نہیں سایہ سرور ہے کڑی دھوپ کریں سایہ تمہارے گیسو سوکھ جائے نہ کہیں کشت امل اے سرور بوندیاں لکۂ رحمت سے اتارے گیسو اپنی زلفوں سے اگر نعل مبارک پونچھے رضواں برکت کے لئے حور کے دھارے گیسو گرد جھاڑی ہے ترے روضہ کی بالوں سے شہا مشک بو کیسے نہ ہوں آج ہمارے گیسو اب چمکتی ہے سیہ کارو تمہاری قسمت لو جھکے اذن کے سجدے کو وہ پیارے گیسو پیش مولائے رضا جو ہیں جھکے سجدے میں کرتے ہیں بخشش امت کے اشارے گیسو پھوار مستوں پہ ترے ابر کرم کی برسے ساقیا کھول ذرا حوض کنارے گیسو سایہ بھی چاہئے ہے مستوں کو دو چھینٹے میں کاش ساقی کے کھلیں حوض کنارے گیسو عنبرستاں بنے محشر کا وہ میداں سارا کھول دے ساقی اگر حوض کنارے گیسو بادہ و ساقی لب جو تو ہیں پھر ابر بھی ہو ساقی کھل جائیں ترے حوض کنارے گیسو یہ سر طور سے گرتے ہیں شرارے نورؔی روئے پر نور پہ یا وارے ہیں تارے گیسو سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- بہار جانفزا تم ہو، نسیم داستاں تم ہو
بہار جانفزا تم ہو، نسیم داستاں تم ہو بہار باغ رضواں تم سے ہے زیب جناں تم ہو حبیب رب رحمٰں تم مکین لامکاں تم ہو سر ہر دو جہاں تم ہو شہ شانہشہاں تم ہو حقیقت آپ کی مستور ہے یوں تو نہاں تم ہو نمایاں ذرے ذرے سے ہیں جلوے یوں عیاں تم ہو حقیقت سے تمہاری جز خدا اور کون واقف ہے کہے تو کیا کہے کوئی چنیں تم ہو چناں تم ہو خدا کی سلطنت کا دو جہاں میں کون دولہا ہے تم ہی تم ہو تم ہی تم ہو یہاں تم ہو وہاں تم ہو تمہارا نور ہی ساری ہے ان ساری بہاروں میں بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو زمین و آسماں کی سب بہاریں آپ کا صدقہ بہار بے خزاں تم ہو بہار جاوداں تم ہو تمہارے حسن و رنگ و بو کی گل بوٹے حکایت ہیں بہار گلستاں تم ہو بہار بوستاں تم ہو تمہاری تابش رخ ہی سے روشن ذرہ ذرہ ہے مہ و خورشید و انجم برق ہیں میں جلوہ کناں تم ہو نظر عارف کو ہر عالم میں آیا آپ کا عالم نہ ہوتے تم تو کیا ہوتا بہار ہر جہاں تم ہو تمہارے جلوۂ رنگیں ہی کی سری بہاریں ہیں بہاروں سے عیاں تم ہو بہاروں میں نہاں تم ہو مجسم رحمت حق ہو کہ اپنا غم نہ اندیشہ مگر ہم سے سیہ کاروں کی خاطر یوں روا ں تم ہو کجا ہم خاک افتادہ کجا تم اے شہ بالا اگر مثل زمیں ہم ہیں تو مثل آسماں تم ہو یہ کیا میں نے کہا مثل سما تم ہو معاذاللہ منزہ مثل سے برتر زہر و ہم و گماں تم ہو میں بھولا آپ کی رفعت سے نسبت ہی ہمیں کیا ہے؟ وہ کہنے بھر کی نسبے تھی کہاں ہم ہیں کہاں تم ہو چہ نسبت خاک رابا عالم پاکت کہ اے مولیٰ گدائے بے نوا ہم ہیں شہ عرش آستاں تم ہو میں بیکس ہوں میں بے بس ہوں مگر کس کا تمہارا ہوں تہ دامن مجھے لے لو پناہ بے کساں تم ہو حقیقت میں نہ بیکس ہوں نہ بے بس ہوں نہ نا طاقت میں صدقے جاؤں مجھ کمزورکے تاب و تواں تم ہو ہمیں امید ہے روز قیامت ان کی رحمت سے کہ فرمائیں ادھر آؤ نہ مایوس از جناں تم ہو ستم کارو! خطا کارو! سیہ کارو! جفا کارو! ہمارے دامن رحمت میں آجاؤ کہاں تم ہو ستم کارو! چلے آؤ چلے آؤ چلےآؤ ہمارے ہو ہمارے ہو اگر چہ از بداں تم ہو تمہارے ہوتے ساتے درد دکھ کس سے کہوں پیارے شفیع عاصیاں تم ہو وکیل مجرماں تم ہو مسیح پاک کے قرباں مگر جان دل و ایماں ہمارے درد کے درماں طبیب انس و جاں تم ہو دکھائے لاکھ آنکھیں مہر محشر کچھ نہیں پروا خدا رکھے تمہیں تم ہو مرے امن و اماں تم ہو ریاضت کے یہی دن ہیں بڑھا پے میں کہاں ہمت جو کچھ کرنا ہو اب کر لو ابھی نورؔی جواں تم ہو فقط نسبت کا جیسا ہوں حقیقی نوری ہو جاؤں مجھے جو دیکھے کہہ اٹھے میاں نوری میاں تم ہو ثنا منظور ہے ان کی، نہیں یہ مدعا نورؔی سخن سنج و سخنور و سخن کے نکتہ داں تم ہو سامانِ #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- شاہ والا مجھے طیبہ بلا لو
شاہ والا مجھے طیبہ بلا لو طیبہ بلالو مجھے طیبہ بلا لو ڈیوڑھی کا اپنی کتا بنالو قدموں سے اپنے مجھ کو لگالو صدقے میں صدقے میں صدقے بلا لو فرقت کے مارے کو پیارے جلا لو پیارے جلا لو مجھے پیارے جلا لو مولیٰ جلا لو مجھے آقا جلا لو دنیا کے جھگڑوں سے یکسر چھڑا کر غیروں کی الفت کو دل سے مٹا کر شاہ والا مجھے پیارے جلا لو اپنا بنا لو مجھے اپنا بنا لو نیکوں کے صدقے میں ہم سے بدوں کو زار و نزار و مصیبت زدوں کو مولیٰ نبھا لو مرے مولیٰ نبھا لو ہاں ہاں نبھا لو مرے مولیٰ نبھا لو ہوتے ہو تم کیوں مایوس و مصنطر کس واسطے ہو حیران و ششدر دکھ درد والو سنو دکھ درد والو طیبہ سے ہر ایک اپنی دوا لو دارالشفاء طیبہ میں آؤ جو مانگو فوراً منہ مانگی پاؤ اندوہ و غم سب اپنے مٹالو رنج و الم سب دل سے نکالو آنکھوں میں آؤ دل میں سماؤ پردہ اٹھاؤ جلوہ دکھاؤ حسرت زدہ کی پیارے دعالو حسرت نکالو مری حسرت نکالو قربان جاؤں قربان جاؤن سر صدقے کر کے صدقے اتاروں قدموں میں اپنے مولیٰ بلا لو مولیٰ بلا لو مجھے آقا بلا لو باد مخالف تیز آرہی ہے کشتی ہماری چکرا رہی ہے منجدھار میں ہے مولیٰ بچا لو پیارے بچا لو مجھے شاہا بچا لو ڈولت ہے نیا موری بھنور میں مولیٰ تراؤ ایکے نجر میں موری کھبریا مورے پیا لو موکو بچا لو پیا موکو بچا لو تائب ہوں نجدی آئب ہوں نجدی اور یہ نہ ہو تو خائب ہوں نجدی غائب ہوں نجدی مولیٰ نکالو جلدی نکالو انہیں جلدی نکالو یہ نورؔی مصنطر تیرا ثناگر اور اس کا گھر بھر ہو حاضر در اپنے گدا گر کو در پر بلا لو امن و اماں سے ہمیں سرور بلا لو سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- حبیب خدا نظارا کروں میں
حبیب خدا نظارا کروں میں دل و جان ان پر نثار کروں میں تری کفش پا یوں سنوارا کروں میں کہ پلکوں سے اس کو بہارا کروں میں تری رحمتیں عام ہیں پھر بھی پیارے یہ صدمات فرقت سہارا کروں میں مجھے اپنی رحمت سے تو اپنا کر لے سوا تیرے سب سے کنارا کروں میں میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں ترے در سے اپنا گزارا کروں میں سلاسل مصائب کے ابرو سے کاٹو کہاں تک مصائب گوارا کروں میں خدا را اب آؤ کہ دم ہے لبوں پر دم واپسیں تو نظارا کروں میں ترے نام پر سر کو قربان کر کے ترے سر سے صدقہ اتارا کروں میں یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروروں ترے نام پر سب کو وارا کروں میں مجھے ہاتھ آئے اگر تاج شاہی تری کفش پا پر نثارا کروں میں ترا ذکر لب پر خدا دل کے اندر یونہی زندگانی گزارا کروں میں دم واپسیں تک ترے گیت گاؤں محمد محمد پکارا کروں میں ترے در کے ہوتے کہاں جاؤں پیارے کہاں اپنا دامن پسارا کروں میں مرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں تمہاری ہی جانب اشارا کروں میں خدا ایسی قوت دے میرے قلم میں کہ بدمذہبوں کو سدھارا کروں میں جو ہو قلب سونا تو یہ ہے سہاگا تری یاد سے دل نکھارا کروں میں خدا ایک پر ہو تو اک پر محمد اگر قلب اپنا دو پارا کروں میں خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نورؔی مدینے کی گلیاں بہارا کروں میں صبا ہی سے نورؔی سلام اپنا کہہ دے سوا اس کے کیا اور چارا کروں میں سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں
کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں نہ کیسے یہ گل و غنچے ہوں خوار آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں ہوا ہے جلوہ نما گل عذار آنکھوں میں خزاں کے دور میں پھولی بہار آنکھوں میں سرور و نور ہو دل میں بہار آنکھوں میں جو خواب میں کبھی آئے نگار آنکھوں میں وہ نور دے مرے پروردگار آنکھوں میں کہ جلوہ گر رہے رخ کی بہار آنکھوں میں نظر ہو قدموں پر ان کے نثار آنکھوں میں بنائیں اپنا ہوں وہ رہ گزار آنکھوں میں نہ اک نگاہ ہی صدقہ ہو دل بھی قرباں ہو کرم کرے تو وہ ناقہ سوار آنکھوں میں بصر کے ساتھ بصیرت بھی خوب روشن ہو لگاؤں خاک قدم بار بار آنکھوں میں تمہارے قدموں پہ موتی نثار ہونے کو ہیں بے شمار مری اشکبار آنکھوں میں نظر نہ آیا قرار دل حزیں اب تک نگاہ رہتی ہے یوں بے قرار آنکھوں میں انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہیں یہ آنکھیں کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں عجب نہیں کہ لکھا لوح کا نظر آئے جو نقش پا کا لگاؤں غبار آنکھوں میں ملے جو خاک قدم ان کی مجھ کو قسمت سے لگاؤں سرمہ نہ پھر زینہار آنکھوں میں مدینہ جان چمن اور خزاں سے ایمن ہے لگائے خاک وہاں کی ہزار آنکھوں میں کھلے ہیں دیدۂ عشاق خواب مرگ میں بھی کہ اس نگار کا ہے انتظار آنکھوں میں خزاں کا دور ہوا دور وہ جہاں آئے ہوئی ہے قدموں سے ان کے بہار آنکھوں میں یہ اشتیاق تری دید کا ہے جان جہاں دم آگیا ہے دم احتضار آنکھوں میں یہ آسمان کے تارے یہ نرگس شہلا ترا ہی جلوہ ہے ان بے شمار آنکھوں میں یہ دم ہمارا کوئی دم کا اور مہماں ہے کرم سے لیجئے دم بھر قرار آنکھوں میں وہ سبز سبز نظر آرہا ہے گنبد سبز قرار آگیا یوں بے قرار آنکھوں میں بہار دنیا ہے فانی نظر نہ کر اس پر ہے کوئی دم کی یہ ساری بہار آنکھوں میں یہ گل یہ غنچے یہ گلشن کے بیل اور بوٹے انہیں کے دم کی ہے ساری بہار آنکھوں میں یہ حال زار ہے فرقت میں تیرے مصنطر کا کہ اشک آتے ہیں بے اختیار آنکھوں میں وہی مجھے نظر آئیں جدھر نگاہ کروں انہیں کا جلوہ رہے آشکار آنکھوں میں یہ دل تڑپ کے کہیں آنکھوں میں نہ آجائے کہ پھر رہا ہے کسی کا مزار آنکھوں میں نہ ایسے پھول کھلے ہیں کبھی نہ آگے کھلیں بہاروں میں ہے عرب کی بہار آنکھوں میں قریب ہے رگ گردن سے پر جدا ہے وہ نہ یار دل میں مکیں ہے نہ یار آنکھوں میں یہ قرب اور یہ دوری خدا کی قدرت ہے کہ ہوگا خلد میں دیدار یار آنکھوں میں کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے کہ آج کھینچ دی تصویر یار آنکھوں میں فرشتو پوچھتے ہو مجھ سے کس کی امت ہو لو دیکھ لو یہ ہے تصویر یار آنکھوں میں نہ صرف آنکھیں ہی روشن ہوں دل بھی بینا ہو اگر وہ آئیں کبھی ایک بار آنکھوں میں ہزار آنکھیں ہیں تاروں کی اک گل مہتاب یہ ایک پھول ہے جیسے ہزار آنکھوں میں یوں ہی ہیں ماہ رسالت بھی سب نبیوں میں کرور آنکھوں نہیں بے شمار آنکھوں میں یہ کیا سوال ہے مجھ سے کہ کس کا بندہ ہے میں جس کا بندہ ہوں ہے نور بار آنکھوں میں ہے آشکار نظر میں جہاں کی نیرنگی جما ہے نقشۂ لیل و نہار آنکھوں میں جما ہوا ہے تصور میں روضۂ والا بسے ہوئے ہیں وہ لیل و نہار آنکھوں میں نہار چہرۂ والا تو گیسو ہیں والیل بہم ہوئے ہیں یہ لیل و نہار آنکھوں میں پیا ہے جام محبت جو آپ نے نوریؔ ہمیشہ اس کا رہے گا خمار آنکھوں میں سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں
جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں سرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں ہٹادیں آپ اگر رخ سے اک ذرا پردہ چمک نہ جائے ابھی برق طور آنکھوں میں نظر کو حسرت پا بوس ہے مرے سرور کرم حضور کریں پر ضرور آنکھوں میں کھلے ہیں دیدۂ عشاق قبر میں یوں ہی ہے انتظار کسی کا ضرور آنکھوں میں خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولیٰ! ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں وجود شمس کی برہاں ہے خود وجود اس کا نہ مانے کوئی اگر ہے قصور آنکھوں میں خدا سے تم کو جدا دیکھتے ہیں جو ظالم ہے زیغ قلب میں ان کے فتور آنکھوں میں نہ ایک دل کہ مہ و مہر، انجم و نرگس ہے سب کی آرزو رکھیں حضور آنکھوں میں امنڈ کے آہ نہیں آئے اشک ہائے خوں یہ آرہا ہے دل ناصبور آنکھوں میں حضور آنکھوں میں آئیں حضور دل میں سمائیں حضور دل میں سمائیں حضور آنکھوں میں غلاف چشم کے اٹھتے ہی آسمان گئے نظر کے ایسے قوی ہیں طیور آنکھوں میں نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں ہماری جان سے زیادہ قریب ہو ہم سے تمہیں قریب جو ہم کو ہے دور آنکھوں میں جہاں کی جان ہیں وہ جان سے نہ کچھ منظور عیاں ہے کف کی طرح نزد و دور آنکھوں میں مے محبت محبوب سے یہ ہیں سر سبز بھری ہوئی ہے شراب طہور آنکھوں میں ہوا ہے خاتمہ ایمان پر ترا نوریؔ جبھی ہیں خلد کے حور و قصور آنکھوں میں سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری
- ماہ طیبہ نیر بطحا صلی اللہ علیک وسلم
ماہ طیبہ نیر بطحا صلی اللہ علیک وسلم تیرے دم سے عالم چمکا صلی اللہ علیک وسلم تو ہے مظہر رب اجمل ظل ہیں تیرے سارے مرسل کون ہے ہم سر تیرا شاہا صلی اللہ علیک وسلم تم ہو پیارے اصل ہماری سارا جہاں ہے فرع تمہاری تم سب کی ماہیت گویا صلی اللہ علیک وسلم تم ہو آقا معرّف حق کے جلوے ہو نور مطلق کے تم ہو حجت رب بر اعدا صلی اللہ علیک وسلم تو ہے نائب رب اکبر پیارے ہر دم تیرے در پر اہل حاجت کا ہے میلہ صلی اللہ علیک وسلم حق نے بنایا ایسا تونگر اکبر و اوسط و اصغر و سرور تیرے در پر حاضر جملہ صلی اللہ علیک وسلم ہر شے میں ہے تیرا جلوہ تجھ سے روشن دین و دنیا بانٹا تو نے نور کا باڑا صلی اللہ علیک وسلم ایماں تیری عظمت و الفت اور تصدیق و جزم نسبت مومن وہ جس نے پایا صلی اللہ علیک وسلم بے شبہہ ہے زین طاعت حق یہ کہ ہے عین عبادت حق کے پیارے تصور تیرا صلی اللہ علیک وسلم تیری ضیا سے عالم چمکا سبحان اللہ ماشاء اللہ جلوۂ حق ہے جلوہ تیرا صلی اللہ علیک وسلم نور مجسم تیرے دم سے نوری صدقے روز ہیں پاتے مہر و ماہ و انجم آرا صلی اللہ علیک وسلم تو چاہے وہ جو رب چاہے رب چاہے وہ جو تو چاہے چاہا تیرا رب کا چاہا صلی اللہ علیک وسلم جتنے سلاطیں پہلے آئے سکے ان کے ہوگئے کھوٹے جاری رہے گا سکہ تیرا صلی اللہ علیک وسلم تاج سلطاں بن کر چمکا تیرے نقش پا کا جلوہ تو ہے نور ذات مولا صلی اللہ علیک وسلم تیرے گھر کا بچہ بچہ سارا گھرانا سید والا نوری مورت نور کا پتلا صلی اللہ علیک وسلم کی ہے ابر ِ غم نے چڑھائی ماہ طیبہ تیری دہائی بدر دجیٰ ہو جلوہ فرما صلی اللہ علیک وسلم غم کی کالی گھٹائیں چھائیں رنج والم کی بلائیں چھائیں شمس ضحیٰ ہو جلوہ فرما صلی اللہ علیک وسلم خار غم کیسا چھبتا ہے کیسی خلش ہے دل دکھتا ہے پیارے دل سے نکالو کانٹا صلی اللہ علیک وسلم رافع تم ہو دافع تم ہو نافع تم ہو شافع تم ہو رنج و غم کا پھر کیا کھٹکا صلی اللہ علیک وسلم میں ہوں بے بس تو ہی بس ہے میں ہوں بے کس تو ہی کس ہے کس لے کمر اور بہر مدد آ صلی اللہ علیک وسلم سر پر بادل کالے کالے درد عصیاں کے ہیں چھالے دم گھٹتا ہے میرے مولیٰ صلی اللہ علیک وسلم میں ہوں تنہا بن ہے سونا دزد ایماں سر پر پہنچا میری خبر لے میرے مولیٰ صلی اللہ علیک وسلم حال ہمارا جیسا زبوں ہے اور وہ کیسا اور وہ کیوں ہے سب ہے تم پر روشن شاہا صلی اللہ علیک وسلم ہر ذرہ پر تیری نظر ہے ہر قطرہ کی تجھ کو خبر ہے ہو علم لدنی کے تم دانا صلی اللہ علیک وسلم عیب سے تم کو پاک کیا ہے غیب کا تم کو علم دیا ہے اور خود حق بھی تم سے چھپا کیا صلی اللہ علیک وسلم تو میرے ایماں کو جلا دے جان مسیحا دل کو جلادے مردہ ہے دل میرا آقا صلی اللہ علیک وسلم حد سے بڑھ گئے عصیاں میرے تو دھو دے آب رحمت سے بحرِ رحمت جوش پہ آجا صلی اللہ علیک وسلم کیسی زبانیں سوکھ گئی ہیں پیاس سے باہر آئی ہوئی ہیں ابرِ کرم دیدے اک چھینٹا صلی اللہ علیک وسلم مہر محشر سر پر سرور پھونکے دے ہے ہم کو یکسر مہر سے کر گیسو کا سایا صلی اللہ علیک وسلم منہ تک میرے پسینہ پہونچا ڈوبا ڈوبا ڈوبا ڈوبا دامن میں لے لیجے آقا صلی اللہ علیک وسلم آدم سے تا حضرت عیسیٰ سب کی خدمت میں ہو آیا نفسی سب نے ہی فرمایا صلی اللہ علیک وسلم میرے آقا میرے مولا آپ سے سن کر اِنِّیْ لَھاَ دم میں ہے دم میرے آیا صلی اللہ علیک وسلم روشن ہو گیا اس سے سرور پیش داور شافع محشر میرے مولا تم ہو تنہا صلی اللہ علیک وسلم وقت ولادت تم نہیں بھولے وقت رحلت یاد ہی رکھے اپنے بندے تم نے شاہا صلی اللہ علیک وسلم آؤ آؤ میری خبر کو واروں تم پر قلب وجگر کو میں بھی ہوں تمہارا بندہ صلی اللہ علیک وسلم میری آنکھوں میرے سر پر میرے دل پر میرے جگر پر پائے اقدس رکھ دو شاہا صلی اللہ علیک وسلم تیرے نقش قدم نے سرور پتھر موم بنائے یکسر موم بنا دل سنگیں میرا صلی اللہ علیک وسلم آپ کا جلوہ ہر جز و کل میں آپ کے رنگ و بوہر گل میں آپ کی بو سے عالم مہکا صلی اللہ علیک وسلم کون گیا ہے عرش علا تک کس کی رسائی ذات خدا تک تم نے پایا اعلیٰ پایا صلی اللہ علیک وسلم تم ہو اول تم ہو آخر تم ہو باطن تم ہوظاہر حق نے بخشے ہیں یہ اسما صلی اللہ علیک وسلم بَارَکَ شَرَّفَ مَجَّدَ کَرَّم نَوَّرَ قَلْبَکَ اَسْریٰ عَلَّم رب نے تم کو کیا کیا بخشا صلی اللہ علیک وسلم صاحب دولت تم ہی تو ہو قاسم نعمت تم ہی تو ہو تم ہو سارے جگ کے داتا صلی اللہ علیک وسلم اَنْتَ الرَّفِع اَنْتَ النَّافِع اَنْتَ الدَّافِع اَنْتَ الشَّافِع اِشْفَعْ عِنْدَ الرَّبِّ الْاَعْلیٰ صلی اللہ علیک وسلم اَنْتَ الْاَوَّل اَنْتَ الْاٰخِر اَنْتَ الْبَاطِن اَنْتَ الظَّاھِر اَنْتَ سَمْیِ الْمَوْلیٰ تَعَالیٰ صلی اللہ علیک وسلم مَنْ لِّیْ نَاصِر مَالِی وَالِیْ غَیْرُکَ مَالِیْ فَانْظُرْ حَالِیْ وَاسْمَعْ قَالِیْ یَامَوْلَایٰ صلی اللہ علیک وسلم اَنْتَ الْقَاسِم رَبُّکَ مُعْطِیْ تم ہی نے سب کو نعمت دی دے دو مجھ کو میرا حصہ صلی اللہ علیک وسلم اَنْتَ شَفِیْعِیْ اَنْتَ وَکِیْلِیْ اَنْتَ حَبِیْبِیْ اَنْتَ طَبِیْبِیْ اَنْتَ کَفِیْلِیْ یَا مَوْلَانَا صلی اللہ علیک وسلم حاضر در ہے نورؔی مصنطر آپ کا یہ موروثی ثناگر ابن رضؔا ہے خواہاں رضا کا صلی اللہ علیک وسلم سامانِ بخشش #سامانبخشش #مفتیاعظممصطفیرضانوری