نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
1338 items found for ""
- یا شفیع الوری سلام علیک، شرح سلام صاحب البرکات
#عرس_قاسمی_برکاتی_کا_تحفہ شرح سلام صاحب البرکات عرس قاسمی برکاتی کے عظیم الشان موقع پر، نعت اکیڈمی پیش کر رہی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح و ثنا میں، امام سلسلۂ برکاتیہ، حضور صاحب البرکات، سید برکت اللہ شاہ مارہروی علیہ الرحمۃ والرضوان کے لکھے ہوئے سلام "یا شفیع الوری سلام علیک" کی اردو شرح، بنام "شرح سلام صاحب البرکات"۔ اس شرح میں آپ پڑھیں گے: حضور صاحب البرکات علیہ الرحمۃ کا مختصر تعارف، ان کے سلامیہ اشعار کا اردو سلیس ترجمہ، عربی الفاظ کے معانی، صرفی تحقیق، نحوی ترکیب، اور قرآن و سنت کی روشنی میں آسان زبان میں اشعار کی بہترین توضیح و تشریح۔ شارح: مولانا محمد ارقم رضا ازہری (حفظہ اللہ) ناشر: نعت اکیڈمی - انڈیا - ممبئی https://www.naatacademy.com/WhatsApp
- Adab e Naat
آدابِ نعت نعت خوانی کے آداب اور بعض نعت خوانوں کی بیجا حرکتوں کی اصلاح ... بارگاہِ مصطفیٰﷺ میں عاجزی سے نعت پڑھ خود نمائی چھوڑ دے اور سادگی سے نعت پڑھ سن رہے ہیں مصطفیٰﷺ اور تو ہے اُن کے سامنے اِس حقیقت کو سمجھ، پاکیزگی سے نعت پڑھ تیرے لائق ہو نہیں سکتا گوَیّوں کا طریق اے نبیﷺ کے نعت خواں، سنجیدگی سے نعت پڑھ پہلے اخلاص و عقیدت کے مصلے کو بچھا پھر بصدتعظیم، طرزِ بندگی سے نعت پڑھ زندگی گذرے دفاعِ عظمتِ سرکارﷺ میں لے کے آئینِ رضا، عشقِ نبی ﷺ سے نعت پڑھ ہر تکلف، ہر بناوٹ، ہر اداکاری سے دُور دل سے جو نکلیں، اُن اشکوں کی نمی سے نعت پڑھ منبر و محراب کا جس سے تقدس ہو بلند یوں زبان و قلب کی شائستگی سے نعت پڑھ حرکتِ بے جا نہ ہو، اُسلوب بازاری نہ ہو عشق و ایمان و ادب کی روشنی سے نعت پڑھ دین کی خدمات میں عالِم کا ہمسر کون ہے اُن کے قدموں سے لپٹ، دل بَستگی سے نعت پڑھ عالموں کی قدر میں تیرے لیے بھی قدر ہے علم والوں کی محبت پروری سے نعت پڑھ قوم میں فکر و عمل کی قوتیں بیدار ہوں مومنانہ شان اور رنگِ خودی سے نعت پڑھ دل کی سچی کیفیت مقبول ہوتی ہے یہاں چاہیے کوثر تو پوری تشنگی سے نعت پڑھ نعت خوانی، نوٹ خواہی کا ذریعہ مت بنا رب نوازے گا تجھے، بس خوش دلی سے نعت پڑھ ہو نہ تیری ذات سے باطل عقائد کا فروغ رب سے ڈر اور عالموں کی رہبری سے نعت پڑھ خواہشِ داد و دَہِش اپنے لیے اک عیب ہے اے مرے پیارے، نہ ایسی دل لگی سے نعت پڑھ ناروا ہے منبرِ سرکار پر یہ شور و غُل پاسِ مدحت کی مکمل آگہی سے نعت پڑھ نام و شہرت اور انا، عشقِ نبیﷺ میں کر فنا حضرتِ حسان کی وارفتگی سے نعت پڑھ نعت خوانی کے سبب تعلیم سے غافل نہ ہو پہلے پڑھ، پھر علم و فن کی پختگی سے نعت پڑھ صرف ہونٹوں پر نہ ہوں ان کی ثنا کے زمزمے شاہِ بطحا کی مکمل پیروی سے نعت پڑھ سب کو بزمِ نعت کی روحانیت کا ہو خیال نعت سننے والے ! تو بھی خامشی سے نعت پڑھ پیکرِ عشق و ادب میں اے فریدؔی ڈھل کے چل راہِ مدحت میں بڑی نازک روی سے نعت پڑھ فریؔدی صدیقی مصباحی مسقط عمان https://www.naatacademy.com/WhatsApp
- القول الجلي في وصف الحبيب ﷺ بالأمي
القول الجلي في وصف الحبيب ﷺ بالأمي (حضور اکرم ﷺ کے وصف امی پر روشن کلام) یہ کتاب آج نعت اکیڈمی پبلیکیشنز، ممبئی سے شائع ہو چکی ہے۔ الحمد للہ عز وجل اس کتاب میں آپ پڑھیں گے: *امی کے معنی و مفہوم کی تحقیق اور امی کا صحیح مطلب *وصف امی، سرکار ﷺ کے لیے معجزہ و کمال ہے *سرکار ﷺ، اللہ تعالی کی عطا سے دنیا کا ہر علم جانتے ہیں، جس میں کتابت و قراءت بھی شامل ہے *اس وصف کے بارے میں قرآن و سنت کے فرامین *مفسیر و محدثین اور چودہ صدیوں کے ائمہ کا موقف *امی کا غلط معنی بیان کرنے والے خبیثوں کا رد *قرآن کریم و ناموس رسالت و صحابہ کا دفاع نیز ان سوالات کے جوابات جو اس موضوع کو لیکر آپ کے ذہن میں آتے ہیں، اور بھی بہت کچھ۔ آپ سب سے التماس ہے کہ کتاب کا مطالعہ فرما کر فقیر کو اپنی نیک دعاؤں کا حصہ بنائیں۔ اور دیگر اہل اسلام تک کتاب پہنچا کر ثواب کے مستحق ہوں۔ اللہ کریم اس کتاب کو قارئین کے لیے فائدہ مند بنائے اور اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم محمد ارقم رضا ازہری 9/ نومبر 2024 کتاب ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں: ناشر: نعت اکیڈمی بسم اللہ الرحمن الرحیم حامدا و مصلیا و مسلما "اَلْقَوْلُ الْجَلِي فِيْ وَصْفِ الْحَبِيْبِ ﷺ بِالْأُمِّي" حضور ﷺ کے وصفِ امی پر ایک تحقیقی کتاب، ایک ایسی علمی کاوش ہے جس نے ہمیں ناشر ہونے کے ناطے فخر سے سرشار کر دیا ہے۔ اس کتاب میں حضرت مصنف مولانا محمد ارقم رضا ازہری -حفظہ اللہ- نے رسول اللہ ﷺ کے وصفِ امّی کے مفہوم کو اجاگر کیا ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث اور ائمۂ کرام کے اقوال کی روشنی میں تحقیقی روایات پیش کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا امی ہونا ایک عظیم وصف، کمال اور معجزہ ہے، ان کی عظمت کا ایک اہم پہلو ہے۔ یہ کتاب اسلامی فکر اور سیرت النبی ﷺ کی تفہیم میں ایک قیمتی اضافہ ہے اور اہلِ علم و عقیدت کے لیے ایک بے مثل تحفہ ہے۔ یہ کتاب محض ایک تحقیقی تصنیف نہیں بلکہ عشق و محبت کے جذبات سے لبریز ایک روحانی سفر ہے، جسے پڑھ کر قاری کے دل میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت و رفعت کا جذبہ اور زیادہ بیدار ہو جاتا ہے۔ یوں یہ کتاب ذکر مصطفی ﷺ کے میدان میں ایک خاص مقام کی حامل ہے اور علم و عقیدت کے متلاشی افراد کے لیے ایک اہم تحفہ ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مصنف نے زبان بہت آسان استعمال کی ہے تاکہ خواص کے ساتھ ساتھ عوام بھی کتاب سے استفادہ کر سکے، ابواب و فصول میں کتاب کو تقسیم کیا ہے جو کہ ایک علمی منہج ہے، نیز رموز و اوقاف کا لا جواب استعمال کیا ہے جو عبارت کو سمجھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت مصنف مولانا محمد ارقم رضا ازہری مرادآبادی صاحب قبلہ ایک نوجوان اچھے عالم دین ہیں، اپنی کم عمری کے باوجود علمی دنیا میں بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں، ماہر قلم کار اور زبردست مفکر و محقق ہیں۔ ہم موصوف کو ان کے اس علمی تحقیقی کارمانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کتاب دنیا بھر میں پڑھی جائے گی اور لوگوں کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت و رفعت کا جذبہ پیدا کرے گی۔ محمد اویس رضوی صدیقی ناشر: نعت اکیڈمی پبلیکیشنز، ممبئی، انڈیا
- Qasida e Gausiya Urdu Arabic Roman English
قصیدہ غوثیہ مع ترجمہ و تشریح (1) سَقَانِی الْحُبُّ کَاْسَاتِ الْوِصَال فَقُلْتُ لِخَمْرَتِیْ نَحْوِیْ تَعَالِیْ ترجمہ: محبت نے مجھے وَصْل(قُربِ الٰہی) کے پیالے پلائے، پس میں نے اپنے خمارِ محبت کو کہا کہ میری طرف آ محبت ہی کے باعث مجھے وصالِ الٰہی نصیب ہوا کیوں کہ محبت کا نتیجہ وصال ہے۔ جب وصال حاصل ہوا تو میں اس قابل ہو گیا کہ شراب کو (جو فیضان الہی سے مراد ہے) طلب کروں، بعد از وصال میں ایسے نشہ کا محمل ہو گیا اور میراحق تھا کہ میں اپنی شراب مقدر کو طلب کرتا۔ وصال کے بعد خاص استعداد حاصل ہوتی ہے جو قبل از وصال نہیں ہوتی۔ SAQAANIL HUBBU KASAATIL WISAALI FAQULTU LIKHAMRATI NAHWI TA AALI Mohabbat Hi Ke Bayis Mujhe Vsaal E llahi Naseeb Howa Kyun Ke Mohabbat Ka Nateeja Visaal Hai.Jab Visaal haasil Howa To Mein Is Qabil Ho Gaya Ke Sharaab Ko ( Jo Faizan E llahi Se Muraad Hai ) Talabb Karon,Baad Az Visaal Mein Aisay Nasha Ka Mehmil Ho Gaya Aur Mera Haq Tha Ke Mein Apni Sharaab E Muqaddar Ko Talab Karta. Visaal Ke Baad Khaas Istedaad Hasil Hoti Hai Jo Qabl Az Visaal Nahi Hoti. 𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎 ✨ قصیدہ غوثیہ مع ترجمہ و تشریح✨ 𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎 سَعَتْ وَمَشَتْ لِنَحْوِیْ فِیْ کُئُوْسٍ فَھِمْتُ بِسُکْرَتِیْ بَیْنَ الْمَوَالِیْ *ترجمہ* پیالوں میں بھرا ہوا جامِ محبت میری طرف دوڑتا ہوا آیا، تو میں اپنے اَحباب کی مجلس میں جامِ محبت کےخُمار سے مست ہوگیا *تشریح* جب مجھے وصال الہی حاصل ہو گیا تو میرا کاسہ دل شرابِ فیضان کا ظرف بن گیا،جس طرح پانی نشیب کی طرف جلدی جاتا ہے اسی طرح وہ شراب میری طبعی کشش سے دوڑتی ہوئی آئی اور میں اس کو پی کر مست ہو گیا اور میری مستی مخفی نہ تھی بلکہ اس کا مشاہدہ میرے احباب نے بھی کیا۔ 2️⃣ Sa’at Wamashat Linahwi Fi Ku’oosin Fahimtu Bisukrati Baynal Mawaali *Tarjuma* Payalon Main Bhara Howa Jaam E Mohabbat Meri Taraf Dourta Howa Aaya,To Mein Apne Ahbaab Ki Majlis Mein Jaam E Mohabbat Ke Khumaar Se Mast Ho Gaya *Tashreeh* Jab Mujhe Visaal E Ellahi Haasil Ho Gaya To Mera Kaasa E Dil Sharaab E Faizan Ka Zarf Ban Gaya,Jis Tarhan Pani Nashaib Ki Taraf Jaldi Jata Hai Isi Tarhan Woh Sharaab Meri Tab'i Kashish Se Daurti Hoyi Aayi Aur Mein Is Ko Pe Kar Mast Ho Gaya Aur Meri Masti Makhfi NaThi Balke Is Ka Mushahida Mere Ahbaab Ne Bhi Kya. 𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎
- Seerat Un Nabi - Al Qalam Magazine
*بارہویں شریف کا بے مثال تحفہ* ¯¯ *سہ ماہی القلم کا* ¯¯ *[سیرت النبیﷺ نمبر]* الحمد لله عز وجل! الله تعالی کے فضل و کرم، اور نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کی عنایت سے بارہویں شریف کے مبارک و مسعود موقع پر سہ ماہی "القلم" کا نواں شمارہ بنام " *سیرت النبیﷺ نمبر* " منظر عام پر آ چکا ہے۔ یہ شمارہ طلبۂ مدارس اہل سنت کے گراں قدر مضامین پر مشتمل ہے، جس میں درج ذیل مضامین شامل ہیں: * معاشرے کی تشکیل میں سیرت النبیﷺ کی ضرورت و اہمیت * سیرت مصطفی ﷺ ایک نظر میں * بعثتِ مصطفی ﷺ اللہ تعالی کا احسانِ عظیم * حضور ﷺ کا منہجِ تعلیم و تربیت * حضور ﷺ بحیثیتِ والد * حضور ﷺ بحیثیتِ شوہر * بیٹی کے حقوق سیرت نبویﷺ کی روشنی میں * حضور ﷺ کے خصائص اور معجزاتِ خاصہ * مکی زندگی میں تصلب فی الدین کے جلوے * سرورِ کائنات ﷺ اور امنِ عالم * تعلیمات نبویﷺ کے عالمگیر تہذیبی اثرات * عہد نبویﷺ کا نظام حکمرانی * سیرت نبویﷺ اور نظامِ دفاع و غزوات * اسلامی فتوحات اور غیب داں نبیﷺ کی پیشن گوئی * تعلیمات نبویﷺ اور حقوقِ انسانیت * امت پر حضور ﷺ کے حقوق * تجارت تعلیمات نبویﷺ کی روشنی میں وقت نکال کر اس رسالہ کا مطالعہ ضرور کریں اور طلبۂ مدارس اہل سنت کو اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازیں۔ https://www.naatacademy.com/WhatsApp
- التشریحات الأحسنية في شرح القصیدة المحمدية
نعت اکیڈمی پیش کر رہی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح و ثنا میں لکھی ہوئی ایک بہترین کتاب بنام "التشریحات الأحسنية في شرح القصیدة المحمدية"۔ یہ کتاب امام بوصیری رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوئے مشہورِ زمانہ قصیدے "القصیدة المحمدية" کی اردو شرح ہے۔ اس شرح میں آپ پڑھیں گے: اشعار کا اردو سلیس ترجمہ، عربی الفاظ کے معانی، صرفی تحقیق، نحوی ترکیب، محاسنِ بلاغت، اور قرآن و سنت کی روشنی میں آسان زبان میں اشعار کی بہترین توضیح و تشریح۔ شارح: محمد ارقم رضا ازھری ناشر: نعت اکیڈمی - انڈیا - ممبئی محمد اویس رضوی صدیقی
- گزرے جس راہ سے وہ
شرحِ کلامِ رضا 𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎 گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر رہ گئی ساری زَمیں عَنْبرِ سارا ہو کر حل لغات راہ: راستہ سید: سردار والا: بڑا، عظیم عنبر: سب سے اعلی خوشبو، عطر سارا: ایک جگہ کا نام ہے جہاں عنبر نامی خوشبو سب سے اعلی پائی جاتی ہے عنبرِ سارا: خالص عمدہ ترین خوشبو شعر کا مفہوم سردارِ دو جہاں، حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس راستے سے بھی گزرے وہ راستہ خوشبو سے مہک اٹھا، اور اس راستے میں عنبرِ سارا یعنی خالص عمدہ ترین خوشبو سے بھی بہترین خوشبو پھیل گئی۔ کتب احادیث میں اس مضمون کی بہت سی احادیث ہیں۔ بعض ملاحظہ ہوں: عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم لَمْ يَسْلُکْ طَرِيْقًا أَوْ لَا يَسْلُکُ طَرِيْقًا فَيَتْبَعُه أَحَدٌ إِلاَّ عَرَفَ أَنَّه قَدْ سَلَکَه مِنْ طِيْبِ عَرَقِه أَوْ قَالَ: مِنْ رِيْحِ عَرَقِه صلی الله عليه واله وسلم . (أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 1 /45، الرقم: 66) ترجمہ: "حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کسی بھی راستے پر نہیں چلے یا کسی راستے پر نہیں چلتے تھے جس میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تلاش کرتا مگر یہ کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پسینہ مبارک کی خوشبو سے پہچان لیتا کہ آپ اِس راستے پر چلے ہیں۔ یا کہا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پسینہ مبارک کی مہک سے پہچان لیتا۔" عنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَزْهَرَ اللَّوْنِ، کَأَنَّ عَرَقَهُ اللُّؤْلُؤُ…وَلَا شَمِمْتُ مِسْکَةً وَلَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وفي رواية عنه للبخاري: قَالَ: وَلَا شَمِمْتُ مِسْکَةً وَلَا عَبِيْرَةً أَطْيَبَ رَائِحَةً مِنْ رَائِحَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب صفة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 3 /1306، الرقم: 3368) حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رنگ مبارک سفید چمکدار تھا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پسینہ مبارک کے قطرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے، میں نے کسی مشک یا عنبر کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کے پسینہ مبارک کی خوشبو) سے زیادہ خوشبو دار نہیں پایا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ’’اور بخاری کی ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں: میں نے کسی ایسی مشک اور خوشبوؤں کے کسی مرکب کو نہیں سونگھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کے جسم) کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔‘‘ محمد ارقم رضا ازہری جامعہ ازہر شریف، مصر ترسیل نعت اکیڈمی 𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎
- Koi Gul Baki Rahega
"پھانسی سے قبل مولانا سید کفایت علی کافی(رحمه الله) کے جسم پر گرم استری پھیری گئ ، زخم نمک سے بھر دیئے گئے اور ٢٢ رمضان المبارک کو مرادآباد کے ایک چوک میں مجمع عام کے سامنے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ اشعار تھے : کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا پر رسول اللہ ﷺ کا دینِ حسن رہ جائے گا نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جائے گا ( جنگ آزادی 1857ء میں علماء کا مجاہدانہ کردار : ٤٢ ) 𝒩𝒶𝒶𝓉 𝒜𝒸𝒶𝒹ℯ𝓂𝓎 https://www.naatacademy.com/WhatsApp
- میلاد اکبر ،موضوع روایات، مقامات احتیاط اور کفریہ اشعار
میلاد اکبر ،موضوع روایات، مقامات احتیاط اور کفریہ اشعار تحریر محمد زاہد علی مرکزی چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ ایک لمبےزمانے سے خصوصاً دیہات اور قصبوں میں ہونے والی میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل میں پڑھی جانے والی میلادیں، میلاد اکبر اور میلاد گوہر شامل ہیں - ان کی اہمیت اس قدر ہے کہ کوئی بھی محفل ان میلادی کتابوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی، ہم بچپن سے انھیں میلادوں کو سنتے آئے ہیں اور انکا لطف اس وقت دوبالا ہو جاتا ہے جب چند خواتین مل کر پڑھتی ہیں - میلاد اکبر کی حمد تو اتنی مشہور ہے کہ خواتین ہی نہیں مَردوں کو بھی قریب قریب یاد ہوتی ہے اور جب پوری محفل میں توحید باری کا شور گونجتا ہے تو خود بخود منھ توصیف باری میں کھل جاتا ہے - میلاد اکبر کی مشہور زمانہ حمد بچوں کو پانچ چھ سال کی عمر میں ہی یاد ہوجاتی تھی، وجہ، کثرت سے مولود مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کا ہونا تھا، آپ بھی اپنے بچپن کو یاد کیجیے مجھے لگتا ہے کہ اس حمد باری تعالیٰ کے چند اشعار آپ کو آج بھی یاد ہوں گے - کس سے توحید کبریا ہو رقم سر قلم ہیں یہاں قلم کے قلم فرش سے تا بَعالم بالا غُل ہے سبحان ربی الاعلی روح قالب میں ڈالنے والا دامِ غم سے نکالنے والا بیٹھو آکر یہاں ادب کے ساتھ دل لگاؤ شہ عرب کے ساتھ غمزدوں کا ولی غریب کا یار سب کا بگڑی اَڑی میں کِھیون ہار خلق کرنے لگی جو بے ادبی بھیجا اس نے محمد عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) نور حق سے جہاں ہوا معمور ظلمت کفر ہو گئی کافور رشتئہ عشق حق سے جوڑ دیا کلمہ پڑھ کر بتوں کو توڑ دیا........ بہت سی میلاد کی کتب وجود میں آئیں لیکن میلاد اکبر اور گوہر (میلاد گوہر پر بھی ایک مضمون الگ سے ہوگا، ان شاء اللہ) کی جگہ نہ لے سکیں، آج بھی یہ کتابیں ہر محفل کی زینت بنی ہوئی ہیں - خیر! اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں، اس کتاب کی مقبولیت تو آپ جانتے ہی ہیں ، تین چار سال قبل جب اس کتاب کو پڑھایا تو اس پر کچھ لکھنا ضروری سمجھا، لیکن بات آئی گئی ہو گئی، ابھی چند روز قبل اس میلاد کا تذکرہ گھر میں پھر چھڑا، تو سوچا اب اس میں موجود مشمولات پر لوگوں کی آگاہی کے لیے لکھنا چاہیے، اور آپ کے سامنے یہ مضمون حاضر ہے، کوشش کریں کہ یہ مضمون خواتین معلمات، طالبات اور عام گھریلو خواتین تک ضرور پہنچائیں اور جن اشعار یا واقعات کی نشان دہی کی جارہی ہے ان کے پڑھنے سے ہماری بہنوں کو روکا جائے - کچھ صاحب کتاب کے بارے میں اصلی نام :محمد اکبر خاں پیدائش :میرٹھ, اتر پردیش وفات 1 مئی 1953 اکبر وارثی میرٹھی اردو زبان کے ممتاز نعت گو شاعر گزرے ہیں ، اکبر وارثی بجولی ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آپ اردو کے علاوہ عربی و فارسی کے بھی عالم تھے۔ ان کی نعتیں سلاست، روانی، بندش ، صفائی، سادگی اور شیرینی میں آپ اپنی مثال ہیں۔ آپ کی نعتیں تکلف اور تصنع سے پاک ہیں۔ آپ کے نعتیہ کلام "میلاد اکبر" کو بہت مقبولیت حاصل تھی۔ اکبر وارثی حضرت حاجی سید وارث علی شاہ (علیہ الرحمہ) سے بیعت تھے۔ اکبر کی شاعری میں سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت "میلاد اکبر" کو ملی۔ اس میلاد نامے کا آغاز حمد سے ہوتا ہے....... بعدہ ولادت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)....... اکبر وارثی کا حلقہ تلامذہ وسیع تھا۔ آپ کے شاگردوں میں شاہنامہ اسلام اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری بھی ہیں۔ اکبر وارثی کا زمانہ، اکبر الہ آبادی اور شاہ اکبر داناپوری کا زمانہ تھا۔ یہ تینوں ہمنام شعرا اپنے عہد کے نامور شعرا میں سے تھے۔ اکبر وارثی نے 6 رمضان 1372ھ بمطابق 20 مئی 1953ء بروز بدھ کو لیاقت آباد کراچی میں وفات پائی اور میوہ شاہ قبرستان لیاری میں دفن ہوئے۔ بحوالہ (ریختہ) کچھ اشعار جن میں شائبہ کفر جھلکتا ہے میلاد اکبر میں پیدائش نوری محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان میں تمہید میں یہ عبارت اور شعر درج ہے " جب اس معشوق حقیقی نے جو بہت سے بے نام و نشان حجابوں میں پردہ نشیں اور بے انتہا عدم نما پردوں میں حجلہ گزیں تھا نے ارادہ کیا کہ کوئی ایسا آئینہ ہوکہ جس میں اپنے حسن و جمال و قدرت کے گونا گوں جلوے اور کمال و عظمت کے بو قلموں کرشمے دیکھے تو اس وقت یہ نورانی خیال بشکل آئینہ رو برو ہوا "- آئینہ ذات حق نے رکھا رُو برو تو اُسی شکل کا دوسرا ہو گیا عکس ذات الہی تھا آئینہ میں نام اُسی عکس کا مصطفے ہو گیا مذکورہ رباعی پڑھتے ہوئے ذہن اس بات کی جانب متوجہ ہوتا ہے کہ اللہ و رسول دو علاحدہ ذاتیں نہیں ہیں بل کہ خدا ہی مصطفے ہے اور مصطفے جان رحمت ہی خدا ہیں دنیا میں خدا نے اپنے آپ کو کچھ پردوں میں اتار دیا ہے، جیسا کہ اسی کتاب میں ایک مقام پر مندرجہ ذیل شعر اس کی تائید کرتا ہوا نظر آرہا ہے - بشر کی شکل میں آیا تکلف کی ضرورت تھی احد سے ہوگیا احمد جو باندھا میم کا پٹکا (میلاد اکبر) اس شعر میں اہل ہنود کی طرح" اوتار" کا تصور دیا گیا ہے، جو کہ مذہب اسلام کی روح کے خلاف ہے، اس شعر سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ خدا و رسول دونوں ایک ہی ہیں - مسلمانوں کے لئے یہ عقیدہ کسی بھی جہت سے درست نہیں،اگر ایسے اشعار اعتقاد کے ساتھ پڑھے جائیں تو ہمارے ایمان کا طوطا اڑا لے جانے کے لیے کافی ہیں - واقعہ معراج سے مذکورہ اشعار کی تائید انھیں اشعار کی تائید کرتی ہوئی واقعہ معراج کی یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں - .... " پھر ارشاد الہی ہوا کہ محبوب آؤ تمہیں اپنی سلطنت کا دُولھا دکھلائیں اور مکان عالی شان دکھایا، شہ نشین پر پردہ پڑا تھا۔ جب حجاب اُٹھایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں خود حضور پر نور کی شبیہ جلوہ افروز ہے، سبحان اللہ - ------------------------- رباعی - - - - - - - - - - - ہے ایک مکان اور ایک مکیں تو اور نہیں، میں اور نہیں پھر کیوں نہ ہو دل میں صاف یقیں تو اور نہیں، میں اور نہیں اب چھپنے سے ہوتا ہے کیا؟ پہچان لیا، پہچان لیا بس دھوکا نہ دے او پر دہ نشیں، تو اور نہیں، میں اور نہیں۔ (میلاد اکبر صفحہ 75) مذکورہ بالا اشعار میں اگر تاویلات کی گنجائش تھی بھی تو مجھے لگتا ہے کہ مذکورہ عبارت اور اس رباعی کے بعد تاویلات کی گنجائش نہیں رہ جاتی، یہاں صاف طور پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہی عرش پر بھی جلوہ افروز ہے اور دنیا میں بھی، یعنی خدا ہی محمد ہے یا محمد عربی ہی خدا ہیں، یہ تصور اہل ہنود کے تصور "اوتار" سے جدا نہیں - سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہاں دھوکے کی نسبت اللہ رب العزت کی جانب کی جارہی ہے، "اب دھوکا نہ دے او پردہ نشیں" سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اللہ ہمیں دھوکا دے رہا ہے ورنہ دونوں ذاتیں ایک ہی ہیں اور یہ صریح کفر ہے - اسی طرح صفحہ نمبر 51 میں قصیدے کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیں اندھوں کو نظر آئیں پھر احمد کے کل انداز ، کھل جائیں یہ سب راز دم بھر کے لیے میم کا پردہ جو اٹھا لے، اے گیسوؤں والے اس شعر سے بھی مذکورہ بالا تصور پیدا ہوتا ہے - نعلین پہن کر عرش پر جانے والی روایت کا ذکر لکھتے ہیں "جب حضور عرش کے قریب پہنچے حکم ہوا کہ اے میرے محبوب آگے آؤ۔ اس وقت حضور نے چاہا نعلین پائے مبارک سے اُتاریں ۔ عرش ہلنے لگا۔ حکم ہوا کہ حبیب میرے نعلین نہ اتارو بلکہ پہنے چلے آؤ کہ عرش قرار پکڑے ۔ حضور نے عرض کیا کہ خداوند حضرت موسیٰ کو حکم ہوا تھا کہ پہلے چالیس روزے رکھو اور نعلین اتار کر کوہ طور پر آؤ، پس عرش کوہ طور سے کہیں زیادہ معظم اور پر نور ہے پھر نعلین کیوں نہ اتاروں؟ ۔ خطاب آیا کہ "محبوب میرے موسیٰ کو اس واسطے نعلین اُتارنے کا حکم دیا تھا کہ خاک وادی مقدس کی اس کے پاؤں میں لگے تا کہ اس کو بزرگی حاصل ہو اور تجھ کو اس واسطے نعلین اتارنے کا حکم نہیں ہے کہ تیری نعلین کی خاک سے عرش مجید کو بزرگی حاصل ہو ۔ تو بدیں جمال و خوبی سر طور گر خرامی ارنی بگوید آن کس که به گفت لن ترانی دسرے یہ کہ جب میں نے عرش کو بنایا تھا تو اسے قرار نہ تھا۔ اور ہمیشہ جنبش کرتا تھا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ ایک رات ہم اپنے محبوب کو بلائیں گے اور اس کی نعلین کا گوشوارہ تجھ کو عطا فرمائیں گے تب اس کو قرار ہوا۔ اور اسی وقت سے عرش بریں نعلین کا مشتاق ہے "۔(میلاد اکبر صفحہ ٧٥) یاد رہے کہ یہ روایت موضوع ہے - سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا سے اس روایت کے متعلق سوال ہوتا ہے کہ "حضور سرور کائنات ﷺ کا شب معراج عرش الہی مع نعلین مبارک جانا صحیح ہے یا نہیں" ؟ مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا ارشاد فرماتے ہیں۔ یہ روایت محض باطل و موضوع ہے ( الملفوظ حصہ دوم: ص:(٩١/٩٢) اس تعلق سے دو موضوع روایات کا ذکر ہمارے خطبا بھی کر جاتے ہیں بل کہ کچھ کتابوں میں بھی لکھا ہوا لیکن وہ بھی موضوع یعنی من گھڑت ہیں ملاحظہ فرمائیں - سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا سے اسی قسم کی روایات کو لے کر سوال ہوا، آپ نے جو حکم فرمایا ہم وہ حکایات اور سرکار اعلی حضرت ارضاہ عنا کے جوابات پیش کر رہے ہیں - روایت:۔ ایک مرتبہ جناب رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ تم وحی کہاں سے اور کس طرح لاتے ہو؟ آپ نے جوابا عرض کیا کہ ایک پردہ سے آواز آتی ہے، آپ نے دریافت فرمایا کہ کبھی تم نے پردہ اٹھا کر دیکھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری یہ مجال نہیں کہ میں پردہ کو اٹھاؤں ! آپ نے فرمایا کہ اب کی مرتبہ پردہ اٹھا کر دیکھنا، حضرت جبرئیل نے ایسا ہی کیا، کیا یکھتے ہیں کہ پردہ کے اندر خود حضور اقدس ﷺ جلوہ افروز ہیں اور عمامہ سر پر باندھے ہیں اور شیشہ سامنے رکھا ہے اور فرمارہے ہیں کہ میرے بندوں کو یہ ہدایت کرنا۔ سوال ہوا کہ یہ روایت کہاں تک صحیح ہے اگر غلط ہے تو اس کا بیان کرنے والا کس حکم کے تحت داخل ہے؟ مجدد اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا لکھتے ہیں۔ یہ روایت محض جھوٹ اور کذب وافتراء ہے ، اور اس کا بیان کرنے والا ابلیس کا مسخرہ اور اگر اس کے ظاہر مضمون کا معتقد ہے تو صریح کافر، واللہ تعالیٰ اعلم ۔ (فتاوی رضویہ : ۴۴/۶) (۳) ایک اور حکایت سرکار علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی درمیان حضرت سیدنا جبرئیل علیہ السلام وحی لیکر خدمت رسول کریم علیہ السلام میں حاضر ہوئے سرکار علیہ الصلوۃ والسلام وعظ و نصیحت کی وجہ سے سیدنا جبرئیل علیہ السلام کی طرف متوجہ نہ ہوئے جبرئیل علیہ السلام نے کہا تعجب ہے کہ میں خدا وند قدوس کا کلام لیکر حاضر ہوا ہوں اور آپ کوئی توجہ نہیں فرمارہے ہیں اس وقت حضور اقدس ﷺ کو معلوم ہوا کہ جبرئیل علیہ السلام میری وجہ سے پریشان ہو رہے ہیں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا اور پو چھا اخی! وحی تمہارے کان میں کہاں سے پہونچتی ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ عرش پر ایک حجرہ کی مثل نورانی قبہ ہے اس میں ایک سوراخ ہے وہاں سے میرے کان میں یہ آواز آتی ہے تو سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا آپ واپس اس قبہ کی جانب جلد جاؤ اور وہاں کی خبر مجھ تک جلد پہنچاؤ لیکن قبہ کے اندر نہ جانا، جب جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام حضور اقدس ﷺ کے فرمانے کے مطابق واپس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ قبہ کے اندر خود سرکار علیہ السلام جلوہ افروز ہیں اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام بہت جلد سرکار علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے، کیا دیکھتے ہیں کہ حضور اقدس اسی جگہ اپنے اصحاب کے ساتھ وعظ و نصیحت اور درس حدیث کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں - جبرئیل علیہ السلام اس حالت سے پریشان ہو کر شرمندہ ہوئے اور کہا یا الہی مجھ سے غلطی ہو گئی میری غلطی کو معاف فرما۔ اس حکایت کے متعلق مجد داعظم، اعلی حضرت امام احمد رضا ارضاہ عنا تحریر فرماتے ہیں۔ اسکے ظاہر سے جو عوام جھال کے خیال میں آئے وہ تو صاف صاف حضور اقدس ﷺ کو معاذ اللہ خدا کہنا ہے اس کے کفر صریح ہونے میں کیا شک ہے، حضور اقدس ﷺ نے ہزاروں طرح اس کا(شرک) انسداد فرمایا ہے، مسیح علیہ السلام کی امت ان کے کمالات عالیہ دیکھ کر حد سے گزری اور ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہہ کر کافر ہوئی - ہمارے حضور سید یوم النشور کے کمالات اعلیٰ کے برابر کس کے کمال ہو سکتے ہیں جس کے کمال ہیں سب حضور ہی کے کمال کے پر تو واجلال ہیں ۔ " من رانی فقد رای الحق" جس نے مجھے دیکھا اس نے حق کو دیکھا تو ان تجلیوں کے سامنے کون تھا جو " هذا ربي هذا اكبر " نه بول اٹھتا، لہذا حضور اقدس ﷺ "بِالْمُؤْمِنِينَ رَوفٌ رَّحِيم " کی رحمت نے اپنی امت کے حفظ ایمان کے لئے ہر آن ہر ادا سے اپنی عبدیت اور اپنے رب کی الوہیت ظاہر فرمادی ۔ کلمہ شہادت میں رسوله " سے پہلے عبدہ رکھا کہ اس کے بندے ہیں اور اس کے رسول ہیں "- مزید لکھتے ہیں ۔ بالجملہ رسول اللہ ﷺ با اعتبار حقیقت محمد یه علیه افضل الصلاة والتحيه جس طور پر ہم نے تقریر کی اس مرتبہ اور اس سے بدرجہا زائد کے لائق ہیں۔ مگر یہ واقعہ غلط اور باطل ہے بغیر رد کے اس کا بیان حرام ہے۔ (فتاوی افریقہ صفحہ : ۵۷ تا ۶۰ ملخصا ) (بے اصل روایات تحقیقات رضا کی روشنی میں صفحہ 38) رفض کی بو بھی محسوس کی جا سکتی ہے یہ تو ذات باری تعالیٰ کا معاملہ تھا اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کچھ مقامات پر رافضیت و تفضیلیت کی بو بھی محسوس ہوتی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار سے ظاہر ہے - حضرت مولی علی رضی اللہ عنہ کی منقبت دیکھیے - اے بادشاہ لا فتی مولی علی مشکل کشا ہم رازِ محبوب خدا مولا علی مشکل کشا تلوار دی اللہ نے، دختر رسول اللہ نے ٹھہرے" نصیری کے خدا" مولی علی مشکل کشا فضائل مولی علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پر لکھتے ہیں ......کوئی حیدر کرار غیر فرار کے ڈنکے بجاتا ہے۔ کوئی لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار کی عظمت کے علم اُٹھاتا ہے ۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی نائب یہی ہیں۔ مولی علی علیہ السلام کی عجیب و غریب شانیں ہیں کیا بتاؤں کہ کیا ہیں۔ کہیں شیر خدا کہیں حاجت روا، کسی کے مشکل کشا ،کسی کشتی کے ناخدا، کسی "مذہب کے خدا" ہیں ۔ یہاں رباعی کے چوتھے مصرع میں مولی علی رضی اللہ کو فرقہ نصیریہ کا خدا مان کر فضیلت بتائی جارہی ہے، نیز یہ جملہ کہ" رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی نائب یہی ہیں" ۔ یہ بھی عقائد اہل سنت کے خلاف ہے - اس جملے سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ خلفائے ثلاثہ امور خلافت میں حق پر نہ تھے - صاحب کتاب مولی علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں یہ بھی شمار کراتے ہیں کہ آپ کسی "مذہب کے خدا" ہیں ۔ یہ فضیلت نہیں بل کہ بے جا عقیدت اور عقیدہ اہل سنت سے بغاوت ہے - خدا ہونے کو کیسے فضیلت میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟ حضرت علی کو مولائے کل کہنا. ایک مقام پر سرکار علیہ السلام کی خصوصیات شمار کراتے ہوے لکھتے ہیں...... "آپ پاک و طاہر تھے۔ بحالت غسل بھی آپ کو اور مولائے کائنات علی علیہ السلام کو مسجد میں بے تکلف آنا جانا جائز تھا۔ وہ خصوصیتیں جو" مولائے کل" علی علیہ السلام کے ساتھ حضور کو ہیں کسی اور کو نصیب نہیں - ( میلاد اکبر صفحہ 62) اکثر مقام پر مولی علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ" علیہ السلام" کا لاحقہ موجود ہے جو کہ اہل سنت کا طریقہ نہیں، نیز یہ جملہ قابل غور ہے کہ "وہ خصوصیتیں جو" مولائے کُل" علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضور کو ہیں کسی اور کو نہیں" - یہاں جملہ بر عکس استعمال کیا ہے، ہونا یہ چاہیے تھا کہ جو خصوصیات مولی علی رضی اللہ عنہ کو سرکار علیہ السلام کے ساتھ ہیں.............. ان میں سے بعض کسی اور کو نہیں، لیکن لکھا بر عکس ہے - (کیوں کہ بعض خصوصیات میں بہت سے صحابہ ایک دوسرے سے ممتاز ہیں) یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو" مولائے کُل "کہا گیا ہے یہ عقیدہ بھی اہل سنت کا نہیں ہے، مولائے کل صرف اور صرف ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں - مذکورہ بالا سطور سے یہ واضح ہوگیا کہ میلاد اکبر میں بہت سے مقامات احتیاط ہیں لیکن ہماری بہنوں کو یہ معلوم نہیں اس لئے وہ انھیں بلا جھجھک پڑھتی ہیں، ہماری معلمات کو چاہیے کہ وہ اپنی تقاریر، دروس میں میلاد اکبر کے تعلق سے یہ چیزیں کثرت سے بیان کریں تاکہ خواتین عقیدے کی حفاظت ہو سکے - نوٹ - مضمون میں کی قسم کی شرعی گرفت ہو تو ضرور آگاہ فرمائیں خاص کر شعرا حضرات تاویلات بعیدہ بھی ہو سکتی ہوں تو آگاہ فرمائیں، جزاک اللہ - 4/8/2024 28/1/1446 https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKr
- MANQABAT IMAM HUSSAIN LYRICS, URDU PDF BOOK
مجموعہ مناقب و سلام امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہ نواسۂ رسول،جگرگوشۂ بتول،راکب دوش مصطفی ﷺ حضرت سیّدنا امام عالی مقام امام حُسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں عقیدت و محبت کا نذرانہ
- Main Dar e Mistafa Ka Hun Mangta
میں درِ مُصطفیٰ کا منگتا ہوں بھیک مِلتی ہے آستانے سے جو گدا ہے درِ محمد کا کُچھ نہیں مانگتا زمانے سے *ہر مؤمن کا دل تڑپتا ہے* مدینہ شریف ایمان کا منبع اور اصل ہے ہر مؤمن کا دل یہاں آنے کے لئے تڑپتا رہتا ہے کیونکہ یہاں روح کا قرار ( حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم) محو استراحت ہیں۔ (جواہر البحار 30/5) https://whatsapp.com/channel/0029Va98TkcKrWQpctdEpu0f
- یا الٰہی رحم فرما مصطفیٰ کے واسطے
یا الٰہی رحم فرما مصطفیٰ کے واسطے یارسولَ اللہ کرم کیجے خدا کے واسطے مشکلیں حل کر شہِ مشکل کُشا کے واسطے کر بلائیں رد شہیدِ کربلا کے واسطے سیّدِ سجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے علمِ حق دے باقرِ علمِ ہُدیٰ کے واسطے صدقِ صادق کا تَصدّق صادق الاسلام کر بے غضب راضی ہو کاظم اور رضا کے واسطے بہرِ معروف و سَری معروف دے بے خود سَری جُندِ حق میں گِن جُنیدِ با صفا کے واسطے بہرِ شبلی شیرِ حق دُنیا کے کتوں سے بچا ایک کا رکھ عبدِ واحد بے ریا کے واسطے بوالفرح کا صدقہ کر غم کو فرح، دے حُسن و سعد بوالحسن اور بو سعیدِ سعد زا کے واسطے قادری کر قادری رکھ قادریّوں میں اٹھا قدرِ عبدالقادرِ قدرت نُما کے واسطے اَحْسَنَ اللہُ لَہُمْ رِزْقًا سے دے رزقِ حسن بندۂ رزّاق تاجُ الاصفیا کے واسطے نصر ابی صالح کا صدقہ صالح و منصور رکھ دے حیاتِ دیں مُحیِّ جاں فزا کے واسطے طورِ عرفان و علوّ و حمد و حسنیٰ و بہا دے علی، موسیٰ، حَسن، احمد، بہا کے واسطے بہرِ ابراہیم مجھ پر نارِ غم گلزار کر بھیک دے داتا بھکاری بادشا کے واسطے خانۂ دل کو ضیا دے روئے ایماں کو جمال شہ ضیا مولیٰ جمالُ الاولیا کے واسطے دے محمد کے لیے روزی، کر احمد کے لیے خوانِ فضل اللہ سے حصّہ گدا کے واسطے دین و دنیا کے مجھے برکات دے برکات سے عشقِ حق دے عشقیِ عشق انتما کے واسطے حُبِِّ اہلِ بیت دے آلِ محمد کے لیے کر شہیدِ عشق حمزہ پیشوا کے واسطے دل کو اچھا تن کو ستھرا جان کو پُر نور کر اچھے پیارے شمسِ دیں بدر العلیٰ کے واسطے دو جہاں میں خادمِ آلِ رسول اللہ کر حضرتِ آلِ رسولِ مقتدا کے واسطے صدقہ اِن اَعیاں کے دے چھ عین عز علم و عمل عفو و عرفاں عافیت احمد رؔضا کے واسطے حدائقِ بخشش