دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے
دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے ملحدوں کی کیا مروّت کیجیے ذکر اُن کا چھیڑیے ہر بات میں چھیڑنا شیطاں کا عادت کیجیے مثلِ فارس زلزلے ہوں نجد میں...
نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے
دشمنِ احمد پہ شدّت کیجیے
حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجیے
سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
نہ عرش ایمن نہ اِنِّیْ ذَاہِبٌ میں میہمانی ہے
نبی سَروَرِ ہر رسول و ولی ہے
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
گنہ گاروں کو ہاتف سے نویدِ خوش مآلی ہے
اندھیری رات ہے غم کی گھٹا عصیاں کی کالی ہے
اٹھا دو پردہ دکھا دو چہرہ کہ نورِ باری حجاب میں ہے
عرش کی عقل دنگ ہے چرخ میں آسمان ہے
مژدہ باد اے عاصیو! شافع شہِ ابرار ہے
سَرور کہوں کہ مالک و مَولیٰ کہوں تجھے
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
راہ پُر خار ہے کیا ہونا ہے
کیا مہکتے ہیں مہکنے والے
آنکھیں رو رو کے سُجانے والے
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
قافلے نے سوئے طیبہ کمر آرائی کی
عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسول اللہ کی